واش روم کی بندش سے مسند اقتدار تک

ہاتھوں میں مختلف علوم کی ڈگریاں پکڑے رکشوں اور کھٹارا بسوں میں دھکے کھاتے ہزارواں نوجوان ہیں جو اس ملک میں نوکری کے لیے بھاگ دوڑ کرہے ہیں.چند پیسوں کی رشوت سے لیکر کسی صاحب کی سفارش تک ان کی آرزوئیں اور امنگیں امیدویاس کے مابین معلق رہتی ہیں. اس پوری کوشش اور کاوش کے بعد بس چند خوش نصیبوں کے کاندھوں پر ہی قسمت کی دیوی کی زلفیں مہربان ہوتی ہیں باقی جہاں کے تگ و تاز میں کھیت رہتے ہیں.
ایک صاحب نام نامی جن کا میاں محمد نواز شریف ہے ایسے ہی جوانوں میں سے ایک جوان ہیں. قسمت کی دیوی کی مہربانیاں جن پر اتنی ہیں کہ سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے, تین دفعہ اس مملکت خداداد کے وزیر اعظم رہے,لیکن تیسری دفعہ جب وہ رخصت ہوئے ہیں تب بھی ان کے اعمال نامے میں چند سڑکوں اور قطری خط کے سوا کچھ نہیں. ایسی بلندی ایسی پستی.
زندگی کے رنگ عجیب ہیں. چوک چوراہوں پہ بھیک مانگتے فقیروں کے آس پاس متعدد بچے اس کام میں ان کی معاونت کررہے ہوتے ہیں, لیکن لاکھوں روپے کمانے والا تاجر اولاد کی نعمت کے لیے ترس رہا ہوتا ہے. اسی طرح ایک ڈگری یافتہ شخص نوکری کو ترستا ہے دوسری طرف کسی بھی ڈگری سے عاری نسبتاً ایک غبی شخص ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھتا ہے. ایسے شاندار مواقع اور تاریخ میں نام درج کروانے کے سنہری مواقع خال خال ہی کسی کو نصیب ہوتے ہیں. خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو عوامی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوے عوام کی خدمت کرکے ابدی عزت اور دائمی سکون کمائیں, لیکن افسوس ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت سرے سے موجود ہی نہیں. نواز شریف صاحب موت کی کال کوٹھڑی سے اقتدار کی مسند پہ فائز ہوے, لیکن شاید یہ چیز بھی ان میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی پیدا نہ کرسکی. جلاوطنی کے عذاب سے لیکر ایئر پورٹ کے واش روم میں بند ہونے تلک وہ تمام قسم کی مشکلات سے نکل کر اک بار پھر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے, لیکن کیا وہ اس ملک کے زمین زادوں کی قسمت بدل سکے؟کیا انہوں نے سسکتی روحوں کا کوئی درماں کیا؟زندہ جلنے والوں کا کوئی حساب لیا؟زندہ درگور ہونے والوں کی خبر گیری کی؟
ان تمام باتوں کا جواب نفی میں ہے. سیاست کی پیچیدگیوں سے لیکر عدلیہ و اسٹبلشمنٹ کی وارداتوں تک نواز شریف صاحب شاید معصوم اور صادق و امین ہوں لیکن تاریخ باوجود تمام مواقع ملنے کے ایک رہنما کے طور پر ہرگز یاد نہیں رکھے گی بلکہ صرف ایک مفاد پرست اور اپنے سودوزیاں کا حساب رکھنے والا سیاست دان ہی شمار کرے گی.
دنیا میں نام کمانے والوں نے اس سے کہیں کم وقت میں اپنی عظمت کے نقوش ثبت کئے. دنیا آج جن کی عظمتوں کے ترانے گاتی ہے وہ لوگ تھے جو کابینہ کی میٹنگ میں قومی خزانے سے چاے پینا تک گوارہ نہیں کرتے تھے, لیکن خیر یہاں تو اربوں اور عربوں کے بیچ ہی کہیں قومی مفاد کھو کے رہ گیا.
تاحیات نااہلی کا ٹھپہ لگوانے کے بعد شاید کسی دن کسی ڈھلتی اداس شام میں نواز شریف صاحب عمر رفتہ کا حساب کریں تو انہیں احساس ہو کہ اس طویل سفر میں ان کے پاس احساس زیاں کے سوا کچھ بھی نہیں, لیکن نہیں شاید نہیں, کیونکہ مظلومیت اور خود ترحمی کا رونا رونے والوں کو سوچنے کا یہ زاویہ بھی میسر نہیں ہوتا.
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جاے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”واش روم کی بندش سے مسند اقتدار تک

Leave a Reply to Saif Cancel reply