ہماری معاشرتی زندگی کی زبوں حالی ۔۔۔

اہل مغرب جب کوئی نئی چیز دریافت کرتے ہیں تو اس کو اپنے معاشرے اپنے علاقے اور وطن کے ضروت کو مد نظر رکھ باقاعدہ طور پر اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مگر بدقسمتی یہ کہ اہل مشرق اسی چیز کے اصل استعمال کی روح کو مسخ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ دور حاضر میں ابلاغ کا بہت ہی آسان سستا اور تیز ترین راستہ سوشل میڈیا کی دریافت اور اس کا چڑھتا ہوا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے ۔ مگر ہمارے ہاں اگر صحیح فقہی نظروں سے دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کے سورج کو گرہن لگ چکا ہے ۔ہمارا سوشل میڈیا کا استعمال ، اس پہ شئیر کرنے والے پوسٹس ہمارے معاشرے کی نفسیاتی ترجمانی کر رہی ہے اور ہماری زبوں حالی کی دھاڑیں مارمار کر حالت زار بیان کر رہی ہے ۔
ہمارے ہاں اجتماعی ہو یا انفرادی شعور ناپید ہو چکا ہے۔ ہم طنز ومزاح کرتے کرتے عزت نفس کا جنازہ نکلوا دیتے ہیں۔ مگر مجال ہے کہ کان پہ اک جوں تک بھی رینگے۔ ہمارا مذاق عقل و دانست کی اس گندگی اور غلاظت کی ترجمانی کر رہا ہے کہ جس کی حبس تعفن معاشرے کو ناقابل برداشت بنا رہی ہے۔ اور اسی المیے کی ضد میں ہم آج آچکے ہیں۔
بحیثیت معاشرہ ہم اک سچے اور مہذہب دین کے ماننے والے ہیں اورہماری عائلی زندگی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہر گھر آباد ہونے سے قبل اجاڑ کے دہانے پہ جا کھڑا ہوچکا ہوتاہے اور بس اسی تابوت پہ بسنے کے آخری کیل رہ گئے ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی گھر پہ شادی خانہ آبادی کی رسم اختتام کو پہنچتی ہے ابھی شادی کے ڈھول ڈھلکوں کی تپش اس گھر کے صحن سے گئی بھی نہیں ہوتی کہ رشتہ ازدواج کی گاڑی آہستہ آہستہ لڑھکنی شروع ہوچکی ہوتی ہے۔ کبھی اس بارے میں سنجیدہ و رنجیدہ فکر ہوئے ہی نہیں ہم ؟ ، کبھی عقل کے ناخن یہاں پہ لیے ہیں یا لینے کا سوچا تک بھی ہے کسی نے ؟ کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اسلامی نظریے کے عین فہم میں رشتہ ازدواج جو ہر طرح سے قدر ومنزلت اور طہارت کا پیمبر ہوتا ہے شروع ہونے سے پہلے ہی زوال کے دہانے پہ پہنچ چکا ہوتا ہے۔ شادی خانہ آبادی تو بس چند ساعتوں کے لیے گھر محلے معاشرے سماج کی آنکھوں پہ دھول جھونکنے کے لیے ہوتی ہے ۔
باقی وہ خانہ آبادی کے آخری نہج پہ کھڑی ہو چکی ہوتی ہے۔ کبھی ہمیں اس بات کی توفیق نصیب ہی نہیں ہوئی کہ وجہ معلوم کرنے کے لیے سر جوڑ کے بیٹھ جائیں،اسکی چند بنیادی وجوہات ہیں جو اس تحریر میں سامنے رکھتا ہوں ۔ جو سوچنے کا مطالبہ کرتی ہیں ۔
☆ہمارے معاشرے میں ہر طرف نظر دوڑائیں تو اک سرد جنگ چھڑ گئی ہے ۔ مرد حضرات بڑے دھڑام سے سوشل میڈیا ہو یا ٹی شوز ،بیوی جیسے رشتے کا بےبانگ مذاق اڑیا جاتا ہے ۔ پہلے تو عورت ذات نے اپنا جبلی برادشت کا مظاہرہ کیا مگر اب ان کا صبر بھی اپنے اتمام کو پہنچ گیا اور انہوں نے بھی ارادہ کر لیا کہ مرد کے طنز یہ اور مزاحا ًاقوال و لطائف کا منہ توڑ جواب دینے کا ۔ مگر ہم چھلے کے چھلے ہی رہ گئے اور ہنسنے اور ہنسانے کے بے ہودہ شیطانی چال میں پھنس کرلمبے لمبے پیلے دانت دکھاتے چلے گئے۔ معاملے کی نزاکت اور اس میں جان لیوا نقصان کو بھانپ ہی نہ سکے اور آج معاشرے کا ہر گھر اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے ۔
آج اپ کسی بھی فورم پہ یہ بات اجمالاً کہہ دیں کہ مخلوط نظام کا خاتمہ ہو ، چاہے تعلیمی ہو ، دینی ہو ، دفاعی ہو ، سائنسی ہو، خانقاہی ہو ، غرض جو بھی ہو سب میں عورت اور مرد ذات کا صرف ظاہر مکانی علیحدگی نہیں بکہ پہلی اکائی سے لیکر کے آخری اختتام تک علیحدہ انتظام و انصرام ہو۔ دیکھ لیں آپ پہ چیل کووں سے بھی زیادہ برس پڑتے ہیں کہ نہیں۔ اور پھر باقاعدہ دینی درس بھی شروع ہو جائے گا۔ اور یہ ضد اسی مردانگی کے رویے کے طفیل ہی پیدا ہوا۔ ورنہ اپنے اسلاف کی طرف نظر یں اٹھا کے دیکھیں تو وہاں منظر ہی کچھ اور دکھے گا ۔ وہاں تو ولی خانہ (مرد) اپنے آپ میں ولی ہوتا تھا تو گھر کی مالکن اپنے آپ میں درویشی کی صحرا لیے پھرتی ہوتی تھی ۔ تبھی انہوں نے اپنے وجود سے ، بایزید ، اور اقبال جیسے موتی جنم دیےاور آج دیکھ لیں ننگے لولے لنگڑے اداکار کوئی خان تو کوئی دبنگ ، کوئی لیلا تو کوئی نیلا۔
☆ آج آپ اپنے ہی گھر میں یہ پابندی عائد کرنے کا اعلان کردیں کہ آج کے بعد گھر میں آنے والی ہر خوشی باقاعدہ اسلامی اصول پہ منائی جائے گی ۔ تو یک دم سے سر بکف آکھڑی ہوجائیں گی گھر کی بڑی عورتیں اور پھر ان سے چھوٹی اور پھر ان سب سے چھوٹی صف در صف اور اپنے نسوانی حقوق کے حق میں سینہ سپر ہوکر کھڑی ہو جائے گی۔ اور آگے رکاوٹ پہ کھڑا ہونے والا بچارہ مری طرح کمزور ایمان و دل کا مالک اس مصلحت کو مد نظر رکھ کر راستہ چھوڑ دیتا ہے کہ چلو اک ہی خوشی تو آئی ہے اپنے گھر اب اسمیں بھی ہڈی بن کر ذائقہ و مزہ خراب کرنا اچھی بات نہیں اور دل مولنے کے اس تلی میں اماں جی یا پھوپھی وغیرہ میں سے آنے والی جذباتی مصالحے دار نسخے سونے پہ سہاگہ کا کام کرتے ہیں ۔
☆ تیسری اک عجیب تخیلاتی پسماندہ اور بیہودہ سی فلاسفی نے معاشرتی وجود کو ذہنی و فکری مفلوج بنا دیا ہے۔ کہا جاتا ہے “ساری بات آنکھوں میں حیا ہونے کی ہوتی ہے۔ جب آنکھوں میں حیا ہو تو ننگابدن بھی باحیا دکھتا ہے ، اور جب آنکھوں میں حیا نہ رہے تب سر تا پیر چھپا بدن بھی ننگا دکھتا ہے ۔”جب اسطرح کی فلاسفی نے معاشرتی رگوں میں گشت لگائی تو ہم سب کو مدہوش کر کے رکھ دیا اور شراب کے نشے میں جیسے دھت ہوکر شعوری صحت ماوف ہوکر رہ جاتی تب اچھے اور برے کی تمیز ختم ہو جاتی ہو
اغیار ہماری اس حماقت پہ ہنس ہنس کے خود کو ہلکان نہیں کر رہا اور نہ اب وہ ہم سے دست و گریباں ہو رہے ہیں۔ وہ تو بس ہمارے سامنے ہڈی پھینک کے چلا جاتا ہے اور پیچھے سے ہم پہ نفسیاتی پنجرے کا قفل بند کر دیتا ہے ۔ جب وہ ہڈی پہ لڑ مر کے یا ھم خود اس پنجرے کے ا ندر مر جاتے ہیں یا پھر چھین جھپٹ کر آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں تب وہ نئی بوٹی ڈالنے آجاتا ہے اور یوں وہ بڑے آرام سے آگے چلتا جا رہا ہے آزاد گھوم کر اور مزے سے زندگی گزار رہا ہے جبکہ ہم اسکے رحم و کرم پہ بیٹھے اک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں ۔مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم آج تک اپنی بیوی کو نصیحت بھی دوسروں کے کہنے پہ ان سے سیکھ کر کرتے ہیں ۔ ہمیں خود آج تک زوج کا املا تک نہ آیا تو باقی امور نبھانے تو کسی اگلے جنم کی بات جیسی لگتی ہے۔ہمیں آج تک یہ معلوم نہ ہوا کہ محافل کے رنگ گفتگو میں ہوتے ہیں اور گفتگو کا موضوع سخن علمی ہوتا ہے نہ کہ بیوی۔
ہمیں بحیثیت قوم یہ شعور آیا ہی نہیں کہ علم شعور کی آبیاری کرتا ہے اور شعور کردار کی ۔ یاد رکھیں معاشرے ترقی و خوشحالی کے راستے میں اس وقت چل پڑتے ہیں جب معاشرے کے افراد میں شعور و آگاہی پیدا ہوجاتی ہے۔ شعور و آگاہی صرف علم کے بطن سے ہی جنم لیتی ہے۔ اور علم قرآن کی صورت میں اللہ تبارک وتعالی نے 1400 سال پہلے محبوب مدنی پہ اتمام فرما چکے ہیں۔
اور علم کا چشمہ اللہ نے قرآن کی صورت میں اپنے محبوب کے ذریعے پھیلا دیا۔ لیکن ہماری تو مٹی میں ہی جیسے تقسیم کا مادہ شامل ہے۔ ہم جب تک چیزوں کو حصوں میں تقسیم نہ کردیں تب تک چین ہی نہیں ملتا۔ اور ہم نے علم کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ، اک دینی علم اور دوسرا عصری علم کہلایا۔ دونوں کے صرف تقسیم پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کو اک دوسرے کا ازلی دشمن بھی بنا دیا ۔ اور اب معاشرے میں عملی کردار اک ساتھ دو پہلو اختیار ہی نہیں کر سکتا ۔تب معاشرتی زندگی مدینہ ساڑھے چودہ سو سال بعد اب بھی دور حاضر میں معاشرتی ہو یا عائلی زندگی کے لیے اک بےمثال نمونہ ٹھہر گئی اور رہتی دنیا تک رہے گی۔
یاد رکھیں بنی نوع انسان کا کسی بھی جنس کا ہو کسی بھی قسم کا مذاق و طنز ومزح اڑانے سے قبل قرآن کریم کے اس آیت کریمہ کو ذہن میں رکھیں کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا۔
وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا ﴿70﴾
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے ، اور انہیں خشکی اور سمندر دونوں میں سواریاں مہیا کی ہیں ، اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا ہے ، اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے ۔ (سورہ بنی اسرائیل : 70)
اور پھر بالخصوص عورتوں کے بارے میں تو الگ سے وعظ فرمائی ۔ جو کہ بیوی کی صورت میں آج کل لطائف و طنز ومزاح کہ موضوع سخن بناہوا ہے۔ جسکی وجہ سے نہ بیوی ،بیوی کے مقام پہ رہی اور نہ شوہر شوہر کے مقام پہ رہا۔ قرآن اسی حوالے سے اک بیوی کی کہانی سنا کر وعظ فرما رہا اور اک سورت کو نام بھی ” شکایت کرنے والی عورت”قراردیا ، یہ ہے سورہ المجادلہ ۔ قرآن فرماتا ہے۔
اک عورت تھی محبوب پاک علیہ الصلوات والسلام کے وقت میں ۔ یہ خاتون جن کے معاملہ میں آیات نازل ہوئی ہیں قبیلہ خَزرَج کی خَولہ بنت ثعلبہ تھیں ، اور ان کے شوہر اَوْس بن صامِت انصاری ، قبیلہ اَوس کے سردار حضرت عبادہ بن صامِت کے بھائی تھے، ان سے اسکی شادی ہوئی تھی ۔
ہوا یہ کہ جب وہ عورت یعنی خولہ عمر کے لحاظ سے بڑھاپے میں داخل ہوگئی ۔ تو اسکا اپنے شوہر کے ساتھ تکرار ہوا جبکہ وہ بھی تقریبا ًبڑھاپے کی ہی عمر میں تھے ۔ تو اس دوران اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم میری ماں کی طرح ہو یعنی بوڑھی ہو چکی ہو اب مجھے کچھ خاص اچھی نہیں لگتی ہو ۔ اسکے بعد وہ باہر چلا گیا دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد واپس آئے تو وہ پھر سے اپنی زوج کے ساتھ تعلق زوجیت نبھانا چاہتا تھا ، پیار دلانا چاہتا تھا ۔ تو اس کی بیوی نے انکار کر دیا اور کہا کہ اب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاوں گی شکایت کرنے۔آپ کا اس بات سے مطلب کیا تھا ؟ آپ ہر وقت ایسی بات کرتے رہتے ہو جو مجھے دکھ دیتی ہے۔ آج جب میں بوڑھی ہو گئی ہوں ، مزید بچے پیدا نہیں کرسکتی ۔ جب میں جوان تھی آپ کے ساتھ زندگی گزاری۔ جتنے آپکے لیے آپکے بچے پیدا کرسکتی تھی کیے اب تم یہ کہہ رہے ہو کہ مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں تمہیں۔ اب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس جاونگی اور شکایت کرونگی۔ اور میں تب تک آپ کو مجھے چھونے کی اجازت نہیں دونگی جب تک اللہ اس بارے میں فیصلہ نہ فرمائے جو یہاں پہ ہوا ۔ وہ عورت محبوب پاک کے اقدس مبارک پہ گئی اور فرمایا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شکایت کرنے آئی ہوں اپنے شوہر کے بارے میں ۔ میں جوان تھی اوس ابن صامت سے شادی کی ، اسکے بچے پیدا کیے آج جبکہ میں بوڑھی ہوگئی ہوں مزید بچے پیدا نہیں کرسکتی اب وہ روزانہ ایسی باتیں کرتا ہے جو مجھے دکھ دیتی ہیں ۔ اور آج اس نے مجھے کہا کہ تم مری ماں کی طرح ہو یعنی مجھ میں دلچسپی نہیں رہی ۔ لیکن بعد میں وہ پھر مجھے چھونا چاہتا تھا میں نے اسے انکار کیا اور کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا رہی ہوں اور اللہ سےشکایت کرونگی کہ اس بارے میں فیصلہ فرمائے جو یہاں ہوا تھا۔
تو محبوب پاک علیہ الصلوات والسلام نے فرمایا ! یا خولہ دیکھو وہ آپکا شوہر ہے اور اس بات کو وجہ نہ بنائو اس کو اپنے آپ سے دور ر کھنے کی۔ اسکی اس بات کا برا نہ منانا اور اسکو معاف کردو ۔ وہ اٹھی مطمئن تو تھی اسلیے کیونکہ آگے سے جواب میں محبوب پاک علیہ الصلوات والسلام مبارک تھے مگر وہ انتظار میں تھی کیونکہ اس نے کہا تھا کہ میں اللہ کو شکایت کرونگی تو کہیں پہ یہ یقین تھا کہ اللہ مرا فیصلہ فرمائے گا اور نہ جانے کیوں وحی کا انتظار کر رہی تھی ۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں دوسرے کمرے میں تھی میں سن رہی تھی کہ محبوب پاک پر آیتیں اتر رہی تھیں اور آپ انہیں تلاوت کرنے لگے۔
۔ فرمایا گیا
”پس اللہ تعالیٰ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملے میں تم سے تکرار کرتی ہے اور اللہ سے فریاد کئے جاتی ہے، اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، وہ سب کچھ دیکھنے والا اور سننے والا ہے“۔ (پارہ 28 آیت نمبر 1)
اور پھر محبوب پاک نے اس عورت کو واپس بلا لیا۔ اسکی آنکھوں میں آنسو تھے کہ میں نے اللہ کو شکایت کی اور اللہ نے مری سن لی اور اپنا فیصلہ اتارا۔اور اسی کے ساتھ اللہ نے اگلی آیت مبارکہ میں فرمایا۔
وہ جو تم میں اپنی بیویوں کو اپنی ماں کی جگہ کہہ بیٹھتے ہیں ۔ وہ ان کی مائیں نہیں ۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جن سے وہ پیدا ہوئے ہیں ۔اور وہ بیشک بری اور جھوٹ بات کہتے ہیں ۔اور بیشک اللہ ضرور معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔”
اسطرح کے جملے اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ۔ بلکہ شوہروں کو اپنی بیویوں کے بارے میں مختاط ہونا چاہیے اور بالخصوص جب وہ بڑھاپے کی عمر میں پہنج جائیں،اور اللہ نے یقین دہانی کرائی اس عورت کی شکایت کے بارے میں کہ اس کا شوہر اپنی بیوی کو تب تک نہیں چھو سکے گا جب تک وہ اپنے اس جملے کے لیے جرمانہ ادا نہ کرے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے خولہ ! آپ کا شوہر لازم غلاموں کو آزاد کرے گا اس سے پہلے کہ وہ آپ کو چھوے۔ خولہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ اسکو نہیں جانتے ؟ اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ تو اللہ نے اسی ہی آیت کا دوسرا حصہ نازل فرمایا : کہ اگر وہ غلام آزاد نہیں کر سکتا پھر وہ 60 دن مسلسل روزے رکھے گا ۔ تو خولہ رضی اللہ عنہ کو جھٹکا لگا اور محبوب پاک مبارک کی طرف دیکھنے لگی کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ جسمانی طور پر اک روزہ بھی نہیں رکھ سکتا بڑھاپے و کمزوری کی باعث وہ روزوں (رمضان) کا فدیہ ادا کرتا ہے تو 60 روزے مسلسل کیسے رکھے گا؟ تو آیت کریمہ کا تیسرا حصہ اللہ جل شانہ نے نازل فرمایا۔ کہ جو 60 روزے مسلسل نہیں رکھ سکتا تو پھر وہ 60 مسکینوں کو کھانا کھلائے گا۔ خولہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا یا رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکے پاس کچھ بھی نہیں وہ اک بندے کو بھی نہیں کھلا سکتا ۔ تو رحمت اللعالمینؐ نے خولہ کی طرف دیکھا اور فرمانے لگے، او خولہ دیکھ یہ لے مرے پاس اتنی مقدار ہے کہ جو 30 بندوں کا کھانا ہوسکے تو خولہ بولی محبوب پاک مرے پاس بھی مرے اپنی کچھ رقم ہے جو یقیناً اس سے 30 مزید بندوں کا کھانا ہو سکے گا اور یوں 60 بندوں کا کھانا ہوجائے گا اور پھر میں اسکو اپنے پاس آنے کی اجازت دے دونگی۔ اس کے بعد راوی روایت کرتے ہیں کہ اسکا شوہر پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ نہایت عمدہ بنا ۔
ابن ابی حاتم و بیہقی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر کچھ اصحاب کے ساتھ کہیں جا رہے تھے ۔ راستہ میں ایک عورت ملی اور اس نے ان کو روکا ۔ آپ فوراً رک گئے ۔ سر جھکا کر دیر تک اس کی بات سنتے رہے اور جب تک اس نے بات ختم نہ کر لی آپ کھڑے رہے ۔ ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا امیر المومنین ، آپ نے قریش کے سرداروں کو اس بڑھیا کے لیے اتنی دیر روکے رکھا ۔ فرمایا جانتے بھی ہو یہ کون ہے؟ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہے ۔ یہ وہ عورت ہے جس کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی ۔ خدا کی قسم ، اگر یہ رات تک مجھے کھڑا رکھتی تو میں کھڑا رہتا ، بس نمازوں کے اوقات پر اس سے معذرت کر دیتا ۔
یہ ہے عورت کا مقام جو اسکو اللہ نے قرآن میں بھی بڑے واضح الفاظ میں بیان ، فرمایا اور اسکے دل دکھانے جیسے عمل پہ سزا بھی مقرر فرمائی دنیا ہی میں۔ عورت کا تو مقام اک جگہ پہ حضرت رابعہ بصری علیھا الرحمہ نے فرمایا کہ عورتیں پیغمبری کا دعویٰ نہیں کرتی بلکہ وہ تو پیغمبرو کو جنا کرتی ہیں ۔
اور آج ہم بیوی کے نام پہ بیوقوفوں کی طرح طنز و مزاح کرتے تھکتے نہیں۔ اسلام کا خلاصہ بیان کرتے وقت خطبہ حجتہ الوداع میں محبوب عالم علیہ الصلوات والسلام نے ان الفاط میں عورت کی تعظیم بیان کرنے میں کیا درس پوشیدہ تھی ؟ ” کہ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ۔”کبھی سوچا ہم نے ؟ ہم جب تک عورت کی عزت کرنا نہیں سکیھیں گے مرد کچھ بن جائے معاشرے میں سکون و چین کی زندگی گزار نہیں سکتا۔
اللہ کرے کہ یہ باتیں ہماری سمجھ میں آجائیں ۔
اللہ ھم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔

Facebook Comments

سلمان اسلم
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply