خواجہ سراوں پہ ظلم اور ہماری بے حسی

یہ انسان، یہ اشرف المخلوقات جنهیں فرشتوں نے سجدہ کیا تها کیوں کہ انهیں عقل و شعور اور آگہی جیسی خصوصیات سے مزین کیا گیا تها، مگر یہ اپنے مقام سے اتنا گرچکے ہیں کہ مجهے پورا یقین ہے اب تو ابلیس بهی انهیں سجدے کرتا ہوگا اور دن رات کرتا ہوگا کہ یہ تو اس کی امیدوں سے بهی بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ان کی حیوانیت تو اس آگ کو بهی آگ لگا دےجس میں شیطان تخلیقِ آدم سےجل رہا ہے کیونکہ یہ شیطانیت کی سطح سے بهی نیچے گر چکے ہیں۔ خدا نے انهیں زمیں پر اپنا نائب بناکر بهیجا تها مگر ان میں خدائی صفات کی پرچهائی تک نہیں ملتی۔ الٹا حیوانیت میں جنگلی جانوروں کوبهی پیچهے چهوڑ گئے ہیں۔ ان کے پاس ظلم اور زیادتی کا ہر طریقہ موجود ہے اور اس سے بهی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ظلم توڑتے ہوئے کبهی یہ بهی نہیں سوچتے کہ خدا بهی کہیں سے دیکھ رہا ہوگا، وہ بهی کہیں سے ان کیلئے بدلہ تیار کررہا ہو گا، ان کے ساتھ بهی یہی سب ہوسکتا ہے۔ مگر جہاں ان کو زمین پہ کوئی پوچهنے مانگنے والا نہیں سب بے حسی دکها کر اپنا اپنا رستہ لیتے ہیں تو آسمان والا بهی اپنی رسی دراز کرتا رہتا ہے۔ مگر کچھ حساس طبیعت لوگ تڑپ اٹهتے ہیں کہ واقعی خدا ہے بهی کہ نہیں ورنہ اتناظلم تو ایک ماں کا سینہ چیر دے، پهر ستر مائیں تشدد اور بے رحمی کا یہ سنگین منظر کیسے دیکھ سکتی ہیں۔

جولی، شیزہ اور ان جیسے بے شمار خواجہ سراؤں پہ ججا بٹ نامی بدمعاش نے جو ظلم، زیادتیاں اور جسمانی اور ذہنی تشدد کے پہاڑ توڑے اسے دیکھ کر اور اس کے بارے میں سوچ کر جو ذہنی اذیت مجهے ہورہی ہے تو میں سوچتی ہوں جنهوں نے اپنے جسموں پر یہ سب سہا، اپنی روحوں پر یہ سب گوارا کیا کیا وہ انسان نہیں؟ کیا ان کے جسم میں تکلیف نہیں ہوتی؟ یا پهر کیا ان کے ذہن عقل و شعور سے عاری ہیں جو ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا ۔صرف بهتہ نہ دینے پر شیزہ کو پہلے اس کے گهر پر ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور جب ججے حیوان کو اس سے اطمینان نہیں ہوا تو پورے سیالکوٹ کے خواجہ سراوں کو اکٹها کرکے ایک جگہ پر اجتماعی تشدد، زیادتی، ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ پوری رات زمانے بلکہ اپنے گهر والوں تک کے ٹهکرائے ہوئے ان بے بس اور معاشرتی اور معاشی طور پر لاچار لوگوں پر عذاب توڑا گیا، کوئی مسیحا ان کی مدد کو نہیں پہنچا اور یہ اتنے کمزور اور ناتواں تهے کہ مار کهاتے ظلم سہتے گئے اور ظالموں نے نہ صرف دهڑلے سے مارا بلکہ ہٹ دهرمی کی انتہا کہ ویڈیو بهی بنوا کے نشر کی، کیونکہ انهیں معلوم تها کہ پاکستان میں پولیس اور قانون کوئی بهی عام انسانوں خصوصا ایسے لاچار انسانوں کی کوئی حفاظت نہیں کر سکتا۔ اور یہ سچ ہی تو ہے ہمارے ہاں تو ویسے بهی اندها قانون ہے جو آجکل وزیراعظم اور ان کے بچوں کی حفاظت میں لگا ہوا ہے۔ ایک مسئلہ ہے کہ ختم ہو کے نہیں دے رہا، عوام کے مسائل کی کس کو پڑی ہے؟ یہاں تو سیاسی جماعتوں کے مسائل سے ہی فرصت نہیں۔ جو چینل لگائیں پانامہ سے شروع ہو کر محض ہنگامے سے آگے کچھ نہیں، مگر غریب عوام پس رہی ہے کسی کوکوئی سروکار نہیں۔

پهر ہم کہتے ہیں کہ ہم ایک جمہوری اور ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں جہاں پہ لاچاروں اور بے بسوں کو ننگا کرکے ان کی گردن پہ پاوں رکھ کے کئی کئی لوگ مل کے کوڑے برساتے ہیں۔ یہ بے بسی کی انتہا نہیں تو پهر کیا ہے کہ وہ بیچارہ انسان چیخ بهی نہیں پارہا، لیکن جس جس نے وہ ویڈیو دیکهی ہوگی اس کاضمیر ضرور چیخا ہوگا کیونکہ یہ کسی خواجہ سرا کو نہیں بلکہ پوری انسانیت کو ننگا کیا گیا ہے۔ اگر آج کوئی ان کیلئے آواز نہیں اٹهائے گا، آج اگر قانونی ادارے ان کے خلاف سیریس ایکشن نہیں لیں گے، تو کل یہ لوگ اور ان جیسے بہت سے لوگ آپ سب کے گهروں میں گهس کر آپ کے ساتھ بهی یہی سلوک کریں گے۔ کیونکہ بحیثیت ایک زندہ انسان اگر آپ اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ان بیچاروں کے حقوق کیلئے نہیں لڑیں گے توکل کو کوئی آپ کی لڑائی میں بهی نہیں کودے گا کہ چهوڑو ہمیں کیا لینا ان کے آپس کا معاملہ ہے۔

ہمیں توبچپن سے یہ سکهایا گیا کہ یہ اوترے نکهترے،جس کا مطلب بهی آج تک پتہ نہیں(جسکا آگے پیچھے کوئی نا ہو۔ ایڈیٹر)، ہم سے صرف مانگ ہی سکتے ہیں، نہ چهینتے ہیں نہ چوری کرتے ہیں، لہذا ان کو آٹا یا پیسے دینا چاہئے۔ مگر کتنے گهٹیا ہیں وہ لوگ جو ان اوترے نکهتروں کی کمائیوں پر پلتے ہیں اور زمانے میں عزت دار مرد کہلاتے ہیں اور جب ان سے وصولی نہ ہوئی تو ان بیچاروں پہ ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے۔ شیزہ بهی روئی ہوگی، پہلے تو اپنے جسم اور روح پر پڑے ہوئے نیلوں پر اپنے رب سے فریاد کی ہوگی، پهر اپنے پیدا کرنے والوں کو روئی ہوگی، اس ماں کو جس نے اسے نارمل نہ سمجھ کر خواجہ سراوں کے حوالے کر دیا تاکہ اس کی اور اس کے باقی بچوں کی زندگی شرمندگی سے بچ جائے۔ مگر اسے گرو کے پاس چهوڑ کے ماں خود کتنا تڑپی ہوگی اور آج ٹی وی پہ اس نیوز کے بعد ہر وہ ماں رو رہی ہوگی جس نے اپنے گهر پیدا ہونے والے خواجہ سراوں کو گرووں کے حوالے کیا۔ شیزہ اپنے پیدا کرنے والوں کو روئی ہوگی ۔

اس نے اپنے رب سے فریاد کی ہوگی کہ اسے اس کے وارثوں کے ہوتے بهی لاوارث رہنا پڑ رہا ہے۔ اپنی چهت کے ہوتے ہوئے بهی پهول گرو کی چهت کے نیچے کوڑے، جوتے کهانے پڑ رہے ہیں۔ درد سے کراہ بهی نہیں سکتی کہ اس کی تو گردن پہ بهی پاؤں ہے۔ آج مغرب میں ایل جی بی ٹی کےحقوق کو ہر لحاظ سے یقینی بنایا جارہا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو، کوئی انهیں ظلم اور تضحیک کا نشانہ نہ بنائے، انهیں بهی باقی تمام لوگوں کی طرح ہر مقام پر یکساں حقوق دئے جائیں، تب ہم روتے ہیں کہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہورہا ہے، ہماری فیملی اقدار کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ مگر ہم ان جذبات کو محسوس نہیں کر پا رہے جن کا سامنا اس قسم کے لوگوں کو کرنا پڑتا ہے، وہ بهی اپنی زندگی کے ہر میدان میں۔ ہم مغرب پر تنقید کررہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے اسلامی ملک میں کیا ہورہا ہے؟ خدا کی طرف سے بنائے ہوئے انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بهی بدتر سلوک کیا جارہا ہے۔

نفرین ہے جو ہمارے حکومتی نمائندوں میں سے کسی نے بهی اس سفاک واقعے پر لب کشائی کی زحمت گوارا کی ہو یا کسی چینل نے اس تکلیف دہ صورتحال پر تبصرہ کرنے کا پروگرام بنایا ہو۔ حالانکہ ریٹنگ تو اس سے بهی مل جاتی مگر کوئی بهی اس مسئلے پر اپنا وقت نہیں لگانا چاہ رہا کیونکہ سیاسی اور سماجی لحاظ سے یہ مسئلہ اتنا زیادہ ان فیشن نہیں۔ ایک آدھ دن کا رونا ہے، پهر سب بهول بهال جائیں گے۔ مگر کیا بحیثیت انسان یہ ہم سب کا فرض نہیں کہ ہم اپنی نوع کے ان انسانوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کریں۔ عورتوں اور جانوروں کے بعد ان کے حقوق کیلئے بهی لڑیں اور ان کو یہ احساس دلائیں کہ ہم اشرف المخلوقات اپنے سے کسی لحاظ سے کمتر انسانوں کے ساتھ بهی یکساں رویہ رکهنے کے قابل ہیں۔

پکڑے جانے کے بعد ججا بٹ نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس نے شیزہ پر یہ عذاب اس لئے نازل کیا وہ دوسرے لڑکوں سے ملتی تهی اس کا کردار ٹهیک نہیں تها۔ تو اب یہ نام نہاد مرد حضرات عورتوں کے کردارکے ساتھ ساتھ خواجہ سراؤں کے کرداروں پر بهی انگلیاں اٹهائیں گے؟ وہ جو بیچاریاں مانگے تانگے کے پیسے پہ پلتی ہیں، جن کے پاس اپنی چهت تک نہیں، اب یہ ان کے کردار کے بهی ٹهیکیدار بنیں گے؟ اب ان کو اسلام پہ چلانے کیلئے یہ غنڈے بدمعاش انهیں سرِعام ننگا کرکے کوڑے برسائیں گے؟۔ خدا کا خوف بهی نہیں آتا ایسے لوگو ں کو جو زمین پر مسکینوں کے خدا بن گئے۔ آسمان کا خدا تو ایک ہے، زمین پہ بے شمار خدا مل گئے اور وہ بهی بهتہ وصول کرنے والے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حکومتَ پنجاب کو اس واقعے کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہئے اور جو رفاہی ادارے انسانی حقوق کیلئے کام کر رہے ہیں انهیں ان مسائل کو بهی دیکهنا چاہئے۔ یہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور یہ کسی امراء شرفاء کے گهر بهی پیدا ہوسکتے ہیں خدارا ان کو بهی ایسے حقوق دئے جائیں کہ یہ حضرتِ انسان کے گهروں میں عزت کے ساتھ پل سکیں۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply