The loss of My Country۔۔۔۔ضیا چترالی

1993ء کا ذکر ہے جب میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا، ان دنوں CADP (چترال ایریا ڈیولپمنٹ پراجیکٹ) نامی کمپنی کے تحت چینی باشندے چترال سے گلگت تک سڑک کی تعمیر کر رہے تھے۔ ہم جیسے اسکول کے بچوں کیلئے چھوٹے چھوٹے قد کے چپٹی ناک والے چینیوں اور ان کی نت نئی مشینوں کو دیکھنا ایک دلچسپ مشغلہ ہوا کرتا تھا، اسکول سے فارغ اوقات اکثر اس کی نذر ہو جاتے تھے۔ ایک دن کمپنی والے ایک بہت ہیوی مشین کٹرپیلر نام کا دیوہیکل بلڈوزر لے آئے۔ ہمارا گاؤں (برنس) میں لوہے کا ایک پل ہے جو اس دیوقامت بلڈوزر کے بوجھ کا متحمل نہیں تھا۔ بلڈوزر کو آگے تو لے جانا ہی تھا، مگر پل سے نہیں گزارسکتے تھے۔ اس مسئلے کا حل یوں نکالا گیا کہ بلڈوزر اپنے لئے راستہ بنا کر خود ندی کی کھائی اترے اور دوسری طرف چڑھے، یوں اسے پل سے گزرنا نہیں پڑے گا۔ اگلے دن اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے بلڈوزر نے راستہ بناتے ہوئے کھائی میں اترنا شروع کیا، لیکن تھوڑا ہی نیچے جا کر اس کے نیچے ایک چٹان نکل آئی اور بلڈوزر پھسل کر بالکل کھائی کے اوپر آکر رک گیا، اب وہ نیچے تو جا رہا تھا، لیکن واپس نہیں آسکتا تھا، یوں نیچے جاتے جاتے وہ گہری کھائی میں گرنے کے بالکل قریب ہو گیا، بلڈوزر کا ڈرائیور اور اس کے ساتھ دیگر چینی افراد بہت پریشان تھے۔ ایک چینی کچھ زیادہ ہی پریشان تھا، وہ اضطرابی کیفیت میں ہاتھ ملتے ہوئے اِدھر اُدھر جا رہا تھا۔ جب بلڈوزر کا گرنا تقریباً یقینی ہو گیا تو وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، اس دوران گاؤں والے ان کی مدد کو پہنچ چکے تھے، کسی نے اس چینی سے پوچھا: Why are you weeping? تم کیوں رو رہے ہو؟ مجھے اس کی پوری بات تو یاد نہیں، البتہ اس کا ایک جملہ آج تک سماعت سے ٹکراتا ہے، اس نے کہا تھا: Loss of My Country میرے ملک کا نقصان ہو رہا ہے، میں کیسے نہ روؤں۔ میں تو یہ اس چینی کے اپنے ملک کے ساتھ اخلاص کا ثمرہ ہی سمجھتا ہوں کہ حیرت انگیز طور پر دیہاتیوں کی مدد سے اس سینکڑوں ٹن وزنی بلڈوزر کو گرنے سے بچا لیا گیا، اس وقت چینیوں کی خوشی سے بھی ان کے اپنے ملک کے ساتھ مخلصانہ محبت عیاں تھی۔
میٹرک کے بعد میں نے کچھ عرصہ اس کمپنی میں چینیوں کے ساتھ کام کیا اور ان کو بہت قریب سے دیکھا، اس دوران چین کی قلیل عرصے میں حیرت انگیز ترقی کا راز کھل کر سامنے آیا کہ چینی قوم کی ذہنی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو ملک و قوم کے ومفاد کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ ملک کو نقصان سے بچانے کے لئے اپنی جان تک قربان کر دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک چینی نے لوڈر مشین کا ایکسیڈنٹ کر دیا۔ اپنے ملک کے نقصان کا اسے اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ لوڈر کے پیچھے دریا میں چھلانگ لگا کر زندگی کی بازی ہار گیا۔ خودکشی اگرچہ ہمارے مذہب میں حرام ہے، لیکن چینیوں کی اپنے وطن سے محبت اور اس کے نقصان پر دلی صدمے کی اس سے بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے کہ چینیوں کے قلب و جگر میں وطن کے نقصان کا درد بھرا ہوا ہے اور اسی نے ان کے ملک کو عظیم تر بنا دیا ہے۔ وہ چین جس کا نقشہ معمورہ ارض پر وطن عزیز کے بعد ابھرا اور جسے سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا اور سب سے پہلا غیر ملکی طیارہ بھی اس سرزمین میں پی آئی اے کا اترا، آج ترقی کی شاہراہ میں منزلیں بڑی سبک رفتاری سے طے کرتا ہوا امریکہ کے برابر کھڑا ہے، بلکہ موجودہ معاشی بحران جس نے بڑی بڑی طاقتوں کی چولیں ہلا دی ہیں، چین کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا ہے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں سارا سسٹم الٹ ہے، جب چین بنا تو اس کا بینکنگ نظام بھی پاکستانی ماہرین نے بنا کر دیا تھا، اب وہ تو عروج تک پہنچے اور ہم وہیں کھڑے ان سے بھیک مانگ رہے ہیں، یہاں رہنماؤں سے لیکر عوام تک کوئی بھی ملک کے نقصان کو اپنا نقصان ماننے کے لئے تیار نہیں۔ سب اس ملک کے اثاثوں کو مال غنیمت سمجھتے ہیں، جس کا جتنا بس چلتا ہے دونوں ہاتھوں سے لوٹتا ہے، جس کے پاس جتنا بڑا عہدہ ہے، اس کو ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کے اتنے ہی زیادہ مواقع ملتے ہیں اور جس کے پاس عہدہ نہیں وہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے ملک کا نقصان کرنے میں ملوث ہوتا ہے۔ ملک لوٹنے میں سب شریک ہین، عوام الزام حکمرانوں اور حکمران عوام کو دیتے ہیں۔ ’’میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا بھی نکل آیا‘‘ قصور وار ہر ایک ہوتا ہے۔ اپنے اقتدار کی بقا اور بسا اوقات حقیر مفادات کی تکمیل، محلات کی تعمیر اور خوابوں کی تعبیر کے لئے ملکی سالمیت تک کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ہمارے انہی ’’اوصاف حمیدہ‘‘ نے ہمیں دنیا کی کرپٹ ترین اقوام کی صف میں شامل ہونے کا ’’اعزاز‘‘ بخشا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے تو تاریخ انسانی میں قربانیوں کی ان مٹ داستان رقم کرکے اس ملک کو بنایا تھا، ہم ناخلفوں کے ’’کارناموں‘‘ سے اس کا ایک حصہ تو کٹ کر جدا ہوگیا، باقی ماندہ حصہ بھی ہمارے کرتوتوں سے لہولہان بزبان، غالب یوں ماتم کناں ہے ’’کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا‘‘۔ بھیک مانگ مانگ کر ہمارے حکمرانوں کی فطرت بدل چکی ہے، اول تو بھیک میں برکت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، پھر وہ دنیا و آخرت میں باعث خفت بھی ہے۔
تمام مفکرین، دانشور، عقلا و فلاسفر اس بات پر متفق ہیں کہ اقوام کی ترقی کا راز اخلاقی اقدار کی بلندی میں چھپا ہے۔ جب تک اخلاقی اقدات Moral Values کا گراف اونچا نہیں ہو گا کوئی قومی چاہے اس کے پاس مادی وسائل کتنے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں وہ ترقی کی دہلیز کو چھو بھی نہیں سکتی، دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک کی ترقی کے پیچھے اس کے عوام و خواص کے اخلاص، ملک و ملت کے درد کے احساس کا عمل دخل ہوتا ہے، مسلمانوں کی ماضی میں ترقی کا یہی بنیادی سبب تھا۔ عمر ثانی عمر بن عبد العزیزؒ جب ذاتی کام شروع کرتے تھے تو سرکاری شمع بھجا کر ذاتی روشنی کا بندوبست کرتے تھے، یہی حال ہے ہر ترقی یافتہ قوم کے رہنماؤں کا۔ کسی بھی قوم کی کی یہ عالی اقدار ہوں وہ چھائی ہی رہے گی۔ جب تک ہم سرکاری املاک کو مال غنیمت سمجھتے رہیں گے ہم تنزل کے تاریک غاروں میں اترتے چلے جائیں گے، چینی عوام کی طرح ہمارے قلوب و اذہان میں یہ احساس، فکر اور درد پیدا ہونا چاہئے کہ ’’میرے ملک کا نقصان ہو رہا ہے‘‘ اس کے نقصان کو اپنا ہی نقصان سمجھیں اور یوں نہ کہیں کہ اس ملک یا ہمارے ملک کا نقصان، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ میرے ملک (واحد متکلم کے صیغے کے ساتھ) کا نقصان ہو رہا ہے۔ کہا کریں اور یہی سمجھا کریں، نسبت ملک کی اپنی ذات کی طرف کریں، کیونکہ عربی کا محاورہ ہے اور وہ ایک مُسلّم حقیقت بھی ہے کہ ’’المصیبۃ اذا عمت خفت‘‘ مصیبت اور نقصان جب عام ہو جائے اور اس میں سب شریک ہوں تو اس کا احساس کم، بلکہ ختم ہو جاتا ہے، جب نقصان فرد واحد کا ہو تو احساس بھی شدید ہوتا ہے، بس ہم میں اسی شعور کی کمی ہے، ورنہ قدرت کے عطا کردہ ہر قسم کے وسائل سے ہم مالا مال ہیں اور یہ شعور جس دن عوام سے لیکر خواص تک ہر ایک کے اندر پیدا ہوا اسی دن ہم ترقی کی شاہراہ پر بگٹٹ دوڑنا شروع کردیں گے اور سپر پاور بننے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکے گا۔ (ان شااللہ)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”The loss of My Country۔۔۔۔ضیا چترالی

Leave a Reply