بچپن ہر انسان کی زندگی کا وہ سنہرا دور ہے جسے انسان خوشگوار یادوں کے طور پر ہمیشہ اپنی یادداشت کے ایک مخصوص خانے میں سنبھال کر رکھتا ہے اور کبھی کبھار اسے یاد کرکے لطف اندوز بھی ہوتا ہے تاہم یہی وہ عمر ہوتی ہے جب بچوں میں بہت سے شوق اور مشغلے پروان چڑھتے ہیں کچھ بچے ان مشاغل کو بڑے ہو کر پیشے کے طور پر اختیار کرلیتے ہیں جبکہ کچھ صرف مشغلے کی حد تک ہی رہ جاتے ہیں۔ جس کی چند اہم وجوہات والدین کا حوصلہ افزائی نہ کرنا یا وسائی کی کمی ہوسکتی ہے ۔
یہاں آپ سب کو اپنے بچپن کے بارے میں کچھ بتاتا چلوں کہ درسی کتب کے علاوہ دوسری کتابیں پڑھنے کا شوق باقاعدہ طور پر چوتھی جماعت سے ہوا لیکن اپنے ہم عمر بچوں کے برعکس نہ تو یہ عمرو عیار کے قصے تھے نہ ہی زکوٹا جن کی کہانیاں نہ ہی یہ کتابیں لطیفوں کی تھیں اور نہ ہی علی بابا اور چالیس چور جیسے قصے، کبھی بھی افسانوی اور تجسس سے بھرپور کہانیاں میری توجہ حاصل نہ کر پائیں ۔
مجھے بچپن ہی سے شاعری میں بے حد دلچسپی ہوگئی تھی پھر کیا تھا منیر نیازی سے لے کر پروین شاکر اور احمد فراز سے لے کر فیض احمد فیض نہ جانے کون کون سے شاعروں کے فیض سے فیضیاب ہوتے چلے گئے شوق اس حد تک بڑھ گیا کہ جو شعر یا غزل دل کو بھاتا اسے فوراً یاد کرلیا کرتا تھا اور پھر بار بار دہراتا تھا تاکہ دوبارہ بھول نہ جاؤں اور ایسا یاد کیا کہ آج تک حرف بہ حرف یاد ہے۔
مجھے آج بھی بچپن کا وہ قصہ یاد ہے جب سکول میں بزمِ ادب ہوا جس میں پانچویں سے لے کر دسویں جماعت تک کے طلبہ نے حصہ لیا تھا جب مقابلہ شروع ہوا تو میں نے اپنی جماعت کی نمائندگی کی تب تک میرے اساتذہ اور دوست میری شاعری کے ذوق سے لاعلم تھے مقابلہ شروع ہوا دسویں جماعت کے ایک طالبعلم نے شعر سنایا اب مقابلے میں مجھے شعر سناناتھا میں نے پوری غزل سنا دی اور اسی طرح ایک ایک کرکے نویں اور دسویں جماعت کے سارے طالبعلم ایک پانچویں جماعت کے طالبعلم کے سامنے بے بس ہوتے گئے اور میں نے اکیلے مقابلہ جیت لیا میرے اساتذہ اس قدر خوش ہوئے کہ مجھے پانچ پانچ روپے بطور انعام دیے جس سے میں نے بدر بشیر صاحب کی کتاب ”کوئی شام گھر بھی رہا کرو“ خریدی تھی۔
پڑھائی سے وقت بچا کر ہر شاعر کو پڑھا پھر چاہے امجد اسلام امجد صاحب کی ”باتیں کرتے دن“ ہو یا سعداللہ شاہ کی ”نیلے پھولوں کی بارش“ محسن نقوی کی ”طلوعِ اشک“ ہو یا وصی شاہ کی ”مجھے صندل کردو“ ہر کتاب کو پوری دلجمعی کے ساتھ پڑھا۔ پروین شاکر کی ”انکار“ ”خوشبو“ اور ”صد برگ“ آج بھی ذہن پر نقش ہے ساغر صدیقی جیسا دیوانہ شاعر کیا کہنے اور پھر جون ایلیا کی کتاب ”گمان“ پڑھی تو روح میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی ،تب احساس ہوا کہ شاعری کے دھاگوں میں پروۓ ہوۓ الفاظ کیسے روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
میں بھی کتنا عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں۔ ۔ ۔
اسی طرح منیر نیازی کی کتاب ”رات کا سفر“ اور فیض صاحب کی ”دست صبا“ اور ”باد نو صبا“ بھی شاعری کا بہترین نمونہ تھیں۔
تحریر کے آخر میں اس اسکے مقصد کی طرف آتا ہوں کہ اگر بچہ کسی مفید سرگرمی کا حصہ ہے اور وہ اسے بطورِ پیشہ بھی اپنانا چاہتا ہے تو بجاۓ اس پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے اسکی حوصلہ افزائی کی جائے کیونکہ میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسا شوق یا مشغلہ جسے بچہ اپنے شعبے یا پیشے کے طور پر اپنا لیتا ہے مستقبل میں وہ اس میں نمایاں کارکردگی دکھاتا ہے بجاۓ اس کے جو آپ اس پر مسلط کرتے ہیں مثال کے طور پر آپ کا بچہ کرکٹ کا شوقین ہے اور اسے بطورِ پیشہ بھی اپنانا چاہتا ہے تو اسے ڈاکٹر بننے پر مجبور نہ کریں بلکہ متعلقہ شعبہ میں اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں ان کی صلاحیتوں کو پرکھیں انہیں کارکردگی دکھانے کا موقع دیں۔
تاہم بچوں کی اصلاح والدین کا فرض ہے والدین کو چاہیے وہ اس بات کا بھی دھیان رکھیں کہ ان کے بچے کس قسم کے مشاغل میں دلچسپی رکھتے ہیں اگر وہ مشاغل کسی بھی اعتبار سے ان کےلیے غیر فائدہ مند ہوں تو فوری طور پر نہ صرف اسے ترک کروائیں بلکہ عملی طور پر بچوں کو یہ احساس دلوایا جاۓ کہ ان کا یہ شوق غیرضروری اور نقصان دہ ہے اس طرح سے انہیں پتہ چلے گا کہ صحیح غلط کی پہچان کیسے کی جاتی ہے یہ پہچان بچوں کو بچپن سے ہی کروائیں تاکہ وہ معاشرے کا مفید فرد ثابت ہوں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں