نااہلی فیصلہ اور انصاف پر سوال

سپریم کورٹ نے اٹھائیس جولائی کو ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوے نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے نااہل قرار دے دیا اور شریف فیملی کے خلاف نیب مقدمات درج کرنے کا حکم دے دیا۔ جب یہ مقدمہ شروع ہوا تو معزز جج صاحبان کا یہ بیان سامنے آیا کہ وہ ایک “تاریخی فیصلہ” دیں گے، شاید کل کا فیصلہ “تاریخ میں امر ہونے کی اسی خواہش” کا نتیجہ تھا۔
مجھ جیسے شخص کیلیے یہ ایک روحانی اذیت ہے کہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کروں۔ بطور ایک پاکستانی شہری اور سیاسیات کے طالب علم میں یقین رکھتا ہوں کہ شریف فیملی اعلی درجے کے کارپوریٹ فراڈ میں ملوث ہے اور جے آئی ٹی جیسی تفتیش کے بغیر اسے احتساب کے دائرے میں لانا ممکن نہیں تھا۔ تحریک انصاف کا ہمدرد ہونے کے ناطے میں عمران خان کو وزیراعظم دیکھنے کا بھی خواہش مند ہوں اور مجھے گذشتہ کل کے فیصلہ پر خوشی ہونی چاہیے۔ لیکن بطور وکیل، بطور ایک آفیسر آف کورٹ میرا یہ بھی فرض ہے کہ میں سچ بولوں اور فیصلے کو قانونی نظر سے دیکھوں۔ اسی وجہ سے کچھ سوالات ہیں جو تشنہ ہیں اور انکے جوابات سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اسکی تمام تشریحات فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ آئیے مل کر جائزہ لیں۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے بیس اپریل دو ہزار سترہ کو اپنے ایک فیصلے میں چیف جسٹس پاکستان سے جے آئی ٹی عمل درآمد بنچ بنانے کی درخواست کی۔ پانچ رکنی بنچ میں سے دو ججز نے پیش کردہ ثبوتوں کی روشنی میں وزیراعظم کو غیر دیانتدار تصور کیا۔ البتہ تین ججز نے جے آئی ٹی بنانے اور مزید ثبوت و شواہد کی فراہمی کا حکم دیا۔ مجھے یقین تھا کہ نواز شریف یا تو استعفی دے کر عزت بچائیں گے یا مالی کرپشن کی بنیاد پر نااہل۔ (حوالہ؛ بیس اپریل کے بعد میرا فوری مضمون)۔ جے آئی ٹی کی تمام تر کاروائی کے بعد سترہ سے اکیس جولائی تک تین جج صاحبان نے جے آئی ٹی رپورٹ ہر مکمل سماعت کی (اس دوران نتیجے کے متعلق مختلف شبہات بھی پیدا ہوے) اور گزشتہ کل فیصلہ سنایا گیا۔
تینوں ججز نے میسر کاروائی کے نتیجے میں حکم دیا کہ نواز شریف اور باقی مدعا علیہ اپنے معلوم زرائع آمدن سے زیادہ اثاثے رکھتے ہیں اور اسی لئیے پیرا چودہ میں نیب آرڈیننس کے تحت شریف فیملی اور اسحاق ڈار پر ریفرنسز قائم کرنے کا حکم دیا گیا۔ میرے خیال میں عدالت اس معاملے میں مکمل درست ہے اور موجود ثبوت کافی ہیں یہ طے کرنے کیلیے کہ شریف فیملی کے خلاف ٹرائل چلایا جائے اور انکو کارپوریٹ فراڈ کی سزا دی جائے۔ لیکن ایک سپریم کورٹ جج کا اس عمل کا نگران بننا قطعا غیر ضروری اور فیئر ٹرائل کے اصولوں کے خلاف ہو گا کیونکہ ماتحت عدالت آزادی سے فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نا ہو گی۔
پیرا پندرہ میں ججز نے وزیراعظم کو اس لئیے غیر دیانت دار قرار دیتے ہوے نااہل کر دیا کیونکہ انھوں نے اپنے الیکشن نامزدگی کاغذات میں “کیپیٹل ایف زی ای” کے چیئرمین ہونے اور اسکا تنخواہ دار ملازم ہونے کو ڈسکلوز نہیں کیا۔ میں، بطور قانون کے ایک طالب علم، اس پر شدید تحفظات رکھتا ہوں۔
عدالت نے خود یہ مانا کہ “روپا ایکٹ” اثاثوں کی کوئی واضح تعریف نہیں کرتا۔ اس صورت میں عدالت نے “بلیک لا ڈکشنری” کا سہارا لیا۔ بلیک لا ڈکشنری ایک قانونی ڈکشنری ہے جس میں قانونی اصلاحات کی تعریفیں دی گئی ہیں۔ پہلی حیرت تو یہ ہے کہ جب کوئی قانون یا ایکٹ واضح طور پر اثاثے کی تعریف نہیں کرتا، تو فقط ڈکشنری کی تعریف پر نااہلی جیسا سخت فیصلہ کتنا ضروری تھا؟ آئیے زرا اس تعریف پر بھی نظر ڈال لیں۔
بلیک لا ڈکشنری کے مطابق ” اثاثہ کیش، مشینری، زمین جائداد، کوئی “قابل وصول اکاونٹ”، ٹریڈ کاپی رائیٹ وغیرہ پر مشتمل ہے”۔ عدالت نے طے کیا کہ “گو وزیراعظم بطور چیئرمین کمپنی سے تنخواہ نہیں لے رہے تھے مگر یہ تنخواہ “account receivable ” ہے اور چونکہ ظاہر نہیں کی گئی، اس لئیے وزیراعظم اسے ظاہر نا کر کے بددیانتی کے مرتکب ہوے۔” اسکے بعد فیصلہ receivable کی تعریف کرتا ہے اور بزنس ڈکشنری کو بھی استعمال کرتے ہوے یہ طے کرتا ہے کہ وزیراعظم کی یہ نا لی جانے والی تنخواہ، اثاثہ ہی تصور ہو گی۔
آپ کو یہیں روکتے ہوے میں عرض کروں کہ بلیک لا ڈکشنری account receivable کی کیا تعریف کرتی ہے، اہم ہے۔ عدالت نے خود کہا کہ ” account receivable is is a claim against a debtor usually arising from sales or services rendered”. یعنی یہ ایک ایسی رقم ہے جو فروخت یا خدمات کے عیوض قابل وصول ہے”۔
میں نے زرا دائیں بائیں کچھ اور تعریفیں دیکھیں تو یہ سمجھا ہوں کہ receivable accounts دراصل ایک کمپنی کے کھاتے کیلیے مروج اصطلاح ہے جو قانونی طور پر ایک کمپنی یا فرم کی وائنڈنگ اپ یا insolvency کیلیے استعمال ہوتی ہے۔ جہاں کمپنی کے اثاثوں اور اسکی liabilities کا مکمل حساب رکھ کر کھاتہ داروں کے قانونی حقوق کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ اکاونٹنگ ڈکشنری کے مطابق accounts receivable دراصل وہ رقم ہے جو کمپنی کو کسی کمپنی کے باہر کے شخص سے وصول کرنا ہوتی ہے۔ کمپنی کے کھاتے میں accounts receivable دراصل ان انوائسز کو ظاہر کرتی ہیں جو کہ کمپنی کے کلائنٹس کو بھیجی جا چکی ہیں۔ افسوس کہ مجھے accounts receivable کی کوئی ایسی تعریف نہیں ملی جس میں ایک فرد کی ذاتی تنخواہ اس کا حصہ ہو۔
میں اپنے قارئین سے اس خشک پیرا کی معافی چاہتا ہوں۔ مگر یہ ضروری تھا اور اس کی روشنی میں میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ شاید عدالت نے accounts receivable, جو کہ ہر جگہ کمپنی یا فرم کے کھاتے کی اصطلاح پر برتے گئے ہیں، اسے غلط طور پر ایک فرد کی ایسی تنخواہ کیلیے برت دیا جو اس نے کبھی وصول نہیں کی، یا بقول اسکے وصولنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
مزید ازاں عدالت کی پیرا تیرہ اور پندرہ کی اپنی بحث سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ اثاثے کی جامع تعریف قانون میں موجود نہیں ہے(اسی لئیے تو قابل احترام عدالت کو ڈکشنری کھولنی پڑی)، یہ جامع تعریف ڈکشنری کھولے بغیر نا عدالت کو معلوم تھی اور نا ہی نواز شریف کے حامی و مخالف وکلا کو، ایسے میں یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ نواز شریف جیسے layman کو یہ تعریف معلوم ہو گی۔ چنانچہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ نواز شریف نے اسے غیر ضروری یا اثاثہ نا سمجھتے ہوے ڈیکلیئر نا کیا ہو۔
قارئین اکرام، قانون کا ایک اصول ہے کہ ہر شک کا فیصلہ ملزم کو جاتا ہے(تاکہ کسی صورت بھی بے گناہ کو سزا نا ہو)۔ اوپر کی بحث سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ “ملزم نواز شریف” شاید بددیانت کے بجائے لاپرواہ یا اتنا ہی لا علم ہو جتنا ڈکشنری کھولنے سے قبل معزز جج صاحبان تھے۔ مجھے حیرت ہے کہ ایک ایسا سیاسی کیس جس کے اثرات ملک گیر ہی نہیں، بین الاقوامی اہمیت کے تھے، اس میں ایسے شک کا فائدہ ملزم کو کیوں نا دیا گیا۔ کیا ایسے شک کی موجودگی میں نا اہلی جیسی کڑی سزا دینا واقعی انصاف کے معیار پر پورا اترتا ہے؟ مجھے یہ خوف ہے کہ اب سپریم کورٹ کونسلر سے لے کر اگلے وزیراعظم تک کئی کیسز سنے گی جس میں مدعا علیہ کسی غلط فہمی یا بھول یا کسی بھی وجہ سے نامزدگی کاغذات میں یہ بتانا بھول گیا کہ اس نے اپنے چھوٹے بھائی سے بائیس ہزار تین سو روپے لینے ہیں، گو لئیے نہیں، مگر وہ اس کیس کی رو سے اثاثہ تھے۔
سیاسی معاملات کو عدالت نہیں سیاست سے ہی حل ہونا چاہیے۔ وزیراعظم اور انکی فیملی کی کرپشن کیلیے بہترین طریقہ اپنایا گیا اور نیب کیسز درج کرنے کا حکم دیا گیا۔ شاید بہتر ہوتا اگر عدالت اپنے فیصلے میں ایک “مشورہ” دے دیتی کہ نیب کیسز کی موجودگی میں وزیراعظم کا مستعفی ہونا بہتر اقدام ہو گا۔ ایسے “مشورے” سے نواز شریف اخلاقی اور سیاسی دباو کا شکار ہو کر شاید مستعفی ہو جاتے اور عدالت بھی اس الزام سے بچ جاتی کہ مقصد فقط نااہلی تھا خواہ وجہ کوئی کمزور قانونی وجہ ہی کیوں نا بنانا پڑے۔
آپ نے شاید دیکھا کہ میں نے تین ججز، جنھوں نے جے آئی ٹی کاروائی کو سنا، انکے علاوہ وہ دو ججز جو اس بنچ کا حصہ نا تھے، انکے صفحہ انیس سے پچیس پر فیصلے میں شریک ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کیونکہ یہ فیصلہ چونکہ “صدیوں یاد رکھنے” کیلیے ہے، اس لئیے ان دو ججز کا اس فیصلے میں شریک ہونا شاید انکی “تاریخی مجبوری” تھا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 10 تبصرے برائے تحریر ”نااہلی فیصلہ اور انصاف پر سوال

  1. عقل کی تقسیم کے وقت
    فیصلہ بالکل واضح اور دو ٹوک ہے ۔
    فیصلہ قانونی لحاظ سے بہت مضبوط بنیادوں پر قائم ہے ۔
    فیصلہ قانونی اصولوں اور نظائر کے عین مطابق ہے ۔
    تاہم قانونی اصولوں سے ناواقفیت کی بنا پر ، اور کچھ ذاتی صدمے کی وجہ سے ، ہمارے کئی دوستوں کو اس فیصلے کی سمجھ نہیں آرہی اور وہ طرح طرح کے سوالات اٹھارہے ہیں ۔ ہم ان میں سے چند اہم سوالات پر یہاں مختصر بحث کریں گے ۔
    ۔
    پہلا سوال : فیصلہ پانچ ججوں نے دیا ہے یا تین نے ؟
    اسی سوال کا ضمنی سوال یہ ہے کہ کیا پہلے دو ججوں نے اپنے فیصلے کو ری وزٹ کیا ہے ؟
    کل اپنے مضمون “سپریم کورٹ کا متوقع فیصلہ” میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ “تین ججوں کے سامنے “نیا کیس” نہیں تھا بلکہ پہلے والے کیس ہی کا تسلسل تھا ۔ اس لیے پٹیشنر بھی وہی تھے ، مدعا علیہ بھی وہی تھے ، تنقیح طلب قانونی مسائل بھی وہی تھے ، وکیل بھی وہی تھے اور جج بھی وہی تھے۔ یہاں تک کہ “کیس نمبر” بھی وہی تھے ۔ بات صرف اتنی تھی کہ دو ججز نے پہلے ہی مرحلے پر موجود شواہد کی بنا پر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا تھا جبکہ تین جج مزید تفتیش کے بعد فیصلہ دینا چاہتے تھے ۔ ”
    اب جب تفتیش کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ فیصلہ دے سکتے ہیں تو پہلے ان تین ججوں نے اپنا فیصلہ سنایا اور جب وہ بھی پہلے دو ججوں کی طرح میاں صاحب کی نااہلی پر متفق ہوگئے تو نااہلی کے بعد قانوناً مزید کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اس کے متعلق پانچ ججوں نے فیصلہ سنا دیا ۔
    پس آج دیے گئے فیصلے کے دو اجزا ہیں ۔ پہلا جزو ان تین ججوں کا فیصلہ ہے جنھوں نے 20 اپریل کو نااہلی کے متعلق فیصلہ مزید تفتیش پر معلق کردیا تھا ؛ دوسرا جزو نااہلی پر اتفاق کے بعد اس کے قانونی اثرات کے متعلق ہے جو پانچوں ججوں کا فیصلہ ہے ۔ فیصلے کے ان دو اجزا کو باہم مختلط کرنے سے ہی ہمارے دوستوں کو الجھنیں پیش آرہی ہیں ۔
    کل ہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ پہلے دو جج میاں صاحب کی نااہلی کے متعلق اپنے فیصلے کو ری وزٹ نہیں کرسکتے تھے کیونکہ انھوں نے پہلے ہی موجود شواہد کی بنیاد پر نااہلی کا فیصلہ دے دیا تھا ۔ ہم نے لکھا تھا :
    “انھوں نے بطورِ جج نہ ہی جے آئی ٹی کی رپورٹ پڑھی ہے ، نہ ہی اس کے حق میں یا اس کے خلاف دلائل سنے ہیں۔ وہ اس پوری کارروائی میں شریک ہی نہیں ہوئے ۔ اس لیے وہ اس کارروائی پر فیصلہ دینے کے مجاز ہی نہیں ہیں ۔ پس ان کا پرانا فیصلہ ہی برقرار رہے گا ۔ گویا اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دو جج نااہل قرار دے چکے ہیں اور باقی تین نے فیصلہ کرنا ہے اور ان تینوں میں سے کسی ایک نے بھی نااہلی کا فیصلہ دے دیا تو میاں صاحب نااہل ہوجائیں گے ۔”
    بعینہ یہی آج ہوا ۔والحمد للہ !
    ۔
    دوسرا سوال : کیا پانچوں ججوں نے ایک ہی بنیاد (ratio) پر نااہل قرار دیا ہے یا اس فیصلے کے لیے انھوں نے الگ بنیادیں ذکر کی ہیں ؟
    اس سوال کا ضمنی سوال یہ ہے کہ اگر بنیادیں الگ ہوں تو کیا اس سے فیصلے کے بطور قانونی نظیر (precedent)حیثیت پر کوئی اثر پڑتا ہے ؟
    اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پہلے دو ججوں نے 20 اپریل کو، جبکہ ابھی جے آئی ٹی وجود میں بھی نہیں آئی تھی ، میاں صاحب کو نااہل قرار دیا تھا اور اس نااہلی کی بنیادی وجہ یہ ذکر کی تھی کہ اپنے اثاثہ جات کے متعلق انھوں نے جو وضاحتیں مختلف مواقع پر پیش کیں وہ باہم متناقض ہیں اور ان کا جھوٹا ہونا ثابت ہوچکا ہے ۔
    باقی تین ججوں نے 20 اپریل کو کہا تھا کہ ابھی انھیں اس بات پر مکمل اطمینان نہیں ہے اور معاملے کی مزید تفتیش کرنا چاہتے ہیں ۔ بہ الفاظِ دیگر انھوں نے میاں صاحب کو ایک موقع مزید دیا کہ وہ اپنے اثاثہ جات کے متعلق صحیح وضاحت کرکے تناقضات دور کرلیں اور اپنی سچائی اور امانت ثابت کرلیں ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ اور اس کے بعد اس کے حق میں اور اس کے خلاف دیے گئے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد آج ان تین ججوں نے اپنا متفقہ فیصلہ سنا یا کہ میاں صاحب نے دبئی میں نوکری اور اس سے حاصل شدہ اثاثہ جات کو چھپاکر اور ان کے متعلق جھوٹا بیانِ حلفی دے کر ثابت کیا ہے کہ وہ 2013ء میں ہی صادق اور امین نہیں تھے ، گویا وہ روزِ اول سے ہی (ab initio) نااہل تھے !
    بظاہر یہاں ان تین ججوں کے فیصلے کی بنیاد پہلے دو ججوں کے فیصلے کی بنیاد سے مختلف ہے ، اور اگر ایسا ہو بھی تو اس سےفیصلے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ اصولِ قانون کے ماہرین جانتے ہیں کہ بسا اوقات ایک ہی نتیجے تک پہنچنے کے لیے قانونی بنیادیں الگ ہوسکتی ہیں۔ (کیا شافعی اور حنفی اصولوں میں اختلاف کے باوجود لاتعداد مقامات پر نتائج میں شافعی اور حنفی فقہاے کرام کا اتفاق نہیں ہوتا؟) پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں سے بھی اس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ امریکی اور برطانوی عدالتوں کے لیے بھی یہ انوکھی بات نہیں ہے۔ بین الاقوامی عدالتوں میں بھی ایسا ہوتا ہے ۔ بلکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ پانچ ججوں میں تین ایک نتیجے پر پہنچے ہوں ، دو دوسرے نتیجے پر اور پانچوں کے فیصلوں کی بنیادیں الگ ہوں۔ (جسے اس موضوع سے دلچسپی ہو وہ مشہور قانونی فلسفی لون فُلر کے بنائے ہوئے فرضی مقدمے “The Case of the Speluncean Explorers”پڑھ لیں جو 1949ء میں ہارورڈ لا ریویو میں شائع ہوا تھا اور اب انٹرنیٹ پر پبلک ڈومین میں مفت دستیاب ہے ۔ یہ کیس میں اکثر اصولِ قانون اور فلسفۂ قانون کے کورسز پڑھاتے ہوئے اپنے طلبہ کو دیتا ہوں ۔ )
    ایسے مواقع پر ، جبکہ پانچ ججوں نے پانچ مختلف بنیادوں پر فیصلہ دیا ہو ، عملاً ہوتا یہ ہے کہ جس نتیجے پر ججوں کا اتفاق ہو وہی نتیجہ نافذ ہوتا ہے ۔ البتہ بعد کے مقدمات کے لیے نظیر کا معاملہ مشتبہ ہوجاتا ہے کیونکہ ہر جج مختلف بنیاد ذکر کرتا ہے ۔ البتہ اگر تین جج ایک بنیاد ذکر کریں اور دو جج دوسری بنیاد تونظیر کے لیے اکثریتی فیصلے کی بنیاد کو دیکھا جاتا ہے ۔ مزید تفصیل کے خواہاں میرے استاد گرامی جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد منیر صاحب کی کتاب Precedent in Pakistani Legal System کا مطالعہ کریں جو ان کے پی ایچ ڈی مقالے پر مبنی ہے اور جسے آکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے شائع کیا ہے ۔
    زیرِ نظر مقدمے میں معاملہ اس سے کہیں زیادہ صاف اور آسان ہے کیونکہ یہاں 20 اپریل کے فیصلے اور 28 جولائی کے فیصلے کی بنیادوں میں صرف ظاہری اختلاف ہے ، حقیقی اختلاف نہیں ہے ۔ اس اجمال کی توضیح یہ ہے کہ پہلے دو ججوں نے بھی تب نااہل قرار دیا جب وہ اس پر مطمئن ہوئے کہ میاں صاحب نے اپنے اثاثوں کے متعلق جھوٹ بولا ہے اور تین جج آج اسی نتیجے پر پہنچے ہیں ۔ پس فیصلے کی متفقہ بنیاد “میاں صاحب کا اپنے اثاثوں کے متعلق جھوٹ بولنا” ہے ۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ فیصلہ بعد کے مقدمات کے لیے بہترین نظیر کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس کے ratio کے متعلق کوئی ابہام نہیں پایا جاتا ۔
    اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ معاملہ پاناما کا تھا لیکن نااہلی کے لیے اقامہ بنیاد بنادی گئی ، وہ غلط کہہ رہے ہیں ۔ معاملہ پاناما ہی سے معلوم ہونے والے اثاثہ جات کا ہے جن کے متعلق میاں صاحب نے کئی مواقع پر جھوٹ بولا ہے اور اقامہ (بمع نوکری کے ) اس جھوٹ کی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ! امید ہے کہ ہمارے سادہ لوح بھائی اب پاناما اور اقامہ کا تعلق جان چکے ہوں گے۔ مزید وضاحت آگے آرہی ہے ۔
    البتہ یہ بات ضرور یاد رکھیے کہ پہلے دو ججوں نے تو صرف اتنا کہا کہ میاں صاحب جھوٹے ہیں ؛ تین ججوں نے آج کہہ دیا کہ وہ تو 2013ء میں بھی جھوٹے تھے! (اب سوچیے کہ پہلے دو ججوں کے فیصلے کے بعد نون لیگی مٹھائیاں کیوں بانٹ رہے تھے !)

    تیسرا سوال : اگر کرپشن ثابت نہیں ہوئی تو نااہل کیوں کیا گیا ؟
    یہ سوال سادہ لوحی کی شان دار مثال ہے ۔ ہم ایک دفعہ پھر یہاں اپنے کل والے مضمون کا اقتباس پیش کرنا چاہیں گے :
    ” اس کیس میں بنیادی مسئلہ کیا ہے ؟ کیا پٹیشنرز کا مطالبہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ مدعا علیہان کو ان کے مبینہ جرائم کی سزا دے ؟ جس نے بھی کیس کا مطالعہ کیا ہے اور قانونی اصولوں سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے ۔ جرائم کی سزا متعلقہ فوج داری عدالتیں ہی دے سکتی ہیں ۔ دستور کی دفعہ 184 (3) کے تحت جب سپریم کورٹ میں کیس آتا ہے تو اس میں یہ مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی لیے افتخار محمد چودھری صاحب کے دور میں سپریم کورٹ اس دفعہ کے تحت سوموٹو ایکشن لینے کے بعد کیس متعلقہ محکمے ہی کی طرف بھیج دیتی تھی اور لوگ کہتے تھے کہ : کھودا پہاڑ ، نکلا چوہا ! البتہ ان سوموٹو کیسز سے یہ کیس اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کیا میاں صاحب قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل ہیں یا نہیں اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کیس میں قرار دیا ہے کہ اس کے پاس یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے اور مزید یہ کہ اس بنچ کے دو جج صاحبان پہلے ہی ایسا کرچکے ہیں ۔ ”
    اس طویل اقتباس کے لیے معذرت لیکن اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے دوست یا تو واقعی بہت سادہ ہیں یا کچھ زیادہ ہی صدمے کی کیفیت میں ہیں ۔ اسی وجہ سے وہ یہ حقیقت نظرانداز کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ فوج داری عدالت نہیں ہے جو کرپشن پر سزا دیتی بلکہ وہ دستوری عدالت ہے اور اس نے دستوری اصولوں کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ میاں صاحب پارلیمان کی رکنیت کے اہل ہیں یا نہیں ؟ ہمارے یہ دوست یہ بھی بھول رہے ہیں کہ کرپشن کے کیسز ختم نہیں ہوئے بلکہ ابھی تو اصل کیسز شروع ہورہے ہیں ۔ اس لیے میاں صاحب اور دیگر مدعا علیہان کو فروغ نسیم صاحب کے اس مشورے پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ انھیں فوراً سے پیش تر اپنی ضمانتیں کرانی چاہئیں!
    ایک دفعہ پھر صاف الفاظ میں سن لیجیے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ نہیں کرنا تھا کہ میاں صاحب کرپٹ ہیں یا نہیں اور نہ ہی انھیں نیب آرڈی نینس کے تحت کرپشن کی سزا سنانی تھی ۔ سپریم کورٹ کے سامنے سوال یہ تھا کہ میاں صاحب نااہل ہیں یا نہیں اور وہ ان نتیجے پر پہنچی کہ اپنے اثاثوں کے متعلق جھوٹ بول کر وہ نااہل ثابت ہوچکے ہیں ۔ ہاں۔ اس دوران میں ان کے اثاثوں کے متعلق جے آئی ٹی کی تفتیشی رپورٹ میں جو شواہد جمع کیے گئے اور پھر میاں صاحب اور ان کے اہلِ خانہ کے وکیلوں نے جو تفصیلی وضاحتیں دی ہیں ، انھوں نے نیب کے سامنے کرپشن کیسز کا فیصلہ انتہائی حد تک آسان کردیا ہے ! اسی لیے تو سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ نیب زیادہ سے زیادہ چھے ہفتوں میں ریفرنسز بنائے اور پھر عدالت زیادہ سے زیادہ چھے مہینوں میں ان کیسز کا فیصلہ سنائے ۔
    گماں مبر کہ بہ پایاں رسید کارِ مغاں
    ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است!
    ۔
    ڈاکٹر مشتاق صآحب۔۔

  2. The definition of receivables is explained as part of company claim for services rendered to a client that might be a company or a person. The receivables are established once a company generate an invoice for an amount receivable.
    BUT
    In this case the relation is between employee and the employer for the agreed salary that is always payable for the period of employment. There is no option for claimed or not claimed. It is always payable/ receivable as the case may be.
    That is the case so that income must had to be declared.

  3. اس فیصلے پر صرف یہ کہا جا سکتا ہے: اللہ اگر توفیق نہ سے انسان کےبس کا کام نہیں

  4. درست تجزیہ- یہ عدالتی قتل، ٹارگٹڈ مرڈر ہے، اور ہماری عدلیہ کو آلہ کار بنا کر استعمال کیا گیا ہے-

Leave a Reply