تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی

بھارت کادعویٰ ہے کہ وہ دنیاکی دوسری بڑی جمہوریت ہے جس کی آبادی 1.34 بلین ہے۔ جمہوریت کے گن گانے والوں کادعویٰ ہے کہ جمہوریت ہی ایک ایسا نظام ہے کہ عامۃ الناس کوسوچ و فکرکی اور سیاسی وسماجی سرگرمیوں کی مکمل آزادی حاصل ہے اور بھارت بھی دن رات یہی راگ الاپتارہتاہے کہ بھارت ایک ایساملک ہے جہاں عوام کوہرقسم کی”جمہوری”آزادی میسرہے۔ یہاں کے لوگ اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں مکمل طور پرآزاد ہیں لیکن اگر اس دعوی کو مدنظررکھتے ہوئے بھارت کی درونِ خانہ سیاست اور معاشرت کاجائزہ لیں تو معاملہ بالکل اس کے برعکس نظرآتاہے۔ہندوازم بنیادی طورپر ایک مغرور اورعداوتوں اور نفرتوں سے بھرپور ایک سوچ اور نظریے کانام ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ ہندوستان میں گہری سماجی تقسیم پر مبنی مختلف قومیں آبادہیں۔ دلت بھی ہندوستان میں بسنے والی اقوام میں سے ایک ہیں ۔

ہندو معاشرے میں دلت قوم سے تعلق رکھنے والے نیچ ذات جبکہ برہمن ہندو ذات کے اعتبار سے اعلیٰ سمجھے جاتے ہیں۔ برہمن ہندو دلتوں کو اس قدر نیچ اور برا تصور کرتے ہیں کہ دلتوں کو چھونا بھی ان کو گراں گزرتا ہے۔برہمنوں کے اس َمتکبرانہ اور غیر اخلاقی عمل کی وجہ سے ہندو معاشرے میں ایک نہ ختم ہونے والی عداوت گھر کر چکی ہے۔یہ ان بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے کہ جن کی بناپر بھارت میں بہت سی علیحدگی کی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔اگر بھارت کے اندر سرگرم تحریکوں کاجائزہ لیا جائے تومعلوم ہوتاہے کہ وہاں ایک دونہیں بلکہ متعدد علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ بھارت میں 67 چھوٹی بڑی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ صرف آسام میں 34 آزادی کی تحریکیں سرگرم ہیں اور تحریکوں میں شامل لوگ اپنے اخلاقی اور بنیادی حقِ آزادی کے حصول کے لیے کسی بھی حدتک جانے کوتیارہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ تحریکیں اس قدر مستحکم اورمنظم ہیں کہ بھارت سرکار ان کے سامنے تقریباً بے بس دکھائی دیتی ہے۔

عموماً یہ خیال کیاجاتاہے کہ بھارت کے زیر انتظام ریاستوں میں کشمیر ہی ایک ایسی ریاست ہے کہ جہاں لوگ بھارت سے علیحدگی کامطالبہ کر رہے ہیں اور باقاعدہ تحریک چل رہی ہے کہ کشمیری لوگ بھارت سے آزادی پا کر پاکستان کے ساتھ ملناچاہتے ہیں لیکن یہ خیال درست نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تقریباً پورے بھارت میں ہی آزادی کے حصول کے آوازے بلند ہو رہے ہیں۔ کشمیرکے علاوہ تامل ناڈو، آسام، ناگالینڈ، تری پورہ، منی پورہ، میزورام، اروناچل پردیش، مغربی بنگال، اڑیسہ، مہاراشٹر اور مشرقی پنجاب (خالصتان) سمیت کئی علاقوں میں علیحدگی کی مضبوط تحریکیں زوروں پر ہیں۔اس کے علاوہ دلت برادری بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اورظلم و ستم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے،دلت اس وقت چالیس کروڑ کی تعداد میں ہیں اور یہ تعداد معمولی نہیں ۔

ہندوستان میں اس وقت تحریک آزادی جموں کشمیر کے بعد دوسری بڑی علیحدگی پسند تحریک خالصتان کے مطالبے کی ہے۔ 1984ء کے واقعہ کے بعدبھارتی پنجاب کے سکھوں نے جو علیحدگی کے لیے جدوجہد شروع کی ،وہ ابھی تک جاری ہے۔ خالصتان کی تحریک بھارت کے لیے راکھ میں چھپی اس چنگاری کی طرح ہے جو کسی لمحے بھی آگ ہو کر راکھ کر دے۔خالصتان کی تحریک لمبے عرصے تک چلنے والی دوسری تحریک ہے۔یہ تحریک بھی بنیادی طورپر سکھوں پر ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کے بعد شروع ہوئی تھی اور بے شمار تنظیموں کا وجود عمل میں آیا اور وہ خالصتان کے لیے کام کررہی ہیں جن میں ببر خالصہ، خالصتان کمانڈو فورس، لبریشن فورس ، خالصتان گوریلا فورس ،خالصتان لبریشن فرنٹ، شہید خالصہ فورس،خالصتان گوریلا فورس اور خالصتان نیشنل آرمی سرگرم گروپس ہیں۔ سکھ طلبا بھی خالصتان کی علیحدگی کی تحریک میں شامل ہیں۔ مختلف سکھ طلبا تنظیمیں خالصتان کے حصول کے لیے جدوجہد کررہی ہیں جس میں آل انڈیا سکھ سٹوڈنٹس فیڈریشن پیش پیش ہے۔

مودی سرکارکی جارحانہ پالیسیوں کے تحت پیدا ہونے والی نفرت اور عداوت کی بنیاد دہلی حکومت سے بغاوت کاسلسلہ صرف کشمیراورمشرقی پنجاب(خالصتان) تک ہی ختم نہیں ہوجاتابلکہ ناگالینڈ کے عوام بھی بھارت سے علیحدگی کے لیے میدان عمل میں اترچکے ہیں ۔ایک بھارتی تحقیقاتی ادارے کے مطابق”ناگالینڈ”کے ناگاباغیوں اور نکسل باڑیوں کے ہاتھوں گزشتہ4سال میں بھارتی فورسز کے900سے زائد اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں اور دوسری طرف اگرآسام کی بات کریں تو آسام علیحدگی کی تحریکوں کاگڑھ سمجھاجاتا ہے۔ آسام میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ ،نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ،کے ماتاپورلبریشن آرگنائزیشن ،برچھاکمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا، مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا،حرکت المجاہدین ،حرکت الجہاد ،گورکھا ٹائیگرفورس اور پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ سرگرم عمل ہیں۔

اس کے بعدآسام کی بغل میں موجود ریاست منی پور میں بسنے والے بھی بھارت سے علیحدگی کے متمنی ہیں۔ پیپلز لبریشن آرمی،منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائنارٹی فرنٹ،کوکی نیشنل آرمی،کوکی ڈیفنس فورس یہ وہ تنظیمیں ہیں جو ریاست منی پور میں بھارت سے علیحدگی کے لیے کوشاں ہیں اور جبکہ منی پور کی ہمسایہ ریاست تری پورہ میں بھی دہلی حکومت سے ناراضگی کی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔تری پورہ میں بھی متعدد علیحدگی پسند گروہ سرگرم ہیں جن میں آل تری پورہ ٹائیگرفورس، تری پوری مکتی کمانڈوز، بنگالی رجمنٹ اور تری پورہ آرمڈ ٹرائیبل فورس قابل ذکرہیں۔اگرریاست میزورام کی صورتحال کاجائزہ لیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ وہاں کے عوام بھی دہلی حکومت سے خفاہیں اور بھارت سے علیحدگی چاہتے ہیں۔میزورام میں بھی پروفیشنل لبریشن فرنٹ سمیت بہت سی علیحدگی پسند تنظیمیں بھارت سے حصولِ علیحدگی کے لیے کوشاں ہیں۔

بھارت میں جاری یہ علیحدگی کی خواہاں تحریکیں اس کے لیے دردِ سربنی ہوئی ہیں ۔مودی سرکار نے بھارت کے اندر سے اٹھنے والی تحریکوں کو دبانے کے لیے شمشیر کا خوب استعمال کیا۔ حقوق کے مطالبے کے جرم کی پاداش میں انہیں خوب سزا دی ۔ اگر صرف کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کاجائزہ لیں تو بھارت نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بزورِ شمشیر دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ انہیں بے دردی سے قتل بھی کیا اور بدنامِ زمانہ پیلٹ گنوں کے دہانے کشمیریوں پر کھول دیے جس سے ان کی آنکھیں ضائع ہو گئیں ، جسم چھلنی ہو گئے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے اور بھارت سے علیحدگی کے علاوہ کوئی بھی سکیم قبول کرنے کو تیار نہیں۔علیحدگی پسندوں کی یہ تحریکیں بھارت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔

بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا” 1947ء میں بھی بھارت کومذہبی بنیادوں پر تقسیم کیاگیا تھااور آج تک ہم نے اس تقسیم کو قبول نہیں کیا اور بھارت کو ایک مرتبہ پھر مذہبی بنیادوں پرتقسیم نہیں کیا جا سکتاہے،اور اگر پاکستان نے بھارت میں دہشت گردی جاری رکھی تو پاکستان دس ٹکڑوں میں تقسیم ہوگا”۔۔لیکن بھارت میں جاری علیحدگی پسندتحریکوں کی صورتحال نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ محض ایک بیان ہی تھا لیکن اگر بھارتی وزیرداخلہ کے مذکورہ بالابیان پرمزید بات کی جائے تویہ سمجھ آتی ہے کہ وہ ان علیحدگی پسندتحریکوں کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ بھارت نے کچھ عرصہ قبل پاکستان میں بھی بالکل اسی قسم کی شورشوں کو ہوا دے کر پاکستان کوتوڑنے کی کوشش کی تھی لیکن بھارت اب خود کی لگائی آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آچکاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر اس ساری صورتحال کاتقسیم برصغیر سے پہلے کا موازنہ کریں تویہ اس سے بہت ملتی جلتی ہے ۔اس وقت بھی ہندوقابض انگریزوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھایاکرتے تھے لیکن اس کے بعد جب مسلمانوں نے نظریہ پاکستان”لاالٰہ الااللہ” کی بنیاد پر تحریک چلائی تو تقسیم ہند کے نتیجے میں اللہ نے مسلمانوں کوملک پاکستان دیا۔آج بھی کشمیر،حیدرآباد، گورداسپور اور مناوادر کے علاوہ کئی ریاستوں میں مسلمانوں پر ظلم وستم ہے اور مسلمان بھی اللہ کی تائید و نصرت کے ساتھ اسی نظریے کی بنیاد پرڈٹے ہوئے ہیں۔ مستقبل میں تاریخ پھر سے اپنے آپ کو دہرائے گی اور بھارت ماتا ایک نہیں کئی پاکستان جنے گی۔ہندوستان کے مسلمان اپنی آزاد ریاستیں قائم کریں،بھارتی ترنگا زمین بوس ہوجائے گا، ہندو پلید خوار ہو جائے گا۔ان شاء اللہ

Facebook Comments

Abdullah Qamar
Political Writer-Speaker-SM activist-Blogger-Traveler-Student of Islamic Studies(Eng) at IOU-Interested in International Political and strategic issues.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply