ماں بولی کا نوحہ۔۔۔ انعام رانا

بات فقط اتنی نہیں کہ بیکن ہاوس میں پنجابی پہ پابندی لگی کہ وہاں تو بھیجا ہی فرفر انگریزی بولنے کیلیے جاتا ہے، بات فقط اتنی بھی نہیں کہ پنجابی کو گالی کا مترادف بنا دیا گیا، بات تو اس سچ کی ہے جو ہم اپنے آپ سے بولنے کو تیار نہیں ہیں، کڑوا سچ۔

کہتے ہیں کہ بہترین سچ وہ ہے جو آپ خود اپنے خلاف بھی بول سکیں۔ تو ایک سچا واقعہ سنئیے۔ اپنی ماں کے انتہائی تابعدار میرے والد نے ایک دن میری دادی سے کہا “بی بی جی تسی انعام نال پنجابی نا بولیا کرو، ایہ فیر سکول وچ وی پنجابی بولے گا”(بی بی جی انعام سے پنجابی نا بولا کریں، یہ پھر سکول میں بھی پنجابی بولے گا)۔ اسّی سال سے اوپر کی میری دادی نے اس کے بعد اپنے لاڈلے ترین پوتے سے گلابی اردو بولنی شروع کر دی جو بہت میٹھی ہوتی تھی۔ مگر یہ گلابی اردو وہ میرے ماں باپ کے سامنے بولتی تھیں، جب بھی انکے آس پاس ہونے کا خطرہ نا ہوتا تو ہم دادی پوتا کھل کر پنجابی بولتے تھے۔ دراصل پنجابی میں نے سیکھی ہی اپنی دادی سے ورنہ گونگا رہ جاتا، جو ماں بولی نا بول سکے، اس سے بڑا گونگا کون ہو گا۔ میرے نئے نئے جج بنے والد کا یہی مڈل کلاس کمپلیکس تھا جو پورے پنجاب کے سماج کا کڑوا سچ ہے۔

میرے والد نے یہ کیوں کہا؟ کیونکہ وہ اس ہائی مڈل کلاس کا حصہ بننا اور ہمیں بنانا چاہتے تھے جو تہذیب یافتہ ہے، مینرڈ ہے، رولنگ کلاس ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اسی اور نوے کی دہائی تک یہ کلاس اچھی اردو نہ بولنے والے کو اپنا حصہ نہیں مانتی تھی۔ مزے کی بات کہ جیسے ہی میرے والد نے پچاس پچپن ٹاپے، یکدم وہ ہم سے پنجابی بولنا شروع ہو گئے۔ اب کوئی نفسیاتی گتھی تھی کہ میں ساری دنیا سے پنجابی بولتا تھا مگر اپنے والد سے نہیں بول پاتا تھا۔ سو مضحکہ خیز صورت ہوتی کہ وہ پنجابی میں بات کر رہے ہوتے اور میں اردو میں جواب دے رھا ہوتا۔ آج بھی میں اپنی والدہ یا بھائی بہنوں سے پنجابی بولتا ہوا اوپرا محسوس کرتا ہوں۔

اردو کا آغاز ایک رابطے کی زبان کے طور پر ہوا۔ جب تک یہ فقط رابطے کی زبان رہی، ہماری مقامی زبانیں محفوظ بھی رہیں اور بہترین ادب بھی جنم دیتی رہیں۔ مگر پھر اردو ہماری مذہبی زبان بن گئی، اشرافیہ کی زبان قرار پائی، درباری زبان ہونے کی وجہ سے تہذیب کی نمائندہ بنا دی گئی۔ اب آپکا با علم اور مہذب ہونا آپ کے شین قاف کی درستگی سے مشروط ہوا اور ایمان کی مظبوطی بھی اردو کی مر ہون منت ہوئی۔ اسی دور کی نشانی ہے کہ نیاز فتح پوری کو اقبال پہ حیرت ہوئی کہ دھوتی پہنتا اور عام زندگی میں پنجابی بولتا ہے، اور اسی دور میں مولوی عبد الحق نے اردو اور اسلام کو ایمان کا معیار قرار دے دیا۔ پنجاب کو نجانے کون سا احساس کمتری تھا کہ اس روئیے کو سب سے زیادہ پنجابیوں نے ہی اپنایا۔ مزید آگے آئیے تو اردو قومی زبان بن گئی، انکی بھی جو پاکستان بنانے والی اکثریت تھے مگر بنگالی بولتے تھے۔ آپ نے ان سے اردو کے نام پر انکی زبان، حب وطن اور تہذیب کو چھیننا چاہا، وہ آپکا وطن، زبان اور تہذیب آپکے منہ پر مار کر چلے گئے۔ مگر باز ہم پھر بھی کب آئے۔ رابطے کی زبان کو قومی زبان قرار دے کر باقیوں کو علاقائی زبان کا کمتر نام دینا بھی تو ایک شرمناک رویہ ہے جو اب بھی جاری ہے۔

پنجاب سے باہر نکلیں تو یہ احساس کمتری کم ہے۔ مجھے خیبر پھرنے کا کافی اتفاق ہوا۔ وہ اردو بولتے ہیں مگر بس رابطے کی زبان کی حد تک۔ وہ اپنے بچوں سے پشتو بولتے ہیں اور شرمسار بھی نہیں ہوتے۔ ہماری لعلونہ یا لالہ عارف یا کسی اور پٹھان لکھاری کی تحریر آئے تو تھرتھلی مچ جاتی ہے کہ اسے ایڈٹ کون کرے۔ مگر میں خوش ہوتا ہوں کہ وہ کسی احساس کمتری کا شکار نہیں ہیں۔ سنا ہے سندھی اور بلوچ بھی ایسے ہی ہیں۔ پنجابیوں میں فقط سکھوں میں اپنی زبان پہ احساس فخر ہے اور وہ انگلینڈ، کینیڈا، امریکہ میں بھی فخر سے اپنی زبان بولتے ہیں اور اپنے بچوں کو ہندی یا انگریزی گھر پہ نہیں بولنے دیتے۔ مگر اب اردو کا دور گزرا اور اب یہ مقام انگریزی کا ہے کہ اردو تو اب نوکروں کے بچے بھی بہت اچھی بولتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد شاید کوئی اور زبان ہماری اشرافیہ اپنے لیے مختص کرے کہ فارسی، اردو اور انگریزی کو انھوں نے عوام سے کٹنے کیلیے، خود کو برتر رکھنے کیلیے استعمال کیا۔

بیکن ہاوس سکول کا شرمناک سرکلر بھی اسی روئیے کا عکاس ہے جو اوپر بیان کیا۔ ساہیوال جیسے جانگلی پنجابی علاقے کا ایک پرنسپل اپنے سکول میں پابندی لگاتا ہے کہ گالی دینا اور پنجابی بولنا منع ہے۔ احتجاج پہ سکول سرکلر کو “اون” کرتے ہوے کہتا ہے کہ پرنسپل نے پنجابی گالی کی بات کی، بس بریکٹ میں لکھا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اوّل تو سرکلر میں پنجابی کے آگے گالی کی وضاحت نہیں۔ اگر بقول آپکے پرنسپل یہ کہنا چاہتا تھا تو ایسے گاودی اور کمزور زبان پرنسپل کو فورا برطرف کیجیے، اتنی بھاری فیسیں ہمارے بچے ایسی غلط انگلش سیکھنے کیلیے نہی دیتے جہاں مافی الضمیر ہی بیان نا ہو سکے۔ اور اگر پنجابی(گالی) پہ پابندی مراد تھی تو کیا اردو یا انگریزی میں گالی کی اجازت ہو گی؟ افسوس میاں محمود قصوری جیسے وکیل کی اولاد ایک اچھا جواب بھی تیار نہ کر سکی۔

مگر فقط بیکن ہاوس کو مطعون کرنے سے کیا ہو گا۔ وہ تو ایک بزنس ہے جو ہم جیسے احساس کمتری کے ماروں کی اولاد کو بھاری فیس لے کر انگریزی سکھا رھا ہے تاکہ وہ “تہذیب یافتہ اور باعلم” کلاس کا حصہ بن سکیں جو آجکل انگریزی ہی بولتی ہے۔ سوچنا تو ہمیں ہے کہ پہلے فارسی، پھر اردو اور اب انگریزی، کب تک بدیشی زبانوں کی خاطر ہم اپنی زبانیں کٹواتے رہیں گے۔ کیوں بلوچی، سندھی، پشتو، پنجابی، پوٹھوہاری اور سرائیکی زبانیں بولنے والے گونگے اور باقی “اہل زبان” ہیں۔ سب لوگ اپنی اپنی زبان پہ فخر کریں، بچوں سے بولیں، رابطے کی تمام زبانوں کو ان کا مقام دیں، رابطے کا۔ آپکی تہذیب، عزت اور ترقی آپکی اپنی زبان سے وابستہ ہے، ورنہ کوا پر بدل بدل کر لگائے گا مگر ہنس کبھی نہیں بنے گا۔

ایک نظم، پنجابی سمجھنے والے دوستوں کے نام؛

                          ” ماں بولی دا سوگ”

   لٹّے گئے نے حرف مرے

   تے کھوئی گئی زبان

   فر فر اردو بولن والے

   ماں بولی پہچان،

   انج تے بولاں کئی زباناں

   اک وی میری ناہیں

   اردو انگلش بولی جاواں

   توڑاں پیریں باہیں

   لکھ پڑھ جے پنجابی جاندا

   پے جاندا میں راہیں

   لاج مری نے ماں بولی دا

   گھٹ دتا اے ساہیں،

   اردو آلے آکھن ڈھگا

   انگلش آلے منہ نہ لاون

   جمدے جیڑے گونگے ہو گئے

   ہن پنجابی کتھے جاون

Advertisements
julia rana solicitors

           انعام رانا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 6 تبصرے برائے تحریر ”ماں بولی کا نوحہ۔۔۔ انعام رانا

  1. جان ای کڈ دتی او رانڑا۔ اللہ جاندا اے،جے میرے وس وچ ہوے تے ایس مضمون نوں نصاب وچ شامل کرا دیا۔ تے چھتراں نال کرا دیا۔ انہاں زہنی غلاماں نوں کی پتا کہ مج دی ٹور کلہ پکا ہون تے ہی ہوندی اے۔

  2. آج بھی میں اپنی والدہ یا بھائی بہنوں سے پنجابی بولتا ہوا اوپرا محسوس کرتا ہوں۔

    “اوپرا”pl write translation of “opra” for Ahl-e-Zubaan friends

Leave a Reply to Sajid Cancel reply