اپالو ۱۳ ۔ عروج آدم خاکی۔۔۔وہارا امباکر

ہیوسٹن کے کنٹرول روم میں سینکڑوں لوگ جمع ہیں ۔ یہ تین افراد کی زندگی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جو زمین سے باہر مشکل صورتحال میں ہیں۔ یہ ۱۹۷۰ ہے اور اپالو ۱۳ کا مشن۔ ان کا آکسیجن کا ایک ٹینک پھٹ گیا تھا اور خلائی جہاز کو نقصان پہنچا تھا۔ خلا باز جیک سوائیگرٹ کا پیغام زمین تک پہنچا تھا، “ہیوسٹن، ایک مسئلہ ہو گیا ہے”۔

زمین سے دو لاکھ میل دور۔ ایندھن، پانی، بجلی اور آکسیجن سب کی کمی ہو رہی ہے۔ اس کا حل نظر نہیں آ رہا۔ فلائٹ ڈائریکٹر جین کرانز کے الفاظ گونجے۔ “جب آپ لوگ اس کمرے سے نکلیں تو اس یقین کے ساتھ کہ خلاباز گھر واپس آ رہے ہیں۔ مجھے پرواہ نہیں کہ امکانات کیا کہتے ہیں۔ مجھے پرواہ نہیں کہ ہم نے ایسا نہ پہلے دیکھا ہے، نہ اس کے لئے تیار ہیں۔ آپ کو اور آپ کے ساتھ تمام کام کرنے والوں کو یقین رکھنا ہے کہ آپ کے ساتھی واپس گھر کو لوٹیں گے”۔

ان مشنز کی تیاری آخری منٹ تک کی جاتی ہے۔ ہر صورت سے نپٹنے کے لئے مہینوں ریہرسل کی جاتی ہے۔ کب کیا کیا جائے گا۔ کتنے دیر خلاباز چاند پر رہیں گے۔ لیکن یہ سب اس کو سوچ کر کیا گیا تھا کہ سپیس شپ خود ٹھیک ہو گا۔ لیکن اب سروس موڈیول تباہ ہو چکا ہے اور کمانڈ موڈیول سے پاور کم ہو رہی ہے۔ لونر موڈیول کام کر رہا ہے۔ کئی خرابیوں کی تیاری کی جاتی ہے۔ اس کی نہیں کی گئی۔

یہ ناممکن ٹاسک ہے۔ تین لوگ ایک دھاتی کیپسول میں بند خلا میں تین ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہے ہیں اور ان کو زندہ رکھنے والے سسٹم خرابی کا شکار ہیں۔ اس دور میں نہ جدید مواصلاتی نظام آئے ہیں اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر جیسی کوئی شے نہیں۔ پنسل اور سلائیڈ رول کی مدد سے انجینئرز نے طریقہ ڈھونڈنا ہے کہ کمانڈ موڈیول کو چھوڑ کر لونر موڈیول کے ذریعے بحفاظت پہنچا جا سکے۔

ایک ایک کر کے مشکلات حل کی گئیں۔ زمین تک پہنچنے کا راستہ، جہاز کو اس راستے پر ڈالنے کا طریقہ، پاور بچانا۔ اس بحران کے ڈیڑھ دن کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ کا لیول خطرناک حد کو چھونے لگا۔ ناکارہ کمانڈ موڈیول سے کنستر لے کر ان کو جراب، پلاسٹک بیگ، کتے اور پائپ کی مدد سے اور ٹیپ سے جوڑ کر لونر موڈیول کے فلٹریشن سسٹم میں ان کو استعمال کیا گیا۔یہاں تک کہ اس میں زمینی عملے کی ہدایت پر خلابازوں نے اپنے تھرمل زیر جاموں کے حصوں کو بھی جو سپیس واک کے وقت سپیس سوٹ کے نیچے پہنے جاتے ہیں۔ یہ فلٹر بنا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ محفوظ لیول تک آئی۔ پھر اگلا اور پھر اس سے اگلا مسئلہ آن پڑا۔ کافی اور ایڈرنلین کی طاقت سے چلتے ذہنوں نے بیٹریاں چارج کرنے کے مسئلے سے کے کر وہ مسائل ایک ایک کر کے سلجھائے جس کے لئے یہ تیار نہیں تھے۔

۱۷ اپریل ۱۹۷۰ کو صبح کاذب کے وقت اس بحران کو شروع ہوئی اسی گھنٹوں کے بعد ان خلابازوں کی زمین پر آخری اتران کا وقت آ گیا، مشن کنٹرول نے آخری چیک مکمل کئے۔ زمینی فضا میں داخلے کے ساتھ مواصلاتی بلیک آؤٹ ہو گیا، کرانز کے الفاظ میں، “جو کر سکتے تھے، کر لیا تھا، کنٹرول روم میں مکمل سناٹا تھا۔ الیکٹرانکس سے آنے والی ہلکی آواز یا پس منظر میں چلنے والے ائر کنڈیشنر کی یا کسی کا قلم کے ڈھکن کی کھول بند کی۔ سب ساکن تھے۔ جیسے زنجیروں سے بندھے ہوں”۔

ڈیڑھ منٹ کے اس لمبے سکوت کے بعد کنٹرول روم کو سگنل ملا۔ اپالو ۱۳ محفوظ ہے۔

کنٹرول روم سیٹیوں، نعروں اور اونچی آوازوں سے گونج اٹھا۔ فرانز جیسا غیر جذباتی اور سنجیدہ انسان بھی آنسوؤں کے ساتھ رو رہا تھا۔

ناسا کے اس کنٹرول روم، پکاسو کی تصاویر، موزارٹ کی دھنوں، تاج محل، ملٹی میڈیا انجینئر، موبائل ڈویلپر وغیرہ میں کیا شے مشترک ہے؟ ذہن کی تخلیقی صلاحیت۔ ہمارا ذہن صرف ریکارڈر نہیں جو اپنے ماحول کے مطابق چلنے پر مجبور ہے۔ یہ اپنے تجربے خود تخلیق کرتا ہے۔ جہاں انسانی معاشرت کی بنیادی وجہ یہ صلاحیت ہے، وہاں پر یہ کہ موجودہ اکانومی میں ایک کام کو ہزار مرتبہ کرنے کی صلاحیت کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے، تخلیق اور کچھ نیا کرنا انسان کی طاقت ہے اور مستقبل کی اکانومی کی بنیاد۔ آج بہت سے پیشے وہ ہیں جو ایک نسل پہلے موجود ہی نہ تھے۔ آج سکول کا طالبعلم جب کل صبح کام کو نکلے گا تو امکان یہ ہے کہ جو کام کرنے نکلے گا، وہ پیشہ آج موجود نہیں۔ دنیا بھر میں عام طور پر والدین اور اساتذہ نئی نسل کو ڈسپلن کے تحت دیکھنا پسند کرتے ہیں لیکن زیادہ ڈسپلن تخلیقی صلاحیت کو مجروح کرتا ہے۔ نئی اکانومی، نئی دنیا، نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے یہ کرنے والا اصل کام ہے۔ وہ صورتحال جس کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا، کیا ہم اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہوں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors

اگر مگرمچھ کشتیاں نہیں بناتے، گلہریاں لفٹ سے درختوں پر نہیں چڑھتیں، بھینسوں کا آرکسٹرا نہیں ہوتا تو اس کے پیچھے فرق صرف ہمارے ذہن کی اس صلاحیت کا ہے۔ اس صلاحیت کو بڑھانا اور نشوونما کرنا ہماری، والدین کی، اساتذہ کی ذمہ داری کیونکہ نہ استعمال کرنے سے یہ مر جاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply