• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • چھاتی کے کینسر کے آخری اسٹیج میں مبتلاء خاتون مکمل شفایاب، مگر کیسے؟

چھاتی کے کینسر کے آخری اسٹیج میں مبتلاء خاتون مکمل شفایاب، مگر کیسے؟

کینسر ایک خطرناک مرض ہے اور کافی لوگ تو اسکا نام سنتے ہی کانپ اٹھتے ہیں. آپ کو جگہ جگہ کینسر ہسپتال تو نظر آئیں گیں لیکن اگر مریض کینسر کے آخری اسٹیج پر پہنچ جائے تو دنیا کا سب سے بہترین ہسپتال اور بہترین ڈاکٹر بھی صاف جواب دے دیتا ہے اور مریض تڑپتا ہوا زندگی کی بازی ہار جاتا ہے.

ویسے تو کینسر کو شکست دینے کے لیے مریض کی کیموتھراپی کی جاتی ہے، لیکن اب کئیں سالوں کی محنت اور جدید ریسیرچ کے بعد سائنسدانوں نے کینسر جیسے مرض کو شکست دینے کے لیے ایک ایسا عمل ایجاد کیا ہے جس سے موت کے منہ میں جاتے مریضوں کو ایک نئی زندگی ملی ہے. اس عمل کو ایمینوتھراپی (immunotherapy) کا نام دیا گیا ہے.

سائنس دانوں کے مطابق کینسر کے علاج میں مدافعتی عمل کی کارکردگی سمجھنے میں زبردست ترقی سے اب مریض اس جان لیواہ مرض سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں. کینسر زدہ خلیے ایسی تکنیک استعمال کرتے ہیں کہ مدافعتی نظام کی نظروں میں نہ آ سکیں۔ وہ اپنی سطح کے اوپر PD-L1 پروٹین چسپاں کر دیتے ہیں جس سے مدافعتی نظام کے حملہ آور خلیے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ تاہم ایک نئی قسم کی ادویات ان پروٹینز کو بےاثر بنا دیتی ہیں اور مدافعتی خلیے سرطانی خلیے کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اس علاج کو امیونو تھیراپی کہتے ہیں۔

ایمینوتھراپی کے زریعے کینسر کے آخری اسٹیج میں مبتلاء خاتون کا دنیا کا پہلا کامیاب اعلاج

حال ہی میں اس عمل کا کامیاب ٹیسٹ، پیرکن نامی 49 سالہ خاتون پر کیا گیا جو چھاتی کے کینسر کے آخری اسٹیج پر تھی. پیرکین نے کئیں اعلاج کروائے، مخلتف ملکوں کے دورے کیے، کیمیائی اعلاج بھی کروایا، لیکن اسکی حالت ہر گزرتے دن کیساتھ مزید بگڑتی رہی. آخر کار ڈاکٹروں نے بھی اسے صاف جواب دے دیا اور جلد موت کی پیشنگوئی بھی کر دی.

اس دوران US National Cancer Institute کے کچھ طبی ماہرین، جو ایمینوتھراپی پر ریسیرچ کر رہے تھے، انھوں نے اس موت کے منہ میں جاتی خاتون کو آخری دفعہ ایمینوتھراپی کروانے کا مشورہ دیا.

پیرکین کا اعلاج 40 ہفتوں تک جاری رہا، جسکے دوران اسکے جسم میں سرطانی خلیے کو شکست دینے کے لیے 8,000,000,000 یعنی 80 ارب مدافعتی خلیات شامل کیے گئے. اس اعلاج کے بعد پیرکین اب بلکل صحت مند ہے اور اسکے جسم میں کینسر کا نام و نشان تک نہیں ہے.

پیرکین کا کہنا تھا کہ اسکو زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا تب لگا جب ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ یہ چھاتی کہ کینسر کے آخری اسٹیج پر ہے. “کینسر کی رسولی میرے جسم میں اس حد تک پھیل چکی تھی کہ میں نے شدید درد کے باعث جسم کو حرکت دینا ہی چھوڑ دیا تھا. ایسے لگتا تھا کہ کسی بھی وقت جان نکل جائیگی.”

پیرکین نے مزید بتایا کہ اسنے مرنے کی پوری تیاری کر رکھی تھی لیکن ایمینوتھراپی (immunotherapy) کی بدولت اب یہ اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی ہو گئی ہے، نوکری بھی کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ گھر کا کام کاج بھی کر رہی ہے. اب اسکے جسم سے کینسر کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بہترین نتائج کے بعد انہوں نے ایمینوتھراپی (immunotherapy) پر ریسیرچ مزید مضبوط کر دی ہے اور انھیں امید ہے کہ بہت جلد آخری اسٹیج کینسر بھی قابل اعلاج ہو جائیگا.

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply