وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

لیں جناب خدا خدا کر کے انتظار ختم ہوا اور ساتھ ہی پانامہ کا ہنگامہ بھی۔ ایک طرف تو جشن کا سماں ہے، مٹھائیاں بٹ رہی ہیں، آتشبازی کی جا رہی ہے، کہیں بھنگڑے ہیں، تو کہیں شکرانے کے نوافل ادا کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب حیرت اور صدمے کی کیفیت طاری ہے۔ ایک شیر جس نے 35 سال سیاست کے جنگل پر راج کیا اسے ایک بّلے کے وار نے چاروں شانے چت کر دیا، تو اس سے بڑا دھچکا کیا ہو گا۔ سناٹا چھا گیا ہو جیسے ہر سو۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے ن لیگ کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ گو کہ ن لیگ کو اندازہ تھا کہ جو پرچہ حل کیا ہے، نتیجہ اس حساب سے ہی آئے گا۔ لیکن اس کے باوجود سلام ہے ان کی ہمت نما ڈھٹائی کو جس پر ن لیگی وزراء اور رہنما ڈٹے رہے کہ الزام تو بتائیں ہم نے کیا کیا ہے۔

اب اسے ان کی معصومیت کہوں یا گردانِ “میں نہ مانوں”۔ بہرحال، حضورِ والا اس وقت اگر آپ ادھر اُدھر کی سن لیتے اور اخلاقی طور پر مستعفی ہو جاتے تو آج اس طرح کرسی چھینے جانے کی تکلیف نہ ہوتی اور نہ ہی تاحیات نا اہل ہونے کا تاج آپ کے سر پر سجایا جاتا۔”خود تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے”، بچوں اور داماد کو بھی نا اہل ہونا پڑا اور لگے ہاتھوں ڈار صاحب بھی رگڑے میں آ گئے۔ اور جن جن کے اقامے ملے وہ بھی اس نا اہل ہونے والے قافلے میں شامل ہو گئے۔۔۔اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہونے کے لئے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی، ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔۔۔۔۔جو کہ اپوزیشن منا رہی ہے۔ خان صاحب کے بیان کے مطابق یہ احتساب یہاں ختم نہیں ہو گا بلکہ ہر چور اور ڈاکو کو پکڑا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکلز 62/63، جو کہ جمہوریت کے لئے 295سی سے کم نہیں، اب شاید کوئی نہ بچے۔ سب کے چہرے سامنے آئیں گے جو کرپشن اور جھوٹ کا سہارا لے کر اجلے لباسوں میں اپنا داغدار کردار چھپائے ہوئے ہیں۔ اقتدار کی جنگ میں میڈیا نے بھی اپنا “اہم کردار” ادا کیا۔ عوام کو پانامہ کا ہنگامہ سنوا سنوا کر ذہنی طور پر مفلوج کر دیا، اس کا حساب کون دے گا؟۔۔۔۔جمہوریت کا نعرہ لگانے والوں نے آج جمہوریت کو شرمندہ کر دیا۔ نہ صرف سابق وزیرِ اعظم صاحب بلکہ ان کے وزراء نے اور اپوزیشن نے بھی۔ خان صاحب، آپ نے کہا کہ جمہوریت کی جیت ہوئی تو پھر جمہوریت تو شاید آپ کے فلسفے کے مطابق کٹھ پتلی ناچ کا نام ہوا۔ ڈوریں کسی کے ہاتھ میں اور شو کسی اور کے سامنے۔ پر کیا یہ واقعی جمہوریت کی جیت ہے؟

نواز شریف صاحب خواہ کتنے ہی کرپٹ ہوں ان کو عوام نے ووٹ کے ذریعے تین بار وزیرِ اعظم چنا۔ تو ان کے اقتدار کا ذوال بھی عوام کے ووٹ سے ہی ہونا چاہیے تھا۔ یہاں بہت ضروری تھا کہ عوام میں اس شعور کو اجاگر کیا جاتا کہ وہ اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ کسی حد تک میڈیا نے عوام کی آنکھیں کھول تو دی ہیں لیکن اس کے باوجود ایک بڑے مینڈیٹ سے آنے والے وزیرِ اعظم کو ایک ہی جھٹکے سے تا حیات نا اہل کرنا کون سی جمہوریت ہے؟ کہیں اس کے پیچھے کوئی اور عوامل تو کارفرما نہیں تھے؟ جیسا کہ نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ میرے سینے میں کچھ راز دفن ہیں جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں پر پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ تو صاحب درخواست یہ ہے کہ اب تو جو ہونا تھا، ہو چکا۔ آپ بھی اپنا دل ہلکا کریں اور ان رازوں سے پردہ اٹھا دیں تاکہ اس سارے ڈرامے کا اصل مقصد سمجھ میں آ سکے۔

اب آپ کے پاس سوچنے کے لئے بہت وقت ہے۔ نئے وزیرِ اعظم کو چننے سے پہلے مشاورت بہت اہم ہے۔ یقیناً آپ کی نظر اپنی زوجہ محترمہ کے علاوہ اپنے بھائی پر بھی ہے اور لگتا ہے قرعہ فال شہباز شریف صاحب کے نام نکلے گا جن کو این اے 120 سے الیکشن کے ذریعے جتوایا جائے گا اور ایک بار پھر شریف فیملی ملک کی حکمران بنے گی۔ بچ جانے والے وزراء ابھی تک اپنی وفاداریاں نبھا رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق صاحب کا بیان ہی دیکھ لیں۔ خواجہ صاحب پہلے ہی جوش کی بجائے ہوش سے کام لے لیتے تو آج ایسا نہ ہوتا۔ بڑے بڑے جھوٹ بولنے کی بجائے سچ بول دیتے تو حالات اور عوام کی ہمدردیاں ن لیگ کے ساتھ ہوتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے جمہوری اداروں کی بالا دستی پر بہت سے سوالیہ نشان چھوڑے ہیں۔ بلاشبہ طاقت ور کا احتساب ہونا چاہیے لیکن ایک احتسابی عمل کسی ایک شخص یا سیاسی جماعت تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔پسِ پردہ کیا سین ہے، اس کھیل کی ڈوریاں کس کے ہاتھوں میں ہیں، کس کو اس ساری صورتحال سے فائدہ حاصل ہو گا، کون ہے جو اس ملک کو کسی سکول یا کالج کی کینٹین کی طرح ٹھیکے پر حاصل کرنا چاہتا ہے جہاں وہ اپنی مرضی سے اپنا چورن بیچ سکے؟ تو یقیناً وہی ہے جس کے پاس طاقت ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

Facebook Comments

مہر ارم بتول
وومنز سٹڈیز اور انتھرپالوجی میں ڈگری حاصل کی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر قلمکاری کے ذریعے ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جڑے ایشوز پر روشنی ڈالنے کی سعی کرتی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply