بین المسالک ہم آہنگی: قریب کا رقیب

جہاں مختلف مذاہب، سیاسی جماعتوں، مختلف اقوام، مختلف نسلوں، مختلف زبان والے لوگ رہتے ہوں، وہاں سماجی ہم آہنگی ایک نہایت اہم امر ہے۔ پُرامن بقائے باہمی، معاشی استحکام اور ترقی سماجی ہم آہنگی پر منحصر ہے۔ مذہبی و سماجی ہم آہنگی میں ایک بنیادی مشکل قریب کا رقیب ہے۔

بین المذاہب ہم آہنگی نسبتاً آسان کام ہے۔ اسی طرح بین الثقافتی یا بین الممالک افراد کے درمیان ہم ااہنگی بہت آسان کام ہے۔ جبکہ بین المسالک ہم آہنگی اس سے زیادہ مشکل کام ہے۔ ایک مسلک کے مختلف ذیلی مسالک میں ہم آہنگی اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ ایک ہی ذیلی مسلک کی مختلف جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ اسی طرح ایک ہی ثقافت و روایت کے افراد کے درمیان ہم آہنگی نسبتاً مشکل امر ہے۔
مثالوں کی مدد سے سمجھیے!
مسلم، مسیحی، ہندو اور سکھ مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان ہم آہنگی اور بقائے باہمی آسان کام ہے۔ جبکہ شیعہ سنی ہم آہنگی مشکل کام ہے۔ اہل سنت اور اہل حدیث میں ہم آہنگی اس سے زیادہ مشکل ہے۔ اہل سنت کی چھتری میں بریلوی اور دیوبندی مکاتب کے درمیان ہم آہنگی اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ دیوبندیوں میں حیاتی اور مماتی کے درمیان ہم آہنگی، بریلویوں میں تفضیلیوں اور غیر تفضیلیوں، شیعوں میں غالیوں اور عام شیعوں کے درمیان ہم آہنگی اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ اسی طرح مختلف بریلوی مذہبی اداروں اور جماعتوں سے وابستہ بریلوی کارکنان کے درمیان ، شیعہ اداروں اور جماعتوں کے کارکنان ، دیوبندی اداروں اور جماعتوں سے وابستہ دیوبندی کارکنان میں باہمی رقابت اور تناو ¿ نسبتاً زیادہ شدید ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح مسیحی، ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے اپنے اپنے مسالک کے درمیان ہم آہنگی زیادہ مشکل کام ہے۔

آپ اپنے ہی خاندان میں بہت سے رشتہ داروں کے درمیان، اپنی ہی جماعت میں مختلف کارکنوں کے درمیان، اپنے ہی مسلک کی مختلف جماعتوں کے سربراہان کے درمیان، اپنے ہی مکتب کے اداروں کے ذمہ داران کے درمیان برسوں سے ٹوٹے تعلقات کا مشاہدہ اسی تناظر میں کر سکتے ہیں جاگیرداروں کی باہمی رقابت، پشتونوں کی باہمی لڑائی، عربوں کی آپس کی جنگیں طولانی، پُرتشدد اور پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ اسی لیے بھائیوں کی باہمی لڑائی، خاندانوں کی اندرونی کشمکش، سیاسی جماعتوں کے داخلی تنازعات،ملکوں میں خانہ جنگی، مذہبی جماعتوں کے داخلی اختلافات داخلی شناخت کا تناو فادات کی کھینچا تانی کے سبب بیرونی تنازعات سے زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے میری شناخت اور مفاد کو قریب کے رقیب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ مل جل کے رہنا میرے لیے زیادہ مشکل ہے جبکہ د ±ور کے رقیب سے میرے مفادات کو زیادہ خطرہ نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ اختلافات بھی کم ہوتے ہیں اور اگر ہو بھی جائیں تو تناو ¿ میں شدت نہیں ہوتی ہے۔ میری جائیداد پر میرا ہی بھائی قابض ہو سکتا ہے، میری مسجد مجھ سے میرے مسلک والا ہی چھین سکتا ہے، میرا منبر میرے میرے مکتب کا بندہ ہی مجھ سے لے سکتا ہے، میرا عہدہ میرے ہی ادارے کے کسی کارکن کی نظر میں ہو سکتا ہے۔ میری ساکھ کے لیے خطرات میرے ہی حلقہ احباب کی طرف سے لاحق ہو سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مذکورہ بالا تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے سماجی و مذہبی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ معاملات کو بڑے تناظر میں زیر غور لانے کے ساتھ چھوٹے اور قریبی پہلووں کو بھی زیر غور لائے جائیں اور ہم آہنگی کے کام کا آغاز اپنے ادارے، جماعت، مسلک میں موجود کشیدگیوں اور اختلافات کی شدت کو کم کرتے ہوئے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس دائرہ کار کو دیگر اداروں، جماعتوں اور مسالک تک پھیلایا جائے۔ اس طرح ہم آہنگی کا عمل زیادہ مستحکم اور ثمر آور ہوگا۔

Facebook Comments

محمد حسین
محمد حسین، مکالمہ پر یقین رکھ کر امن کی راہ ہموار کرنے میں کوشاں ایک نوجوان ہیں اور اب تک مختلف ممالک میں کئی ہزار مذہبی و سماجی قائدین، اساتذہ اور طلبہ کو امن، مکالمہ، ہم آہنگی اور تعلیم کے موضوعات پر ٹریننگ دے چکے ہیں۔ ایک درجن سے زائد نصابی و تربیتی اور تخلیقی کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کرنے کے علاوہ اندرون و بیرون پاکستان سینکڑوں تربیتی، تعلیمی اور تحقیقی اجلاسوں میں بطور سہولت کار یا مقالہ نگار شرکت کر چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply