سیاسی اختلافات اور نفرت کی بڑھتی ہوئی خلیج

یہ غالباً 2012 کا سال تھا ، ہمارے آفس میں ایک کم عمر لڑکے کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہوا۔لڑکا ہماری میس کے ویٹر کے ساتھ ہیلپر کی ڈیوٹی کرتا تھا اور کافی خوش شکل تھا،ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک سینئر آفیسر نے اس کے ساتھ بدفعلی کی۔اس واقعے کے دوسرے دن جب میں اور ایک دوسرا کولیگ ڈنر کرنے میس پہ گئے تو وہ لڑکا ہمارے پاس آیا اور رونا شروع کردیا۔ہم نے جب اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے ساری کہانی بیان کردی کہ فلاں صاحب نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ہمیں بڑی حیرت ہوئی کیونکہ جس آدمی کے سر وہ الزام تھوپ رہا تھا وہ بظاہر ایک اچھا انسان تھا۔بہرحال میں نے اسے کہا کہ کل ہم اپنے طور پہ تحقیقات کریں گے ، تم دس بجے میرے آفس آجانا۔

رات سونے سے پہلے میں نے اسی شخص کو فون کیا اور میس والے لڑکے کی شکایت کے بارے میں وضاحت مانگی تو کمال ڈھٹائی سے کہنے لگا کہ وہ تو ہے ہی دو نمبر ، مجھے اس لڑکے نے خود اس کام کی دعوت دی تھی۔ایسے اخلاق باختہ استدلال پہ مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن میں نے اس سے الجھنے کی بجائے فون بند کر دیا اور کیس ڈائریکٹر کے پاس لے جانے کا مصمم ارادہ باندھ لیا۔چونکہ میں یہاں پر نیا تھا اس لئے مجھے معلوم نہ تھا کہ مذکورہ شخص اور ڈائریکٹر آپس میں رشتہ دار ہیں۔صبح میں نے اپنے طور پہ ساری تحقیقات کے بعد اس لڑکے کو ساتھ لیا اور ڈائریکٹر کے پاس پہنچ گیا،ڈائریکٹر کو جب کیس کے بارے میں بتایا تو اس نے کہا کہ لڑکا جھوٹ بول رہا ہے ، میں خود تحقیقات کرتا ہوں۔اس نے لڑکے کو سامنے کھڑا کر لیا اور سوالات کا سیشن شروع ہوگیا۔

ڈائریکٹر نے ایسے نازیبا سوالات شروع کر دیے جنھیں سن کر میں بھی شرم سے پانی پانی ہورہا تھا جبکہ لڑکا شرم کے مارے آنکھیں زمین میں گاڑے چپ کھڑا رہا اور بالآخر جب اس کا ضبط جواب دے گیا تو اس نے وہیں رونا شروع کردیا۔مجھ سے یہ سب برداشت نہ ہوسکا ، میں نے کہا سر آپ نے انصاف نہیں کرنا تو نہ کریں لیکن اس مظلوم کی اتنی تذلیل مت کریں کہ اس کا انسانیت سے اعتبار ہی اٹھ جائے۔۔۔۔کل جب عائشہ گلالئی کاشف عباسی اور مبشر لقمان کے سامنے بیٹھی وضاحتیں دے رہی تھی تو مجھے بے اختیار اس بچے اور ڈائریکٹر والا کیس یاد آگیا!اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے اور اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے یہ لوگ کتنا گر جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میڈیا چینلز ، نوسرباز اینکرز اور خود غرض سیاسی رہنماؤں نے نفرت اور عدوات کے وہ بیج بوئے ہیں کہ اب تمام سول سوسائٹی اس طرح دو حصوں میں بٹ چکی ہے جیسے مشرقی اور مغربی جرمنی کو دیوارِ برلن کی مدد سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔دیوارِ برلن تو بالآخر ٹوٹ گئی لیکن یہ دیوار اب شاید ہی ٹوٹ سکے کیونکہ سیاسی اختلاف اب نفرت اور عداوت کا روپ دھار چکا ہے۔انتہا پسندی ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے ۔ ہم جس سے محبت کرتے ہیں وہ بھی بالآخر ہماری محبت کی شدت سے گھبرا کر جان بخشی کی التجا کرتا ہے اور جس سے نفرت کرتے ہیں اس کی لیے بھی زندگی کا ہر دروازہ بند کر دیتے ہیں۔معاشرے سے اعتدال ناپید ہوتا جا رہا ہے اور جس رفتار سے یہ سفر جاری ہے ، مجھے خوف ہے کہ بہت جلد ہم ایک بند گلی میں کھڑے ایک دوسرے کو نوچ رہے ہوں گے ، ایک دوسرے کے خون سے دیواروں پہ اپنے اپنے سیاسی دیوتاؤں کےنعرے لکھ رہے ہوں گے ۔

Facebook Comments

نوید یونس
میرا تعلق ایبٹ آباد سے ہے لیکن بسلسلہء ملازمت راندہ درگاہ ہوں تاریخ ، سیاسیات ، حالاتِ حاضرہ اور ادب سے دلی لگاؤ ہے پہلا شعری مجموعہ زیرِ تکمیل ہے ظاہری تعلیم ایم بی اے اور باطنی طور پہ ابھی پہلی جماعت کا طالب علم ہوں ایک ٹیکسٹائل گروپ میں بطور ملز منیجر ملازمت کر رہا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply