برف سے گرمی – اِگلو۔۔۔۔وہارا امباکر

ہزاروں سال سے انسان اور اس سے کہیں پہلے سے پودے اور دوسرے جانور اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لئے آسمان سے گری برف استعمال کر رہے ہیں جو عجیب سے بات ہے کیونکہ برف تو ٹھنڈی ہوتی ہے۔ ہمیں یہ تو نہیں پتہ کہ کس نے پہلا اِگلو بنایا لیکن اگر ٹھیک سائز ہو اور ٹھیک فزکس تو برف سے بنی یہ عمارت ہمیں سردی سے محفوظ رکھتی ہے۔ کیسے؟

آرکٹک سرکل کے قریب کی جمی ہوئے برفانی سطح زمین پر ہمارے رہنے کے لئے کوئی بہت اچھی جگہ نہیں لیکن انیوٹ یہاں پر پچھلے پانچ ہزار برس سے رہ رہے ہیں۔ سردیوں میں درجہ حرارت منفی پچاس ڈگری سینٹی گریڈ بھی ہو جاتا ہے۔ اس قدر سردی میں رہنے کے لئے پناہ گاہ چاہیۓ۔ یہاں جنگل یا درخت تو نہیں ہیں۔ خانہ بدوش شکاریوں نے یہاں پر اپنے لئے بندوبست آسمان سے گرتی برف سے کر لیا۔ اسکیمو کی زبانوں میں برف کے لئے پچاس الگ الفاظ ہیں۔ مثلا، ایکلوکوق آہستگی سے گرتی نرم برف ہے۔ پیگنارٹوق وہ برف ہے جس میں گاڑی کھینچنا آسان ہو۔ میٹسعاروٹی گیلی برف ہے۔ پوکاک وہ برف ہے جو پاؤڈر کی شکل میں ہو۔ کونسی والی برف کو اگلو کے لئے استعمال کیا جائے، اس کو پہچاننے کا فرق ایک آرام سے رہنے والے اسکیمو اور اور ایک جمے ہوئے اسکیمو کا ہے۔

اس کے لئے پہلے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں سردی لگنے کا مطلب کیا ہے۔ سردی تو کوئی چیز ہے نہیں ہی جو ہمارے اندر داخل ہو۔ گرمی ہمارے جسم سے باہر نکلتی ہے جس سے ہم ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں۔ جتنی گرمی نکلے گی، اتنی سردی لگے گی۔ گرمی کی یہ تجارت تین طریقے سے ہے۔ کنڈکشن، کنوکشن، اور ریڈی ایشن اور ان تینوں کا تعلق اِگلو سے ہے۔ اس کے اندر بیٹھا شخص اپنے جسم سے حرارت ریڈی ایٹ کرتا ہے۔ یہ حرارت اس کے اگلو میں کنوکشن کے ذریعے حرکت کرتی ہے اور دیوراوں سے کنڈکشن کے ذریعے باہر نکل جاتی ہے۔ یہی ہمارے اپنے گھروں میں ہوتا ہے۔ کچھ جانور چربی سے اپنی حرارت کو باہر جانے سے روکتے ہیں، کچھ ہوا کو اپنے جسم کے اوپر روک کر۔ اودبلاؤ کی فر انسانی بالوں سے ہزار گنا کثیف ہے۔ اس کے نوکیلے بال ہوا کے مالیکیول پھنسا لیتے ہیں جس سے یہ حرارت کو برقرار رکھتا ہے۔ برف کے گالے بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہیں۔

تازہ اور پاؤڈر والی برف 95 فیصد تک ہوا کو پھنسا سکتی ہے۔ اس سے یہ بہت عمدہ انسولیٹر بن جاتی ہے لیکن یہ اتنی کثیف نہیں کہ اس سے کچھ بنایا جا سکے۔ اس کے برعکس سخت برف ہوا کو روک سکتی ہے لیکن بہت بھاری ہے۔ ایک کیوبک میٹر برف ایک ٹن کی۔ انیوٹ شکاریوں نے اس کے درمیان کی چیز پکڑی۔ اچھی اِگلو برف کا راز یہ ہے۔ روایتی اگلو کے بلاک کو ڈھالا نہیں جاتا بلکہ زمین سے کاٹا جاتا ہے۔ زمین کی سطح کی برف جو نئی جمی ہو، اتنی کثیف ہے کہ اس سے کچھ بنایا جا سکے لیکن ابھی اس میں اتنی ہوا ہے کہ ہلکی بھی ہے اور اچھی انسولیٹر بھی۔

ہمیشہ کی طرح، جانوروں نے اس کا انسانوں سے پہلے پتہ لگا لیا تھا۔ پولر بئیر، برفانی گلہری, یہاں تک کہ گراؤس جیسے پرندے بھی برف میں سرنگ بنا کر اپنے آپ کو اسی طریقے سے گرم رکھتے ہیں۔ اس سے بھی پہلے پودوں نے برف میں ٹھیک جگہ پر اپنے آپ کو چھپا کر جمنے سے بچ کر زندہ رہنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا تھا۔ گرم مہینوں میں مٹی میں سورج کی حرارت سے توانائی ذخیرہ ہو جاتی ہے۔ جس طرح ہمارے سر کے اوپر چھت ہے، ویسے ہی برف کا کور اس حرارت کو ضائع ہونے سے روک دیتا ہے۔ برف کا یہ کمبل اپنے نیچے پودوں کی جڑوں، تنے اور بیجوں میں برف کے کرسٹل بننے سے روک دیتا ہے۔

جمنے سے موت سے بچنا جانوروں نے لئے ایسا کرنے کے لئے ایک اچھی ترغیب ہے۔ ہمارے اپنے بڑے دماغ کی وجہ سے ان سے آگے بڑھ گئے اور اِگلو بنانے لگے۔ ان کی انجینیرنگ گرمی بھی رکھتے ہے اور اس گھر کو مستحکم بھی۔ اگر ایک اگلو کو نصف میں کاٹا جائے تو ایک شکل نظر آئے گی جسے کینٹنری کہا جاتا ہے۔ یہ ویسی شکل ہے جیسے زنجیر کو دونوں کناروں سے پکڑا جائے اور درمیان سے ڈھیلا چھوڑ دیا جائے۔ اس طرح کی شکل سے بنی محرات سے وزن اچھا تقسیم ہو جاتا ہے اور یہ گھر نہ جھکتا ہے اور نہ ٹوٹتا ہے۔ یہ شکل استحکام کے لحاظ سے بہترین قدرتی شکل ہے اور تعمیرات میں آج بھی کئی جگہ پر نظر آتی ہے۔

اندر سے یہ اِگلو مختلف لیول پر ہوتا ہے۔ گرم ہوا اوپر کو اٹھتی ہے اور سرد ہوا نیچے کو آتی ہے۔ داخلے والی جگہ پر گڑھا بنایا جاتا ہے اور بیٹھے والی جگہ کو اونچائی پر۔ سرد ہوا اس سے دور رہتی ہے۔ اس پر اضافہ یہ کہ جسم کی حرارت سے اگلو کی دیوار کا اندر والا حصہ پگھلتا ہے۔ پانی کی باریک سے تہہ جو اندر چپکی ہوتی ہے، اس سے اندر اور باہر کا بیرئیر مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔

اِگلو کے اندر کا الاؤ اندر بیٹھنے والا ہوتا ہیں۔ وقت کے ساتھ، اندر اور باہر کے درجہ حرارت میں 40 سے 60 ڈگری تک کا فرق پڑ جاتا ہے۔ اگر اندر زیادہ لوگ ہوں تو یہ فرق جلدی پڑ جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ویڈیو یہاں سے
https://youtu.be/1L7EI0vKVuU

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply