ن لیگ کی متوقع حکمتِ عملی

نواز شریف پر استعفیٰ کا دباوُ بہت زیادہ تھا ۔ بعض مراحل پر تو یہ محسوس بھی ہوتا رہا کہ وہ شاید مستعفی ہو جائیں لیکن اس کے بر عکس وہ ڈٹ گئے ۔ انہوں نے نہ تو نا اہلی کی پرواہ کی اور نہ ہی نیب ریفرنسز کو خاطر میں لائے حالانکہ یہ دونوں تلواریں بدستور ان کے سر پر لٹک رہی تھیں ۔ ایک خبر یہ بھی تھی کہ وہ نا اہلی کے ریفرنس کا فیصلہ آنے سے قبل اپنے اہل و عیال کے ہمراہ ملک سے فرار ہو جائیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا ۔ ایک خبر یہ گردش کرتی رہی کہ نواز شریف نے چوہدری نثار کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے محفوظ راستے کی بھیک مانگی ہے لیکن یہ خبر بھی 62/63 پر پوری نہ اتر سکی . ان کے وزرا کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ان کے نام نہاد جانثار ایک ایک کر کے فرار ہو جائیں گے لیکن ایسا بھی کچھ دیکھنے کو نہیں ملا ۔ پھر فارورڈ بلاک کی خبریں تو خود مسلم لیگی حلقوں سے سنائی دیتی رہیں ۔ مسلم لیگ چ کی لانچنگ کا بھی شور و غوغا بپا رہا لیکن یہ خواب بھی تشنہُ تکمیل ہی رہا .مسلم لیگ ن متحد ہے جس کا بین ثبوت آج وزارت عظمیٰ کے امیدوار شاہد خاقان عباسی کا 221 ووٹ لیکر کامیاب ہونا ہے .

نااہلی کے بعد چار سابق وفاقی وزرا کے پریس کانفرنس کے ذریعے اعلان کرنے سے یہ تاثر بخوبی ابھرا کہ مسلم لیگ ن نہ صرف اپنے مینڈیٹ کا بہر صورت تحفظ کرے گی بلکہ ایسے اقدام بھی ضرور کرے گی جس سے جمہوری حکومت کی بساط لپیٹنا آسان نہیں رہے گا ۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن تا حال یہ واضح نہیں ہو رہا کہ اس کا آئندہ لا ئحہ عمل کیا ہے ؟ ایک دو روز کی خاموشی تو اس لئے قابل ِ فہم ہے کہ پی ایم ایل این کی سب سے پہلی ترجیح تودیہی طور پر وفاقی حکومت کی تشکیل ہی ہو گی ۔ اس کے بعد ہی کچھ واضح ہو سکے گا کہ وہ اپنے کارڈز کیسے کھیلتی ہے البتہ ایک بات واضح ہے کہ نا اہلی کے بعد جتنے بھی اقدامات اس کی طرف سے تا حال سامنے آئے ہیں ان میں نواز شریف جھکتے دکھائی نہیں دئیے ۔ مثلاً انہوں نے شہباز شریف کو ہی وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد کیا ہے حالانکہ ان پر دباوُ یہ تھا کہ وہ اپنے خاندان سے کسی کو وزیر اعظم نامزد نہ کریں ۔ نامزد وزیر اعظم نے بھی علی الاعلان یہ کہا ہے کہ وہ نواز شریف کی پالیسیوں کی ہی پیروی کریں گے ، صاف ظاہر ہے یہ پیغام انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ہی دیا ہے ورنہ مسلم لیگی حلقوں میں بھلا اس حوالے سے کیا ابہام ہو سکتا ہے ۔یہ تناوُ کی کیفیت ملک و قوم کیلئے کسی طور بھی بہتر نہیں ہے لیکن ایسے لگتا ہے کہ اب یہ تناوُ بڑھے گا کم نہیں ہو گا ۔

تا حال پی ایم ایل این کی آئندہ حکمت عملی اگر چہ واضح تو نہیں ہے لیکن اس کا ایک دھندلا سا نقشہ ضرور نظر آ رہا ہے .اس نقشے میں پہلی بات یہ نظر آ رہی ہے کہ مسلم لیگ ن عمران خان کے خلاف نا اہلی کے ریفرنس کو اپنے منطقی انجام کو پہنچائے گی . بہت زیادہ امکانات ہیں کہ جس طرح کی نظیر نواز شریف کی نا اہلی کی صورت میں سامنے آ چکی ہے اس سے عمران خان کی نا اہلی میں کوئی زیادہ دقت نہیں پیش آئے گی . عمران خان کے محبین نے اگر چہ اپنے دل کو بہلانے کیلئے کئی تصورات میں پناہ لے رکھی ہے . بعض یہ کہتے ہیں کہ اس پر کرپشن کا الزام کیسا اس کے پاس تو کبھی پبلک آفس ہی نہیں رہا . بات یہ نہیں ہے کہ ان پر کرپشن کا الزام لگایا جائے گا بلکہ ان پر بھی 62/63 کا خنجر چلے گا اور اس کے لئے کافی مواد موجود ہے . ان کی غیر اخلاقی حرکات کے جواب میں بھی وہ یہ کہ دیتے ہیں کہ یہ ان کے کردار کا ذاتی رخ ہے ان پر ملک کا خزانہ لوٹنے کا تو کوئی الزام نہیں . ایسے حضرات نے شاید 62/63 کا مطالعہ بنظر غائر نہیں کیا .

اس کام سے فارغ ہونے کے بعد پارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں کچھ ایسی تبدیلیاں ضرور کروائی جائیں گی جن کے ذریعے نہ صرف سول بالا دستی کو یقینی بنایا جا سکے گا بلکہ نواز شریف کو ملنے والی نا اہلی کی سزا کو بھی غیر موثر بنایا جا سکے ۔ اگر اس کام میں ان کے اتحادی اور پاکستان پیپلز پارٹی ان کا ساتھ دیتی ہے تو وہ یہ کام بآسانی کر لے گی ۔ اگر عمران خان ان کا ساتھ نہیں بھی دیتے تو یقیناً وہ ان آئینی ترامیم سے مستفید ضرور ہوں گے اور اس سے بھی ان کی ساکھ متاثر ہوگی . ویسے بھی ا ن کے شریک نہ ہونے سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ طاقتیں یکجا ہو جائیں گی . جہاں تک آئینی ترامیم کا تعلق ہے تو اس میں چند باتیں صاف نظر آ رہی ہیں . سب سے پہلے یہ کوشش کی جائے گی آئین ِپاکستان کی دفعات 62 اور 63 کو یکسر ختم کر دیا جائے یا کم از کم ان کے تحت نا اہلی کی سزا کو صرف جاری دورانیے تک ہی محدود رکھا جائے یعنی تاحیات نااہلی یا زیادہ دورانیوں کی نا اہلی کو تصریحاً ختم کر دیا جائے .اس طرح اس تبدیلی کا اطلاق اور نفاذ موثر بہ ماضی کر نے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور آئندہ انتخاب میں میاں نواز شریف کے حصہ لینے کی راہ ہموار ہو جائے گا .

اسی طرح آئین پاکستان میں وزیر اعظم کو حاصل محدود استثنیٰ کو ترمیم کے ذریعے مطلق اور کامل استثنیٰ قرار دیدیاجائے گا . اسی طرح آئین کی دفعہ 184 ( 3 ) جو سپریم کورٹ آف پاکستان کی jurisdiction کا تعین کرتی ہیں اس میں ترامیم کے ذریعے سپریم کورٹ کا دائرہ محدود کیا جائےگا تاکہ وہ کوئی سی وجوہ کی بنا پر بھی آئندہ کسی بھی ممبر پارلیمنٹ کے خلاف دائر کی جانے والی petition کو براہ راست نہ سن سکے اور اپیلیٹ کورٹ کے طور پر ہی اس میں الیکشن کمیشن کی طرف سے کی گئی نا اہلی کا معاملہ زیر بحث لایا جا سکے . نیب ریفرنسز کے حوالے سے نیب کورٹ کو جو ڈائریکشن سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے دی گئی ہے اس کے تحت اس پر فیصلہ تقریباً وسط فروری تک متوقع ہو گا . اگر یہ فیصلہ میاں نواز شریف کے خلاف بھی آجاتا ہے تو ان کے پاس بالائی عدالتوں میں اپیلوں کا حق محفوظ رہے گا . گویا کرپشن کی بنا پر نااہلی ثابت کرنے کیلئے طویل وقت درکار ہو گا . اگر متوقع آئینی ترامیم ہو جاتی ہیں تو نواز شریف کی نا اہلی رواں دورانیہ گذرنے کے بعد خود بخود ختم ہو سکتی ہے اور وہ کرپشن کے ریفرنسز کا دفاع کرنے کیساتھ آئندہ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے .

Advertisements
julia rana solicitors

اسٹیبلشمنٹ بھی اس پیش رفت پر گہری نظر رکھے گی اور ایوان کے اندر اور باہر حتی الوسع ان ترامیم کو منظور ہونے سے روکنے کی پوری کوشش کرے گی .اس حوالے سے اگر عدلیہ سے کوئی معاونت لی جا سکتی ہو گی تو وہ بھی لینے کی کوشش کرے گی لیکن عمران خان کی متوقع نا اہلی کے بعد صورت ِ حال خاصی بدل جائے گی اور اسٹیلشمنٹ زیادہ دیر زیر نقاب نہیں رہ سکے گی . پس وہ وقت ہو گا جب اس کے پاس دو آپشن ہی رہ جائیں گے . یا وہ سول بالا دستی کو تسلیم کر لے یا وہ کھل کر مارشل لا کا راستہ اختیار کر لے . مجھے زیادہ امکانات پہلی صورت کے ہی نظر آتے ہیں جبکہ دوسری صورت کا وقوع پذیر ہونا ایک معجزے سے کم نہیں لگتا .

Facebook Comments

محمدخلیل الرحمن
بندہ دین کا ایک طالب علم ہے اور اسی حیثیت میں کچھ نہ کچھ لکھتا پڑھتا رہتا رہا ہے ۔ ایک ماہنامہ کا مدیر اعلیٰ ہے جس کا نام سوئے حجاز ہے ۔ یہ گذشتہ بائیس سال سے لاہور سے شائع ہو رہا ہے ۔ جامعہ اسلامیہ لاہور کا ناظم اعلیٰ ہے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا ممبر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply