مولانا آزاد اور پاکستان (میرا آئیڈیل)

لوگ جب مجھے ن لیگ یا موجودہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی راہنماء سے جوڑنےکی کوشش کرتے ہیں تو میرے منہ کا ذائقہ خراب ہوجاتا ہے۔ جہلا میں سے کم جاہل، بے عقلوں میں سے کم عقل یعنی اندھوں میں کانا تلاشنا تو وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن ان لوگوں کو لیڈر ماننا، محبتیں نچھاور کرنا اور پاکستان کی آخری امید سمجھنا پرلے درجے کی بیوقوفی ہے۔ سینتالیس میں ہم نے ایک لیڈر جسکی حالت اتنی خراب تھی کہ اسے ایک چارپائی سے دوسری چارپائی تک لیجانا بھی گناہ کبیرہ تھا ایک خراب گاڑی میں زیارت روانہ کردیا اور اسکی بہن کی کتاب جو سچائی کے نشتروں سے بھرپور تھی اسے قومی سلامتی کے پیش نظر سینتیس سال بعد شائع کیا اور اسمیں سے وہ تمام سچ نکال دیا جو اس قوم کو شائد درست سمت میں ڈال دیتا۔ خیر، آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والے لیڈران کو ایک جھلک دکھانا چاہتا ہوں کہ لیڈر اصل میں کسے کہتے ہیں اور سیاسی بصیرت کیا ہوتی ہے۔
کاش یہاں میں آڈیو آپ تک پہنچا سکتا، تو علم ہوتا کہ لیڈر گفتگو کیسے کرتا ہے۔ آج ہمارے کوڑھ مَت بولیں تو دل کرتا ہے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا جائے۔ مولانا آزاد کے نام سے بہت کم لوگ واقف ہونگے جو واقف ہونگے وہ انکی سیاسی بصیرت سے ناواقف ہونگے۔ میں بات کرونگا تو بات لمبی ہوگی، کیوں نہ مولانا کو خود بات کرنے دی جائے۔ یہ علامہ شورش کاشمیری کے رسالہ چٹان کے لئے مولانا کا انٹرویو تھا اسمیں مولانا نے چند پیشین گوئیاں کی تھیں میں چاہتاہوں کہ اسمیں مولانا کی پیشین گوئیاں اور انکے دلائل کو جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ سیاسی بصیرت اور لیڈر کسے کہتے ہیں:
پہلی پیشین گوئی:
جناح اور لیاقت علی خان جب تک زندہ ہیں اس وقت تک مشرقی پاکستان کا اعتما د متزلز ل نہیں ہو سکتا، لیکن دونوں رہنمائوں کے چلے جانے کے بعد ایک چھوٹا سا واقعہ بھی ناراضگی اور اضطراب پیدا کر سکتا ہے ۔میں محسوس کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے لیے بہت طویل مدت تک مغربی پاکستان کے ساتھ رہنا ممکن نہ ہو گا۔ دونوں خطوں میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے سوائے اس کے دونوں اطراف کے رہنے والے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں مسلمان کہیں بھی پائیدار سیاسی اتحاد پیدا ہی نہیں کر پائے،عرب دنیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مشرقی پاکستان کی زبان ، رواج اور رہن سہن مغربی پاکستان کی اقدار سے مکمل طور پر مختلف ہیں۔پاکستان کے قیام کی گرم جوشی ٹھنڈی پڑتے ہی اختلافات سامنے آنا شروع ہو جائیں گے، جو جلد ہی اپنی بات منوانے کی حد تک پہنچ جائیں گے۔ عالمی قوتوں کے مفادات کی جنگ میں یہ اختلافات شدت اختیار کریں گے اور پاکستان کے دونوں حصے الگ ہو جائیں گے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان خطے میں موجود تضادات اور اختلافات کا میدان جنگ بن جائیگا ۔
(سقوط ڈھاکہ کے واقعات اٹھائیے، اور دیکھئے یہ حرف بہ حرف پوری ہوچکی ہے)

دوسری پیشین گوئی:
پنجاب ، سندھ، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کا قومیائی تشخص بیرونی مداخلت کے دروازے کھول دے گا۔ وہ وقت دور نہیں ہو گا جب عالمی قوتیںپاکستان کی سیاسی قیادت میںموجود مختلف عناصر کو استعمال کر کے اس کو بخرے کر دیں گی، جیسا کہ بلقان اور عرب ریاستوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔اس وقت ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں گے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
(قومیائی تشخص نے ہمیں جہاں تک پہنچایا ہے اگر آپ کچھ چند سالوں میں چلے جائیں تو آپکو بخوبی علم ہوجائے گا)
تیسری پیشین گوئی:
"کیا یہ غور کرنے کی بات نہی کہ جب تقسیم کی بنیاد ہی ہندو اور مسلمانوں کی عداوت پر رکھی گئی تو پاکستان کے قیام سے یہ نفرت ایک آئینی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اسکا حل اب اور بھی مشکل ہوگیا ہے۔ اسطرح اب یہ دونوں ملک خوف و ہراس کی وجہ سے اپنے اپنے فوجی اخراجات بڑھاتے رہنے پر مجبور رہینگے۔ اور معاشی ترقی سے محروم ہوتے چلے جائینگے"
(ایک تقریر سے اقتباس)
چند اور پیشین گوئیاں:
(1) کئی مسلم ممالک کی طرح پاکستان کی نااہل سیاسی قیادت فوجی آمروں کی راہ ہموار کرے گی۔ (2) بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ ہو گا۔(3)پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات کا فقدان اور جنگ کے امکانات ہو ں گے۔ (4)داخلی شورش اور علاقائی تنازعات ہوں گے۔(5)پاکستان کے صنعتکاروں اور نو دولتیوں کے ہاتھوں قومی دولت کی لوٹ مار ہو گی۔ (6) نو دولتیوں کے استحصال کے نتیجے میں طبقاتی جنگ کا تصور ہو گا۔(7)نوجوانوں کی مذہب سے دوری اور عدم اطمینان اور نظریہ پاکستان کا خاتمہ ہو جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سب کے باوجود تاریخی پس منظر اور موجودہ حالات کی روشنی میں، میں سمجھتا ہوں کہ محمد علی جناح کا فیصلہ زیادہ درست تھا۔ خیر یہ تو مختلف بحث ہے، میں اس وقت صرف مولانا کی تقریر میں سے انکا گلہ نقل کرنا چاہتا ہوں اور دکھانا چاہتا ہوں کہ دشنام طرازی، گالم گلوچ، کتا بلا، اور اس طرح کی بدتہذبیوں کے علاوہ بھی شائستہ انداز میں بات کی جاسکتی ہے۔ اور دل کا حال سنایا جاسکتا ہے۔
مولانا تقریر میں کہتے ہیں:
"لیکن آج اگر میں ملامت کروں تو کس کو کروں، کیسے کروں اور کیونکر کروں، اپنے بھائیوں کو اپنے عزیزوں کو، کس دیوار سے سر ٹکراؤں، ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا تم نے میری زبان کاٹ ڈالی، میں نے قلم اٹھایا تم نے میرے ہاتھ قلم کردئیے، میں نے چلنا چاہا تو تم نے پاؤں کاٹ دئیے، میں نے کروٹ لینی چاہی اور تم نے میری کمر توڑ دی"۔
(اس تقریر کے آخر میں مولانا رو پڑتے ہیں)

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply