• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شیخ صاحب !فیصل آباد کو بھی ٹرین کا طلسم لوٹا دیں ۔۔۔کے ایم خالد

شیخ صاحب !فیصل آباد کو بھی ٹرین کا طلسم لوٹا دیں ۔۔۔کے ایم خالد

فیصل آباد تیس لاکھ سے زیادہ آبادی رکھنے والا پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے جس کے لاکھوں خاندان جڑواں شہروں اسلام آباد ،راولپنڈی میں قیام پاکستان سے آباد ہیں جن میں بتدریج اضافہ ہی دیکھا ہے ۔لاہور کی جانب پہلے ہی نا ن اسٹاپ سمیت سپر اسٹاپ ٹرینیں فراٹے بھر رہی ہیں جبکہ فیصل آباد جیسے صنعتی کوشہر اس نئی حکومت میں بھی نان اسٹاپ کی بجائے پسنجر ٹرین کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا ،حالانکہ فیصل آباد سے ہزاروں لوگ روزانہ کی بنیاد پر بھی سفر کرتے ہیں بہت سے لوگوں کا کاروبار اسلام آباد اور راولپنڈی سے منسلک ہے اگر ایک دو نان اسٹاپ ٹرینوں کو فیصل آباد کے روٹ پر بھی ڈال دیا جائے تو فیصل آباد کے عوام بھی حکومت کی اس تبدیلی کو کھلے دل سے خوش آمدید کہیں گے اور یہ روٹ ریلوئے پاکستان کی تاریخ میں ایک منافع بخش روٹ ہوگا ۔


فیصل آباد سے راولپنڈی بچپن میں کئے گئے ٹرین کا سفر کا طلسم جو آج تک حواسوں پر چھایا ہوا ہے ۔وہ دور جس کی میں بات کر رہا ہوں ریلوئے کے سفر کو واقعی عیاشی تصور کیا جاتا تھا۔گرمیوں کی چھٹیاں عموما راولپنڈی میں ہی گزرتی تھیں۔اور یہ چھٹیاں اور ریلوئے کا سفر سارا سال حواس پر چھایا رہتا تھا۔ اس وقت بھی ایک سیاسی ٹرانسپورٹر نے براستہ فیصل آباد راولپنڈی کی طرف آنے والی ملتان ایکسپریس کا وقت کبھی رات کے گیارہ اور کبھی صبح تہجد کے وقت کر دیا تاکہ سواریاں اس کے متبادل سفر کے ذرائع استعمال کریں۔

صبح سویرے اٹھ کر ٹرین پکڑنی ہوتی تھی اس لئے ساری  رات کبھی کپڑوں کو اور کبھی چھٹیوں کے کام اور کتابوں کو وقت گزاری کے لئے دوبارہ ترتیب لگانا شروع کر دیتے اور جب کبھی آنکھ لگ جاتی تو ہلکی سی آہٹ پر بھی ہڑبڑا کر اٹھ جاتے  کہ کہیں ٹرین نہ نکل جائے۔سال بعد ابا کے ساتھ ملاقات ہوتی تھی ان پر رعب بھی تو ڈالنا ہوتا تھا۔بس صبح سویرے پراٹھے پکتے اور ان پراٹھوں کو اس وقت کھانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ان پراٹھوں میں اچار رکھا جاتا ۔گرما گرم چائے کا تھرموس بھرا جاتا ۔دوپہر کے کھانے کے لئے چانپوں کا قیمہ بھنا جاتا۔غرض کہ یہ تیاریاں راتوں رات مکمل کر لی جاتی ۔


رات کے سناٹے میں چچا فیقے کا ٹانگہ ٹھیک وقت پر ہمیں ریلوئے اسٹیشن پر پہنچانے کے لئے تیار ہوتا۔اس کے گھوڑے کے ساتھ بندھے ہوئے گھنگھرو ایک ردھم اور لے کے بجتے تھے۔اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی الھڑ سی مٹیار ہولے سے تھرک رہی ہو اور کبھی کبھی تو وہ اپنے گانے کو شوق بھی پورا کر لیتا ۔او ٹانگے والا خیر منگدا ۔ٹانگہ لور دا ہووے تے بھانوے جھنگ دا ۔ٹانگے والا خیر منگدا۔ریلوئے اسٹیشن پر ٹرین کوئلے والے انجن کے ساتھ ہمارے انتظار میں کوکیں مار رہی ہوتی۔نہ جانے بہت سے بابے اپنے حقے اٹھائے،چمٹے چھپائے بڑی حسرت سے انجن میں جلنے والے کوئلے کو دیکھ رہے ہوتے۔تقریباً دس بجے کے قریب ٹرین حافظ آباد سٹاپ کرتی ہم چونکہ ساری رات کے جاگے ہوئے ہوتے اس لئے ٹرین چلتے ہی یوں محسوس ہوتا جیسے اس نے ایک بڑے سے جھولے کا روپ لے لیا ہو اور ہم نیند کی وادیوں میں کھو جاتے۔ناشتے کے لئے منہ دھویا جاتا اس وقت نہ صرف ریلوئے اسٹیشن پر پانی وافر مقدار میں موجود ہو تا تھا بلکہ ٹرین کے باتھ روم میں بھی پانی دستیاب ہوتا۔اچار اپنا ذائقہ سارے پراٹھے میں چھوڑ دیتا تھا اس پر دیسی گھی کی مہک اور تھرموس سے بھاپ اڑاتی چائے ناشتے کا لطف دوبالا کر دیتی تھی۔یہاں ٹرین فراٹے بھرتی ہوئی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتی اور یہاں سے ہمارا مشغلہ کھڑکی سے منہ باہر نکال کر قدرت کے حسن کا نظارہ کرنا تھا ۔جہلم تک پہنچتے گرمی کی شدت میں انتہا کا اضافہ ہو جاتا تھا ۔

صبح سویرے سر میں لگایا ہوا سرسوں کا خالص تیل گرمی کی حدت سے قلموں سے نیچے  بہنا شروع ہو جاتا   اور نہیں تو کیا۔جہلم ریلوئے اسٹیشن کے پکوڑے جو اس وقت آج کے حالات کے مقابلے میں خالص ہی لگتے تھے۔جو گھر کا پکا ہوا قیمہ کھانا چاہتا وہ کھاتا ہم عموماًپکوڑوں کے ساتھ ہی کھانا نوش کرتے۔جہلم ریلوئے اسٹیشن کا ٹھنڈا پانی دل کھول کا پیتے اور خدا کا شکر بجا لاتے اس وقت ہماری چھوٹی سی دنیا منرل واٹر سے پاک تھی اور سرکاری پانی کو ہی سب سے صاف سمجھا جاتا تھا۔

مزے کی بات یہ ہے ٹرین کی کھڑکی سے منہ باہر نکال جیسا بھی گانا گائیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ٹرین بھی جواب میں وہی گانا گنگنا رہی ہے۔او ر میں نہ جانے پنڈی پہنچنے تک کتنے گانے گا چکا ہوتا۔بار بار منہ باہر نکالنے سے نہ صرف گلہ خراب ہو جاتا بلکہ لوگوں کے کھائے ہوئے پان کے نشانات بھی چہرے اور کپڑوں پر اپنی گلکاریاں دکھا دیتے۔اس سفر کے دوران لڈو کی بازی جمتی کبھی یسو،پنجو کھیلتے اور کبھی کاپی کھول کر لاواں لاواں کھیلتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london


ٹرین کے سفر کو ہر عمر کے لوگ پسند کرتے ہیں۔زیادہ تر لوگ ٹرین کا سفر باتھ روم کی سہولت کی وجہ سے کرتے تھے۔کیونکہ بڑی عمر کے لوگ عموماً بہت سے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں اور ٹرین میں باتھ روم اور پانی کی وجہ سے انہیں بہت سہولت رہتی ہے۔اس سفر کے دوران ٹرین کبھی ہرے بھرے میدانوں ،کبھی دشوار گزار پہاڑی راستوں اور جب کوکیں مارتی ہوئی سرنگوں سے گزرتی تھی تو ایک عجیب سا سماں ہوتا تھا چھوٹے بچے چیخیں مارتے ہوئے اپنی ماؤں کے ساتھ لپٹ جاتے تھے۔جب گاڑی راولپنڈی کے قریب ہوتی تو اس کی ر فتار اس قدر سست ہوتی جیسے تھک چکی ہو منزل پر پہنچنے کی خوش اس قدر شدید ہوتی کہ تھکاوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا۔کوئلے والے انجن کادھواں اس قدر چہرے پر جم سا جاتا چہرے کو ایک دو دن رگڑ رگڑ کر صاف کرتے تب کہیں صاف ہوتا ۔

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply