پھٹی قمیص۔۔۔صفی سرحدی /افسانہ

اس کہانی کا آغاز طائف کی ایک یخ بستہ رات سے شروع ہوتا ہے جب گل خان کو شدید سردی میں بھی گرمی چڑھی ہوئی تھی ، کیونکہ گل خان خود کو ایک سچا مسلمان مانتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسرائیل کی حالیہ دھمکی آمیز بیان پر غصے سے گرج رہا تھا اور اسی حالت میں گل خان نے فیس بک لائیو پر اکر پہلی بار اپنی قمیص پھاڑتے ہوئے اسرائیل کو دھمکی دیتے ہوئے کہا۔

“خر کا بچہ یہودی! اگر تم نے ہمارے سعودی عرب کی طرف میلا آنکھ سے دیکھا تو ہم تمہارے اندر گھس جائے گا۔”

اب یہ کوئی نئی بات نہیں تھیں، اسرائیل کو دھمکی دینے کے چند دنوں بعد گل خان نے فیس بک پر لائیو  آکر قمیص پھاڑتے ہوئے ایران کو بھی دھمکی دیتے ہوئے کہا۔

“شیعہ تم سور کا بچہ ہے اگر تم نے پھر ہمارے سعودی عرب کے خلاف کچھ بکواس کیا تو واللہ ہم آئے گا اور تمہارے منہ پر پیشاب کرے گا۔”

اب گل خان صرف قمیص ہی نہیں پھاڑتا تھا جب پاکستان انڈیا سے میچ ہار جاتا تھا تو وہ فیس بک پر لائیو آکر اپنی کرکٹ ٹیم کو گالیاں اور بددعائیں دیتے ہوئے ٹی وی بھی توڑ دیتا تھا اور پھر لوگ گل خان کی ویڈیوز دھڑا دھڑ شیئر کرتے تھے۔
اور گل خان کی ہر ویڈیو دیکھ کر کوئی اسے پاکستانی تو کوئی اسے اصلی مسلمان تو کوئی اسے اصلی شیر کہتا تھا کوئی کوئی ہوتا تھا جو اسے پاگل کہہ جاتا تھا لیکن گل خان اپنی تعریف سے کام رکھتا تھا اور جب وہ لوگوں سے اپنی تعریف سنتا تھا، تو اس کا حوصلہ دگنا بڑھ جاتا تھا۔

اور ایک بار تو اس نے عید پر پہنی ہوئی نئی قمیص بھی پھاڑ دی تھیں کیونکہ انڈیا کے ایک جنرل نے بارڈر پار جانے کا بیان دیا تھا اور رد عمل میں گل خان سے بالکل بھی رہا نہیں گیا اس لیے اس نے اپنی نئی قیمص پھاڑتے ہوئے سینہ کوبی کرنے کے انداز میں انڈین جنرل کو دھمکی دیتے ہوئے کہا۔

“ارے بت کا بچہ، گائے کا پیشاب پینے والا، تم ہمارے بارڈر پر ایک بار آجا، واللہ ہم تمہارا قیمہ نہ بنا دیا تو ہمارا نام گل خان نہیں ہوگا اور ہم ایک والد کا نہیں ہوگا، ہم پھر حرامی ہوگا اگر تم ہمارا بارڈر پار کرپایا۔

” گل خان کی یہ ویڈیو فوج کے فین پیجز اور گروپس پر بہت مقبول رہی اور جب گل خان نے خود کو فوج سے محبت رکھنے والے پیجز اور گروپس پر دیکھا تو وہ اور بھی زیادہ پرجوش دکھائی دینے لگا۔ جبکہ ایک انتہا پسند مذہبی سیاستدان نے تو گل خان کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے یہ لکھ ڈالا، جب تک ہمارے پاس پٹھان بھائی موجود ہیں تب تک بتوں کو پوچھنے والا انڈیا پاکستان کی پاک سرزمین کی طرف میلی انکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔

بہرحال کچھ دنوں بعد پاکستان کا سعودی عرب کا دفاع کرنے کیلئے بنائی گئی تنظیم اسلامی اتحاد میں شامل نہ ہونے کے فیصلے پر گل خان شدید پریشان دکھائی دینے لگا کیونکہ اسے خدشہ تھا پاکستان کے انکار کی صورت میں دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوجائیں گے جس کا سب سے بڑا نقصان ہم مزدوروں کو بیروزگاری کی صورت میں اٹھانا پڑے گا اور پھر وہی ہوا۔
کچھ دنوں بعد سعودی عرب نے پاکستان سے آئے ہوئے مزدروں کو تنخواہ کی ادائیگی کیے بغیر واپس بھیجنا شروع کردیا جن میں گل خان کا نام بھی شامل تھا۔ گل خان اس ذلت آمیز سلوک پر بہت دکھی بھی رہا لیکن اس وقت تو وہ  چپ رہا لیکن پاکستان واپس لوٹنے کے بعد گل خان نے ائیر پورٹ پر ہی لائیو ویڈیو جاری کرتے ہوئے اپنا سارا غصہ نکالا اور سعودی عرب کو نمک حرام اور خبیث کہہ کر پکارا اور یہ تک کہہ ڈالا کہ اب ہم تم سے نفرت کے واسطے مکہ مدینہ بھی نہیں آئے گا۔

لیکن جب کچھ دنوں بعد پاکستان کے ایک مقبول سابق فوجی سربراہ کو سعودی عرب نے اسلامی اتحاد کا سربراہ بنا دیا، تو گل خان اور بھی زیادہ افسردہ دکھائی دینے لگا۔ اس نے فیس بک پر کسی قسم کا کوئی شکوہ ظاہر نہیں کیا کیونکہ گل خان کو سب سے زیادہ محبت اپنی فوج سے تھی لیکن من ہی من میں وہ اس فیصلے پر اداس تھا۔ اور اس دکھ کو ہضم کرنے کے لئے گل خان نے فیس بک پر آنا بند کردیا، اور گاؤں سے  آکر شہر میں اپنی محنت مزدوری کرنے لگا۔
یوں تو گل خان سعودی عرب میں خوب کماتا تھا اس لئے اپنی صحت پر بھی خوب پیسے خرچ کرتا تھا لیکن یہاں گل خان دن بدن کمزور پڑ رہا تھا اور ایک دن گل خان جب بغیر ناشتہ چائے کیے ایک زیر تعمیر بلند عمارت کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو اچانک اسکی انکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ سیڑھیوں سے نیچے آگرا۔

گل خان کے دونوں پاؤں ٹوٹ چکے تھے اور ان میں راڈ پڑنے تھے لیکن اسکے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ سرکاری اسپتال سے اپنا علاج کرا لیتا لیکن بھلا ہو گل خان کے ایک مداح دوست فتح خان کا جو اس سے مسلسل رابطے میں رہتا تھا۔ جب فتح خان کو گل خان کی معذوری کا علم ہوا تو اس نے فیس بک پر گل خان کی مدد کے لئے ایک پوسٹ لگائی، لیکن ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی کسی نے گل خان سے مدد کے لئے رابطہ نہیں کیا۔ ایسے میں مجبوراً فتح خان کو خود آگے آنا پڑا کیونکہ وہ آرام سے بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھا۔ وہ گل خان کو سرکاری اسپتال لیجانے کے بجائے شہر میں موجود فوجی اسپتال لیکر گیا۔ گل خان بھی بہت پرجوش دکھائی دے رہا تھا کہ اب میرا مفت علاج ہو ہی جائے گا۔

فتح خان نے وہاں باوردی فوجی ڈاکٹر کو گل خان کی قمیص پھاڑنے والی وہ ویڈیو دکھائی جس میں اس نے انڈین جنرل کو دھمکی دی تھیں۔ اس دوران اسٹریچر پر گل خان اپنا درد بھول کر مسکرا رہا تھا کیونکہ وردی میں موجود سینئر ڈاکٹر جو ویڈیو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد ڈاکٹر نے پاس بیٹھے ہوئے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار سے کہا۔ یار یہ ویڈیو دیکھ اور پھر سوچ کہ ہمارا گل خان علاج کے لئے یہ ویڈیو ثبوت کیوں دکھا رہا ہے؟
سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار نے جواب دیا سر اگر ہمارے گل خان میٹرک پاس ہوتے تو کم سے کم بارڈر پر ڈیوٹی تو سرانجام دیتے اور آج جب ہمارے پاس علاج کیلئے آتے تو ہم کم سے کم ان کا علاج تو کرسکتے۔

فوجی ڈاکٹر نے فتح خان اور گل خان کو سمجھایا کہ یہاں عام شہریوں کا مفت علاج نہیں کیا جاتا۔ البتہ میں اپنی طرف سے پانچ ہزار کا چیک دے رہا ہوں۔ فوجی ڈاکٹر نے چیک تھمایا تو فتح خان نے لینے سے انکار کردیا جب کہ گل خان کی نظریں چیک پر چپکی ہوئیں تھیں۔

فتح خان نے اپنی بائیک فروخت کرکے گل خان کو سرکاری اسپتال میں بھرتی کروا دیا۔ علاج کے چند دنوں بعد گل خان کو اسپتال سے فارغ کردیا گیا اور اس دوران فتح خان باقاعدہ گل خان کے مزدوروں کے ڈیرے پر اسے راشن پہنچاتا رہا۔ دو مہینے بعد جب گل خان اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑا ہوا تو فتح خان نے اسے دوبارہ مزدوری کرنے سے منع کیا اور اسے اپنے ساتھ کریانے کی دکان میں کام پر لگا دیا۔ فتح خان اب گل خان کا مداح تو نہیں رہا تھا لیکن اب وہ صرف دوست ہونے کے ناطے یہ سب کچھ کررہا تھا۔ کیونکہ فتح خان فوج سے محبت کی وجہ سے گل خان کا مداح بنا تھا لیکن اب فتح خان کے دل میں فوج کے لئے پہلے جیسی محبت باقی نہیں رہی تھیں۔ لیکن گل خان کے دل کے کسی کونے میں اب بھی فوج کیلئے محبت باقی تھی اس لیے وہ فیس بک پر کبھی کبھار خفیہ ایجنسیوں کے کارنامے بیان کرنے والے فین پیجز پر موجود پوسٹیں دیکھ کر خوش ہوجایا کرتا تھا۔

گل خان کا خاندان جہاں رہتا تھا وہاں بدامنی کیوجہ سے حالت دن بدن خراب ہورہے تھے اور آئے دن فوجی کاروائیوں کی وجہ سے لوگوں کا اپنے گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہوجاتا تھا۔ اور پھر ایک دن سرکار نے یہ طے کردیا کہ اب اس پورے علاقے کو بدامنی سے ایک ساتھ ہی پاک کرنا ہوگا اس لیے سرکار نے وہاں سے لوگوں کو نقل مکانی کرنے کا حکم جاری کردیا تاکہ وہاں فوجی کاروائی ہوسکے، گل خان نے شدید پریشانی کے عالم میں فوری گاؤں کا رخ کیا کیونکہ فتح خان نے گل خان کے خاندان کے لئے کرائے کے ایک گھر کا بندوبست کردیا تھا لیکن گاؤں پہنچنے پر گل خان کو اپنا گھر خالی ملا۔

کسی نے اسے بتایا کہ اس کے خاندان کو فوجی اپنے ٹرکوں میں لیکر چلے گئے ہیں۔ گل خان نے سوچا شاید حفاظت کے تحت فوجیوں نے گاؤں والوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا ہوگا۔ یہ سوچ کر گل خان نے فوجی قلعے کی جانب بڑھنا شروع کیا لیکن پہاڑی رستے میں اسے نقاب پوش طالبان کے ایک گروہ نے گھیر لیا اور اسے جاسوس سمجھتے ہوئے مارا پیٹا کیونکہ طالبان نے اسے شکل سے پہچان لیا تھا کیونکہ گل خان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر طالبان نے بھی دیکھ رکھی تھیں۔ انہوں نے گل خان کو بارڈر کے قریب اپنے ایک محفوظ ٹھکانے میں بند کردیا ۔

اور ایک رات جب خفیہ اطلاع پر فوج نے اس ٹھکانے کا محاصرہ کیا تو گل خان نے خوشی سے پاک فوج زندہ باد کا نعرہ لگا دیا جس کیوجہ سے طالبان نے طیش میں آکر گل خان کو لاتوں سے مارنا شروع کردیا۔ لیکن امیر کے حکم پر رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرنگ کے ذریعے باقی طالبان وہاں سے فرار ہوگئے لیکن ایک دہشت گرد فرار ہونے میں ناکامی پر واپس سرنگ کے ذریعے اس ٹھکانے میں گھس آیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگلے دن  اخبار میں ویرانے سے برآمد ہونے والی دو مسخ شدہ لاشوں کی تصویریں چھپی تھیں جس میں ایک مسخ شدہ لاش کی قمیص پھٹی ہوئی  نظر آرہی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply