قائداعظم کے حوالے سے جمشید نوشیروان کی یادیں

جمشید نوشیروان جی نے اپنے دوست کی یاد تازہ کرتے ہوئے مجھے بتایا ۔
.
” ان کی یاد بڑی دلکش تھی۔انہیں اپنے اوپر پورا قابو تھا اور وہ اپنے جذبات کا اظہار بہت کم کرتے۔وہ کم آمیز اور باوقار تھے اور ان کی زندگی بہت تنہا تھے۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جناح بڑے انسان دوست شخص تھے۔ جناح نے ایک دن مجھ سے کہا کہ ان کی دلی خواہش ہے کہ پاکستان کے مسلمان اقلیتوں سے رواداری برتیں .وہ آنسو بہانے کے عادی نہ تھے لیکن میں نے انہیں دو مواقع پر روتے ہوئے دیکھا۔تقسیم ہند کے بعد میں ان کے ہمراہ ہندوؤں کا ایک کیمپ دیکھنے گیا جو پاکستان میں رہ گئے تھے۔ان کی حالت دیکھ کر جناح رو دیئے۔میں نے ان کے رخساروں پر آںسو چمکتے دیکھے۔ان کے رخسار بڑے پر نور تھے۔
.
لیکن پہلی مرتبہ میں نے ان کے آںسو 1928 میں کلکتہ کانفرنس کے بعد دیکھے تھے۔وہاں کسی شخص نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مسلمانوں کی طرف سے بولنے کا حق نہیں کیونکہ وہ ان کے نمایئندے نہیں۔جناح کو اس میں اپنی بڑی سبکی محسوس ہوئی اور وہ اپنے ہوٹل واپس چلے گئے۔ دوسرے دن صبح ساڑھے دس بجے وہ کلکتہ روانہ ہوگئے۔انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بولے ” جمشید یہ افتراق کا زمانہ ہے”۔میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے ہیں۔”
———————————————————————————–
جناح کو اب ہر نوع کے جذباتی تعلقات کا تجربہ ہو چکا تھا اور وہ ان سب سے بے زار ہو چکے تھے۔مگر ان کے تحت الشعور کے کسی گوشے میں بیٹے کی حسرت ضرور دبی ہوئی تھی ۔یہی وجہ تھی کہ اب وہ نوجوانوں سے اکثر بے تکلف ہو جاتے اور ان سے ایک قسم کا جذباتی لگاؤ محسوس کرتے۔ان دنوں ایک مرتبہ گرمیوں میں جناح کے ایک دوست کا بیٹا اپنے چند ہم مکتبوں کو لیکر ان کے گھر مہمان ٹھرا۔اچانک ان کے کمرے کا دروازہ کھلا اور ان کے بزرگ میزبان اندر آ گئے۔اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ جناح کے دوست کے بیٹے کی زبانی سنیئے
.
” جناح نے روشنی جلائی اور ہم نے دیکھا کہ وہ شب خوابی کا لباس اور اس کے اوپر ڈریسنگ گاؤں پہنے ہیں۔پہلے انہوں نے ہمارے آرام میں مخل ہونے پر ہم سے معذرت چاہی پھر بولے “یہ سوچ کر کہ کل تم لوگ واپس چلے جاؤگے،مجھے نیند نہیں آ رہی”پھر وہ ہمارے پاس بیٹھے اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔اس گفتگو میں سیاست کا کوئی ذکر نہ تھا۔جب وہ اٹھ کر اپنے کمرے واپس جانے لگے تو انہوں نے ہمیں اتنی دیر تک بیدار رکھنے پر معذرت چاہی اور روشنی گل کرتے ہوئے کہا:”کاش میرا بھی ایک بیٹا ہوتا”
.
جناح نے اپنے آپ کو دوسروں سے دور اور اونچا رکھنے کے لیئے ایک حصار سا اپنی شخصیت کے گرد بنا رکھا تھا۔اس حصار کو توڑ کر ان کے قریب جانے کی جرات سوانوجوانوں کے اور کوئی نہ کر سکتا تھا۔
.
1939 میں وہ بلوچستان گئے جناح کے میزبان کی اہلیہ نے بڑی دلچسپ باتیں ان کے متعلق سنایئں
.
” میرے دل میں جناح کے لیئے بے حد خلوص اور احترام تھا۔میرا چھوٹا بیٹا اس وقت دو برس کا تھا۔صبح کو اکثر وہ یہ کہتا ہوا جناح کے کمرے میں گھس جاتا کہ میں دادا جناح کے پاس جاؤںگا۔پھر وہ جناح کے ذانو پر بیٹھ جاتا اور دونوں دیر تک بات چیت کرتے رہتے۔جب بھی میں بچے کو وہاں سے ہٹانا چاہتی تو جناح مجھے منع کردیتے اور کہتے کہ بچے کو میرے پاس رہنے دو۔انہوں نے اسے بے شمار تحفے دیئے۔ایک دن وہ اکیلے موٹر پر بیٹھ کر شہر چلے گئے۔صرف گاڑی کا شوفر ان کے ساتھ تھا اور گھر میں کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں اور کیوں گئے۔وہ مشہور آدمی تھے جہاں بھی جاتے لوگ ان کو گھیر لیتے تھے۔لوگوں کو راستے سے ہٹاتے ہوئے وہ کھلونوں کی ایک دکان پر پہنچے اور دکاندار سے کہا کہ مجھے ایک جھولنے والا گھوڑا چاہیئے۔غریب دکاندار اتنے بڑے آدمی کو اپنی چھوٹی سی دکان میں دیکھ کر متعجب ہوا ہوگا،اور خود مجھے اس وقت بہت تعجب ہوا جب مسٹر جناح لکڑی کا گھوڑا لیکر گھر واپس آئےاور انہوں نے یہ تحفہ میرے بچے کو دیا۔”
———————————————————————————–
جناح نے عوام کو خوش کرنے اور ان میں ہر دلعزیز بننے کا گر کبھی نہ سیکھا۔ان کے دل میں ہر دلعزیزی کی کوئی قدر نہ تھی اور نہ وہ اس کے لطف سے آشنا تھے۔اخباری نمایئندوں کے ساتھ ان کا رویہ اکثر روکھا ہوتا اور بمبئی کے اخباری دفتروں میں اس سلسلے میں بہت سے دلچسپ واقعات سننے میں آیا کرتے۔تاہم اخبار نویس قائد اعظم کا بہت احترام کرتے تھے۔
.
ایک پرانے صحافی نے اس تاریخٰ دور کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا ” انہوں نے کبھی ہم سے میٹھی میٹھی باتیں کر کے اپنا کام نکالنے کی کوشش نہ کی۔دوسرے سیاستدانوں کی نسبت وہ بڑے ٹیڑھے آدمی تھے اور ہمارے ساتھ تکبر اور تنک مزاجی سے پیش آتے تھے۔وہ پریس کانفرنس کے لیئے اکثر ہمیں اپنے گھر بلاتے لیکن کبھی انہوں نے ہمیں چائے یا سگریٹ نہ پلائی۔شاید وہ اس قسم کی تواضع کو بھی ایک طرح کی رشوت سمجھتے تھے۔ایک دن بمبئی میں ایک پریس کانفرنس کے ختم ہونے کے بعد مسٹر جناح کمرے سے باہر نکلنے والے تھے کہ میرے ایک ساتھی نے ان سے ایک اور سوال پوچھ لیا۔انہوں نے فورا ڈانٹ کر جواب دیا “کانفرنس ختم ہو چکی،آپ محض وقت ضائع کر رہے ہیں۔”
———————————————————————————–
تھوڑے دن بعد جناح اس قابل ہو گئے کہ اٹھ کر کمرے میں چند قدم چل سکیں انہوں نے اسپیگٹی،انگور اور آڑو کھائے اور کراچی واپس جانے کی خواہش ظاہر کی اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دی کہ
.
” مجھے وہاں بیساکھیوں کے سہارے نہ چلنا پڑے۔میں ہر گز گوارا نہ کرونگا کہ لوگ مجھے اسٹریچر پر ڈال کر موٹر سے میرے کمرے تک لے جایئں”
———————————————————————————–
سٹریچر ایک فوجی ایمبولینس میں رکھ دیا گیا،سسٹر ڈنہم نے اس قیامت کی گھڑی کا حال یوں بیان کیا ہے۔
.
” ہم مہاجروں کی بستی اور اس کی کیچڑ سے زیادہ دور نہ تھے اور مکھیوں نے ہمیں گھیر لیا۔میں نے ایک دفتی کا ٹکڑا ڈھونڈ نکالا اور اس سے مسٹر جناح کے چہرے پر پنکھا جھلنے لگی تاکہ مکھیاں نہ بیٹھنے پایئں۔چند منٹ تک ان کے پاس میرے سوا کوئی نہ تھا اور اس اثنا میں انہوں نے میری دلجوئی اس انداز سے کی کہ میں ساری عمر نہیں بھول سکتی۔انہوں نے اپنا بازو چادر سے نکالا اور اپنا ہاتھ میرے بازو پر رکھ دیا۔وہ زبان سے کچھ نہ کہہ سکے لیکن ان کی آنکھوں سے ان کے جذبہ تشکر کا پوری طرح اظہار ہو رہا تھا۔میں ان کی جو کچھ خدمت کر سکی تھی یہ ایک نگاہ اس کا مکمل صلہ تھی۔اس سے بہتر صلہ مجھے کیا مل سکتا تھا۔اس وقت یوں معلوم ہوتا تھا کہ قائد اعظم کی ساری روح ان کی آنکھوں میں اتر آئی۔”
.
دوسری ایمبولینس پر سفر کی آخری منزل شروع ہوئی۔ کراچی کی انگلساتی گرجا گھر نے سات کا گھنٹا بجایا،پھر چند منٹ بعد مؤذن مسجد کے میناروں سے مسلمانوں کو مغرب کی نماز کے لیئے بلانے لگے۔ڈاکٹروں نے جناح کے پلنگ کی پایئنتی ذرا اونچی کر دی تاکہ قلب کی طرف دورانِ خون تیز ہو جائے۔پھر انہوں نے ایک ٹیکہ لگانا چاہا ،لیکن رگیں بے جان ہو چکی تھیں۔9 بج کر پچاس منٹ پر کرنل الہی بخش نے جھک کر آہستیہ سے کہا “جناب ہم نے آپ کو طاقت کا ٹیکا لگایا ہے اور خدا نے چاہا تو آپ سالمت رہیں گے” اس پر قائد اعظم نے اپنے سر کو جنبش دی اور پھر آخری مرتبہ ان کی آواز سنائی دی “نہیں اب میں نہ بچوں گا”اس کے تیس منٹ بعد وہ اس دنیا سے سدھار گئے۔
.
اس سانحہ عظیم کی خبر ات ہی بازاروں سے نکل کر سارے شہر میں پھیل گئی۔کچھ لوگ آہ و بکا کر رہے تھے اور کچھ سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔دیکھتے دیکھتے گورنمنٹ ہاؤس کی اونچی دیواروں کے قریب ہزاروں آدمی جمع ہو گئے۔ذرا دیر بعد ایک شخص آۃستہ آہستہ بھیڑ کو چیرتا ہوا آگے بڑھا۔اس کے ہاتھ میں کفن اور ایک چھوٹی سی بوتل تھی۔کفن کو آب زمزم میں بھگویا گیا تھا اور بوتل میں عطر تھا۔یہ شخص کچھ عرصہ قبل رسول اکرم کے مزار مبارک کی زیارت کرنے مدینہ گیا تھا۔وہاں اس موقع پر جو عطر آںحضرت کی لحد مبارک پر چھڑکا گیا تھا،اس میں سے تھوڑا سا تبرکا بوتل میں ساتھ لیتا آیا تھا۔قائد اعظم کو کفن پہنا دیا گیا اور پھر یہی عطر اس پر چھڑکا گیا۔
.
لڑکپن کے دنوں میں محمد علی جناح نے ہمیشہ مٹی میں کھیلنے سے پرہیز کیا تھا اور اپنے ہاتھوں اور دامن کو گرد و غبار سے بچایا تھا۔لڑکپن کا وہ حوصلہ اور غرور ان میں تمام عمر باقی رہا اور موت کے ساتھ ہی ختم ہوا۔12 ستمبر 1948 کی صبح وہ آخر اسی خاک میں مل گئے جس سے ساری عمر دور رہے تھے۔
.
حیاتِ قائد اعظم (ہیکٹر بولتھو)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply