وکیل بابو

ڈسٹرکٹ کچہری لاہور میں پھیلی بوسیدہ کرسیوں اور پھٹوں میں سے ایک ٹوٹی پھوٹی سی کرسی پر روز ہمارے وکیل بابو آ کر بیٹھتے۔ اپنا ٹائپ رائٹر سیدھا کرتے، کاغذوں کے دستے سے ایک تازہ کاغذ نکال کر اس میں لگاتے اور صبح کی پہلی سگریٹ سلگا کر آتے جاتے پریشان حالوں میں سے اپنے نصیب کا پریشان حال بیٹھے بیٹھے تلاش کرنے لگتے۔ وہ ایک کے بعد ایک سیگریٹ پھونکتے جاتے مگر ان کے نصیب میں زیادہ تر وہی سائلین آتے جن کا سوال ہوتا۔
“نادرا کا دفتر کس طرف ہے ؟”

وکیل بابو نوجوان تو تھے ہی مگر چہرے پر معصومیت بھی ایسی بلا کی پائی تھی کہ اگر ڈسڑکٹ کورٹ پشاور میں ہوتے تو بڑی ڈیمانڈ میں ہوتے مگر ہائے کاتب تقدیر کہ ان کے نصیب میں اس چڑھتی جوانی میں لکھی بھی تو ڈسٹرکٹ کچہری لاہور۔ جہاں مرد سائیلین انہیں بچہ سمجھ کر نظر انداز کردیتے جبکہ زنانیاں ان سے لو لیٹر کے سوا کچھ بھی ٹائپ نہ کرواتیں۔ وکیل بابو کفایت شعاری کے سبب لنچ میں تو آلو والے دو سموسے لیتے لیکن احتیاطاً روز دو سو روپے اضافی بھی جیب میں رکھ لاتے۔ ایک روز ایک خوبرو حسینہ انہیں اپنا کیس سمجھانے بیٹھی تو بڑی ادا سے بولی۔”ہم کسی پرسکون جگہ نہیں بیٹھ سکتے ؟”۔۔۔۔۔

یہ سنتے ہی وکیل بابو نے اپنے ٹائپ رائٹر پر کپڑا ڈالا اور حسینہ کو لے کر قریب واقع آئسکریم پارلر میں جا گھسے۔ کیس کی تفصیل شروع ہوئی تو آئسکریم ختم ہوگئی لیکن تفصیل ختم نہ ہوئی۔ حسینہ کل دوبارہ آنے کا کہہ کر کھسک لی تو وکیل بابو کو تشویش لاحق ہوئی کہ کلائنٹ بک نہ ہوا جبکہ ڈیڑھ سو مفت میں آئسکریم پر اٹھ گئے۔ حسینہ وعدے کی پکی نکلی، وہ اگلے روز بھی آئی اور اگلے روز بھی آئسکریم ختم ہوگئی لیکن کیس کی تفصیل ختم نہ ہوئی۔ اس بار وکیل بابو کا اعتماد بحال تھا کہ حسینہ تیسرے روز بھی وعدہ نبھائے گی اور یہ توقع پوری بھی ہوئی۔ وکیل بابو اگلے 9 دن تک اس کیس کی تفصیل سنتے رہے۔ روز آئسکریم ختم ہوجاتی مگر تفصیل ختم نہ ہوتی۔

وہ گیارہویں دن بھی یہ تفصیل سن رہے تھے اور ابھی آئسکریم ختم ہونے کا مرحلہ نہیں آیا تھا کہ اچانک آئسکریم پار لر میں تین مشٹنڈوں کے ساتھ دو نرسیں داخل ہوئیں اور حسینہ کو آ دبوچا۔ وہ حسینہ کو لے جانے لگے تو وکیل بابو نے راستہ روک لیا اور درشت لہجے میں پوچھا۔
“یہ کیا مذاق ہے، آپ لوگ میری (متوقع) کلائنٹ کو کہاں لے جا رہے ہیں ؟”
مشٹنڈوں میں سے ایک بولا۔
“وکیل بابو ! یہ آپ کی کلائنٹ نہیں بلکہ مینٹل ہسپتال سے بھاگی ہوئی مریضہ ہے”

اس واقعے نے وکیل بابو کا پاکستان سے جی اٹھا دیا۔ انہوں نے طے کرلیا کہ اب اپنی باقی زندگی اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے وقف رکھیں گے لیکن یہ دعوت کسی ایسی جگہ دیں گے جہاں بہت بڑی تعداد میں گورے گورے کافر ہوں۔ انہوں نے اپنے ٹائپ رائٹر کی مدد سے کاغذات تیار کیے اور برطانیہ کے ویزے کے لئے اپلائی کر لیا۔ اب وہ برطانیہ میں رہتے ہیں اور ان کی دعوت و تبلیغ کے تین بنیادی اصول ہیں۔
پہلا یہ کہ دعوت صرف خاتون کو دینی چاہیے کیونکہ اگر خاتون اسلام قبول کرلے تو پورے خاندان کے اسلام قبول کرنے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔
دوسرا اصول یہ کہ خواتین میں سے بھی صرف میچور خواتین کو دعوت دینی چاہیے اور میچور وہی ہوتی ہے جو شادی شدہ ہو۔
تیسرا یہ کہ اسلام پر غور فکر کے لئے فرصت ضروری ہے، گھریلو جھمیلوں کے سبب خواتین اسلام پر کما حقہ غور و فکر نہیں کر پاتیں۔

چنانچہ وہ پہلے مرحلے میں میچور خواتین سلیکٹ کرتے ہیں اور اس باب میں ان کا تجربہ اتنا وسیع ہے کہ خاتون کے شادی شدہ ہونے یا نہ ہونے کا اس کی چال سے پتہ لگا لیتے ہیں۔ وہ سلیکشن کے بعد ایسی خواتین کو سب سے پہلے دلائل سے قائل کرتے ہیں کہ لبرل خاتون کو شادی کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہیے اور ان کے دلائل اتنے متاثر کن ہوتے ہیں کہ گوریاں روتے ہوئے کہنے لگتی ہیں۔”پلیز اٹلیسٹ ڈو سیپریٹ می فرسٹ ایز سون ایز پاسبل”۔

اور وکیل بابو جھٹ سے پہلے مرحلے میں سیپریشن اور دوسرے مرحلے میں طلاق کے کاغذات تیار کرنے شروع کردیتے ہیں۔ سنا ہے برطانیہ میں طلاق کی شرح میں اضافے کے پیچھے ان کی دعوت و تبلیغ کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ دروغ برگردن راوی لیکن سن یہی رکھا ہے کہ ہمارے ایک مشہور لیڈر کا گھر بھی انہوں نے ہی توڑا۔ یہ اس لیڈر کی اہلیہ کو گوری سمجھ بیٹھے جبکہ تھی وہ پٹھان اور وہ بھی پہلے سے مسلمان۔ وکیل بابو اس کے سکرٹ سے دھوکہ کھاگئے تھے۔ کفار کے قلب میں بیٹھ کر ہمارا یہ وکیل بابو ان کے گھر توڑ کر بالکل وہی خدمات انجام دے رہا ہے جو بمبئی کی بندرگاہ پر کسی زمانے میں حاجی مستان انجام دیا کرتے تھے۔ اللہ کامیابیوں کا سفر جاری رکھے۔ آمین

Advertisements
julia rana solicitors london

(نوٹ: اس کہانی کی انعام رانا سے کسی بھی طرح کی مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔ ادارہ کسی بھی قسم کا لیگل نوٹس قبول نہیں کرے گا )

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply