• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مرزائیوں کی حمایت اور حقائق، مکالمہ فورم۔۔۔۔۔سید ممتاز علی بخاری

مرزائیوں کی حمایت اور حقائق، مکالمہ فورم۔۔۔۔۔سید ممتاز علی بخاری

میرا ماننا ہے کہ جب تحریر لکھ دی جائے تو قاری کو اس پہ تنقید کا مکمل حق ہے اور جوابی مضمون لکھنے کا بھی۔ جناب ممتاز بخاری کی یہ تنقید اور جوابی مکالمہ بھی سر آنکھوں پر۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ ہر تنقید اور جواب کا جواب الجواب دینا غیر ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اس تحریر میں دو نکات ایسے ہیں جنکی وضاحت البتہ بہت ضروری ہے۔ اوّل تو میں نے اپنی تحریر میں کہیں بھی مرزا ساب کی خوش نیتی کی بات نہیں کی۔ اگر محترم ممتاز بخاری کو یہ لگا تو یقینا ً میرے ابلاغ کی غلطی ہے۔ میں نے مرز  ا صاحب کی جانب لپکنے والے لوگوں کی نیت کی بات کی کہ اس دور میں مسلمانوں کی حالت سے مایوس، یا کنفیوزڈ لوگ یا راہ حق کے متلاشی مرزا صاحب سے جڑے اور اکثر دعوی ٰ نبوت کے بعد پلٹ گئے۔ کئی پھر بھی جڑے رہے۔ میں نے “مقتدیوں” کی نیت کی بات  عرض کی نا کہ “امام” کی۔ دوسرا، مکالمہ مکمل بور پہ ایک غیر جانبدار پلیٹ فارم ہے۔ نہ  تو ہم احمدی نواز ہیں نا احمدی مخالف۔ ہمیں احمدیوں کو مسلمان بنانے کا بھی کوئی شوق نہیں اور نہیں  یہ ہمارا دائرہ کار   ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ مذہبی معاملات پہ کم سے کم مضامین لگائے جائیں کہ مکالمہ کا مقصد قربتیں  پیدا کرنا ہے، دوری نہیں۔ یہاں احمدی مسئلہ پر حق و مخالفت میں علمی مضامین لگے ہیں۔ مگر یقینا کچھ مضامین، جیسا ممتاز بھائی نے کہا، روکے گئے۔ مگر انکی وجہ انکا احمدی مخالف ہونا نہیں، بلکہ زبان تھی۔ مکالمہ پر کسی بھی ایشو پر مضمون کی زبان اگر اخلاق سے گری ہو تو کیسے لگائیں؟ جب آپ کسی مذہب کے بانی یا اسکے پیروکاروں کو گالی لکھ کر مضمون بھیجیں گے تو مکالمہ کیسے ہو گا؟ اور ایسی تحریر کیونکر چھپے گی؟ مکالمہ ہر پاکستانی، بلا تخصیص مذہب، زبان، قوم یا نسل کا ہے اور اس ہر پاکستانی کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ اب آپ محترم ممتاز بخاری کی تحریر پڑھیے۔ انعام رانا چیف ایڈیٹر، مکالمہ

انعام رانا صاحب کا احمدیوں کی ہمدردی مین لکھا گیا کالم پڑھا۔ کالم تضادات سے بھرا پڑا تھا۔ ایک طرٖف وہ کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کے حوالے سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ سچ پوچھو تو مجھے اللہ میاں بھی کہیں کہ نیا نبی بھیجا ہے تو کہوں گا شکریہ باس پر مجھے میرے محمد ص ہی کافی ہیں ۔ اور پھر انہوں نے انتہائی شاندار الفاظ مین کاپی رائٹ سسٹم کی مثال دیتے ہوئے مسئلہ قادیانیت کا تعارف کروایا لیکن ساتھ ہیں یہاں انہوں نے لکھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا ایک اسلامی ریاست کا انتظامی فیصلہ ہے جو ہم سب مانتے ہیں گو اسلام واضح طور پر کہتا ہے کہ جو خود کو مسلمان کہے اسے مسلمان مانو۔ سر عرض یہ ہے کہ ہر وہ بندہ جو اللہ کی واحدانیت اور محمد ﷺ کی رسالت( ختم نبوت) پر ایمان رکھے مسلمان کہلائے گا۔۔۔یہ ممکن نہیں کہ ایک آدمی ہو تو آتش پرست یا بت پرست۔۔۔۔ لیکن وہ کہے کہ وہ مسلمان ہے تو وہ مسلمان نہین ہو جائے گا صرف کہنے سے۔۔۔۔اس کی مثال کچھ ایسے ہی ہے کہ سستی چرس پینے والا نشئی یہ اعلان کرے کہ وہ ملک کا سربراہ ہے تو وہ سربراہ نہین کہلائے گا۔

سر مسئلہ جوں کا توں ہی رہ گیا۔۔۔آپ نے بہت جگہوں پربہت اچھے نکات اٹھائے ہین۔۔۔۔۔ لیکن آخر مین پھر مسئلے کو ایک بھنور میں چھوڑ دیاہے۔۔۔۔آپ تسلیم کرتے ہیں  کہ مرزا نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کی صاف نیتی کو کیسے ثابت کریں گے۔وہ کیسا صاف نیت ہو سکتا ہے۔اگر آپ کو کوئی گالی دے تو کیا آپ کا رویہ یہی ہو گا کہ بات تو اس نے غلط کی لیکن اس کی نیت پر شک نہیں  کیا جا سکتا کیا آپ کے گھر والوں، آپ کے والدین کو برا بھلا کہنے والے شخص سے آپ کے اچھے مراسم ہو سکتے ہیں  ، اس شخص کی صحبت پر آپ فخر محسوس کر سکتے ہیں، کیا اس کے ساتھ بیٹھ کر چائے، کافی پی سکتے ہیں۔۔۔یقیناً نہیں کیونکہ کوئی بھی باغیرت اولاد اپنے ماں با کو گالیاں دینے والوں سے مراسم نہیں رکھتی تو پھر کیسے آپ فخریہ ایک طرف تو حب نبیﷺ کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کے دشمنوں سے دوستی کے ترانے گاتے ہیں۔قادیانی نفسیاتی خوف میں  مبتلا نہیں  ،انہوں نے لبرل مسلمانوں کو اس فوبیا میں مبتلاء کر رکھا ہے۔۔اگر وہ اپنے آپ کو غیرمسلم تسلیم کر لیتے ہیں  تو بہت سے مسئلے حل ہو جاتے ہیں وہ ہندو، سکھ اور عیسائیوں کی طرح پاکستان میں  رہ سکتے ہیں اور ان کے آئینی حقوق بھی کوئی پامال نہیں کرے گا   لیکن وہ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر عام مسلمانوں کو اپنے چنگل میں پھنساتے ہیں اور جب وہ بندہ مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں  آ جاتا ہے تب اپنے اصل نظریات سامنے لاتے ہیں۔ جب مرزا مسلمان تھا اس دور کی کتب سب سے پہلے دکھائی جاتی ہیں  کہ لو دیکھو ، ہمارے اور آپ کے عقائد ایک سے ہیں  پھر جب مرزا نے محددیت کا دعویٰ کیا اس دور کی تحریریں اور پھر مہدی کا دعویٰ کرنے کے دور کی پھر مسیح موعود کی۔۔۔۔۔۔۔

بھلا ایک ذی شعور کیسے یقین کر سکتا ہے کہ ایک آدمی کیسے ترقی کے مدارج طے کرتا کرتا عالم، مجدد، ظلی نبی اور پھر نبی بن سکتا ہے (نعوذ باللہ)۔۔۔آپ کہتے ہیں مرزا کی نیت پہ شک نہیں کیا جا سکتا۔۔۔مرزا کو آریہ سماجیوں کے خلاف مناظروں سے جو شہرت ملی اس نے اس کے اندر اس ساری خرابی کی بنیاد رکھی۔۔۔۔۔۔ عجیب بات ہے آپ کہتے ہیں کہ وہ دعویٰ نبوت جھوٹا کر گیا اور آپ کو اس کی نیت پر شک نہیں۔۔۔۔کچھ عرصے سے مکالمہ پر دھڑادھڑ ایسی پوسٹیں  آ رہی ہیں جن کے ذریعے قادیانیت کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اور کئی ایک میں  تو ان کو مسلمان ڈکلئیر کروانے کی باتیں بھی ہوئیں ہیں۔ ایک طرف آزادی اظہار رائے کا یہ عالم ہے تو دوسری طرف جوابی کالم شائع کرنے میں  حیلے بہانوں سے کام چلایا جا رہا ہے۔۔کم از کم دو آرٹیکل تو میرے علم میں ہیں جنہیں  قادیانیت کے خلاف ہونے کے باعث شامل اشاعت نہیں کیا گیا۔۔۔۔ میرے خیال میں اگر آپ مکمل غیر جانبداریت کا علم بلند کیے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں کے عقائد کے مغائر آرٹیکل شائع ہونے سے بھی اسے فرق نہیں پڑتا تو جوابی کالموں کو مکمل موقع ملنا چاہیے۔۔۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مکالمہ اپنی افادیت کھو دے گا ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں مکالمہ فورم پر جواب بجھوارہا ہوں لیکن مجھے نہ جانے کیوں لگتا ہے وہاں اس کی شنوائی نہیں ہو گی۔۔۔میں نے اپنا پیغام پہنچانا تھا وہ پہنچا دیا ۔ اللہ پاک سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ وما توفیقی الا باللہ!

Facebook Comments

ممتاز علی بخاری
موصوف جامعہ کشمیر سے ارضیات میں ایم فل کر چکے ہیں۔ ادب سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ عرصہ دس سال سےطنز و مزاح، افسانہ نگاری اور کالم نگاری کرتےہیں۔ طنز و مزاح پر مشتمل کتاب خیالی پلاؤ جلد ہی شائع ہونے جا رہی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی سازش کو بے نقاب کرتی ایک تحقیقاتی کتاب" عصمت رسول پر حملے" شائع ہو چکی ہے۔ بچوں کے ادب سے بھی وابستہ رہے ہیں ۔ مختلف اوقات میں بچوں کے دو مجلے سحر اور چراغ بھی ان کے زیر ادارت شائع ہوئےہیں۔ ایک آن لائن میگزین رنگ برنگ کےبھی چیف ایڈیٹر رہے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply