سیاسی نقطہ نظر

اِس کرہ ارض پہ انسانیت کو خون خوار جانوروں اور وحشی درندوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا کہ آج کل کے سیاستدانوں اور نام نہاد لیڈروں نے پہنچایا۔ظلم و استبداد، بربریت، سفاکیت، اقرباپروری، قومی خزانے میں خردبرد، اداروں میں نااہل افراد کی تقرری، اللے تللے، لوٹ مار، ذاتی مفادات کو بالا تر رکھتے ہوئے اور اقتدار کے نشے میں دُھت کوئی خرافات ایسی نہیں جو ان لوگوں سے سرزد نہ ہوئی ہو۔ صاحبِ اربابِ اختیار جس کو چاہیں نواز دیں اور جس کو چاہیں دُھتکار دیں۔

کچھ عرصہ پہلے تک میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ ہمارے ہاں صرف تین طبقات ایسے ہیں جو روزِ اول سے ہی مظلوم ہیں اور یہ لوگ اپنی مظلومیت کا سہارا لے کر مختلف حیلوں بہانوں سے مخلوقِ خدا کو لوٹتے ہیں اور اپنی بات منوا ہی لیتے ہیں۔ پہلے نمبر پہ فقیر ہیں جو اپنے وجود اور شکل و شباہت سے ہر خاص و عام کو لوٹتے نظر آتے ہیں، ہر گلی کوچے میں خدا اور رسولﷺ کو بیچتے ہیں۔ دوسرے نمبر پہ (معذرت کے ساتھ) آج کی ’عورت‘ ہے اور میری اس بات سے تقریباً ہر مرد اتفاق کرے گا اور اِس کی تفصیل میں بھی جانے کی ضرورت نہیں۔ تیسرے نمبر پہ تاجر اور کاروباری حضرات ہیں جو ہر وقت مہنگائی، ٹیکس میں اضافے، پاور کے بحران کا رونا روتے رہتے ہیں اور اپنے ورکر ز کا خون پیتے ہیں۔ لیکن اب ان مظلوموں میں ایک اور طبقے کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے ’وقت کا حکمران طبقہ‘ جو حکومت میں آتے ہی قومی خزانے کا خالی ہونا اور قرض کاحد سے بڑھ جانے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں جس سے ترقی کی رفتار کم ہونے کا قوم کو دلاسہ دیا جاتا ہے۔ خود اقتدار کے مزے لُوٹتے ہیں اور عوام کو ’ٹرک کی لال بتی‘ کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔

آزادی سے لے کر آج تک اس حکمران طبقے نے قوم کو لوٹنے اور ملت کو تقسیم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اب ایک قوم ہونے کے باوجود ہماری زیادہ تر بحث کا عنوان ”دو قومی نظریہ“ ہوتا ہے۔ انگریز چلا گیا اور ان ’لیڈروں‘ نے اپنے مطلب کی اُن سے ایک ہی بات سیکھی Divide and Ruleاور اب ہر کوئی اپنی ہی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے ہوئے ہے۔ شیعہ، سُنی، بریلوی، دیوبند، وہابی، لبرل، سیکولر، گجر، راجپوت، آرائیں، انصاری، ملک، مغل غرض یہ کہ جتنا ممکن ہو سکتا تھا ان لوگوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے انگوٹھا چھاپ عوام میں تفرقہ، اشتعال انگیزی، تعصب اور منافرت پھیلائی۔ کون سمجھائے کہ قومیں ذات، برادری، نسب و نسل،مذہب، امیری اور غریبی سے ماورا ہوتی ہیں۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو ان تمام طبقات میں ایک معاشرے میں رہتے ہوئے یکجہتی و ہم آہنگی، امن، اخوت، ایثار اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرے اور قومیت کا جذبہ پیدا کرے۔ قوم کی منزلوں کا تعین کرے، راستے کی نشاندہی کرے، راہنمائی کرے، تعلیم، آگہی اور شعور کو عام کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سیاست کے بارے میں میری اِس سخت روش پہ کچھ لوگوں کے کافی اعتراضات ہیں اور چند احباب نے میرا دامن تھام لیا کہ جناب آپ اندھوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں جو پہلے بھی کافی لوگ کر چکے ہیں۔عرض کرتا چلوں کہ ماضی میں جو لوگ آئینہ دکھاتے رہے وہ اصل میں آئینہ فروش تھے جنہوں نے عوام کو لُوٹا اور اپنے کاروبار خوب چمکائے۔ اندھوں کو آئینے کی نہیں بلکہ آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے اور میں لوگوں میں اپنی آنکھیں بانٹتا ہوں۔ میں ایک حساس لکھاری ہوں اور خدا لگتی ہی کہوں گا۔ میں دوسرے کا دُکھ بھی اتنی ہی شدت سے محسوس کرتا ہوں جتنا کہ وہ شخص خود ، اپنے ہر ایک احساس کو الفاظ کی تسبیح میں پرونے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ یہ سب جگ بیتیاں ہی میری من بیتیاں اور آپ بیتیاں ہیں۔

Facebook Comments

طلال انور
میں طائرِ لاہوتی، میں جوہرِ ملکوتی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply