’’ہوتا تھا شب و روز تماشہ مرے آگے‘‘

ایک سال میڈیائی سرکس لگانے کے بعد بالآخر پانامہ کا ڈرامہ اختتام پذیر ہوا۔ مجھےیہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ میرے لئے ذاتی طور پر مایوسی کے لمحات ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئینی اور قانونی پہلوؤں پر مبنی میرا ایک تجزیہ غلط ثابت ہوا اور عدالت نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔ تاہم اس جزوی مایوسی میں ایک اطمینا ن بخش پہلو یہ ہے کہ اس سب تماشے میں کھیل اور اس کے مداری اچھی طرح ایکسپوز ہوگئے ہیں ۔ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ طاقت کا منبع اب بھی کم از کم پارلیما ن ہرگز نہیں اور یہ کہ کرپٹ سیاستدانوں کو ’’سبق سکھانے‘‘ کے فیصلے اب بھی کہیں اور تحریر کیے جاتے ہیں۔ معزز عدلیہ کو اپنافیصلہ سنائے اب کافی دیر ہوچکی ہے اور امید ہے کہ وقتی ابال اب کچھ ٹھنڈا ہو چلا ہوگا،شاید اب یار دوست جذبات سے ہٹ کر، حقائق کی روشنی میں اس فیصلے کا تجزیہ کرنے کی سعی فرما سکیں۔

عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد میں نے کسی فوری ردعمل کے بجائے تحریری فیصلے کا انتظار کرنے کو ترجیح دی تاکہ رد عمل کی بنیاد وہ اساس ہو جس پر عدالت عظمیٰ نے منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا ہے۔ خدشہ تھا کہ عدالت نے اپنی قائم کردہ جے آئی ٹی کی مرتب کردہ رپورٹ کی روشنی میں کسی کرپشن کے ثابت ہونے پر نواز شریف کو نااہل قراردیا ہوگا۔ تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کر کے پچیس کے پچیس صفحات کھنگال ڈالے، کہیں مگر نواز شریف پر اشاروں کنایوں میں بھی کسی بدعنوانی کا الزام ثابت نہیں کیا جاسکا۔ ایک گونہ اطمینان یہ تو ہواکہ شکر ہے سپریم کورٹ نے کم ازکم جے آئی ٹی کی ادھ پکی کھچڑی اور غیرمصدقہ دستاویزات کو بغیر جرح شہادت تسلیم کر کے کسی خطرناک عدالتی نظیر (پریسیڈنٹ) کی بنیاد نہیں رکھی۔ ملزم کے حق دفاع کو تسلیم کرتے ہوئے معاملہ انسداد بدعنوانی کی عدالت کو بھجوانے کا حکم صادر فرمایا جو کہ اس معاملے میں ٹرائل کورٹ کا کام کرے گی۔

اس سب سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ جے آئی ٹی کا جمع کردہ مواد نواز شریف پر بدعنوانی ثابت کرنے کے لئے قطعاً کافی نہیں تھا اس لئے یہ ٹوپی ٹرائل کورٹ کے سر چڑھا دی گئی ہے۔ نواز شریف اب بھی کسی قسم کی کرپشن کا مجرم نہیں ہے، کم ازکم یہ بات تو سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے سے بالکل واضح ہے۔ الزام اب بھی محض الزام ہی ہے، اور جب مقدمہ چلے گا تو بہت سی چیزوں کے بار ثبوت پھر مدعیان کے ذمہ ہوں گے۔ جو ’’شواہد‘‘ جے آئی ٹی رپورٹ میں پیش کیے گئے ہیں ان کا پہلے ہی کافی پوسٹ مارٹم کیا جاچکا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کیلبری فونٹ کا کوئی تذکرہ کیا ہے نہ2015 اور 2007 کی مہروں پر کوئی طنز، اور نہ ہی نوٹری پبلک کی اسٹیمپ کی سپیلنگ پر کوئی تبصرہ فرمایاہے۔ اس لئے ہمارے میڈیائی اور انصافی نابغوں کی شریف خاندان کو جعل سازی کے جرم میں سات سال جیل بھیجنے کی خواہش فی الحال حسرت ہی رہے گی کیونکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ مدعا علیہان میں سے کسی نے جعلی دستاویزات دے کر عدالت کو گمراہ کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو لازماً عدالت اس پر الگ سے مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیتی۔

اب چونکہ ’’شہادتیں‘‘ کسی کرپشن کوثابت کرنے کے لئے ناکافی تھیں، اور مدعاعلیہ کو مزید ’’سبق سکھانے‘‘ کے لئے معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا،مگر اس کے لئے نااہلی کے لئے جے آئی ٹی کے جمع شدہ مواد کا سہارا نہیں لیا جاسکتا تھا۔ ظاہر ہے ، جب کرپشن ابھی ثابت ہی نہیں ہوسکی تو اس کی بنیاد پر کسی کو نااہل کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔اگر 7.5 ماہ بعد ٹرائل کورٹ شریف خاندان کو کرپشن کے الزام سےبری کر دیتی ہے تو پھر نااہلی کا کیا جواز رہ جاتا۔ مگر ارباب اختیار جو ملک کو ’’کرپٹ سیاستدانوں‘‘ سے چھٹکارا دلانے کی قسم کھائےبیٹھے ہیں ان کو مائنس نواز شریف کوئی حل بھلا کب قابل قبول ہوسکتا تھا۔ سو اس مسئلے کے حل کے لئے بہت دور کی کوڑی لائی گئی۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کے لئے نہات دلچسپ اساس تیار کی گئی۔ جے آئی ٹی نے اپنے تئیں ایک بہت بڑا تیر یہ مارا تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم کی ’’ملکیت‘‘ میں ایک آف شور کمپنی کا ’’سراغ‘‘ لگا لیا تھا۔ جب جوہریوں نے ’’ہیروں‘‘ کی پرکھ کی تو پتہ چلا کہ وہ کمپنی آفشور تھی نہ ہی وزیر اعظم کی ملکیت میں، اور نہ ہی پوشیدہ۔

عدالت میں یہ بات ثابت کر دی گئی کہ کمپنی نواز شریف کے بیٹے کی تھی، اور وزیر اعظم کو اس میں رسمی عہدہ محض متحدہ عرب امارات کی ویزہ آسانیوں کے لئے دیا گیا تھا۔ عدالتی فیصلے سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سے پہلے یا بعد میں، کبھی اس کمپنی سے کوئی مالی منفعت نہیں اٹھائی۔ ایسا میں خود عدالتی فیصلے میں تحریر کی گئی نااہلی کی دلچسپ، مگر کمزور وجوہات کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ وزیر اعظم کے مذکورہ کمپنی پر اپنی تنخواہ کے ضمن میں کچھ واجبات تھے، جنھیں انہوں نے2013 کے انتخابات کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی میں بطور اثاثہ جات ظاہر نہیں کیا! چونکہ اس سے قبل نواز شریف کے وکیل نے سپریم کورٹ کو جمع کرائے گئے تحریری جواب میں وزیر اعظم پر عہدہ چھپانے کے الزام کی دستاویزی بنیادوں پر تردید کردی تھی اور ثابت کردیا تھا کہ نواز شریف نے 2013 میں اپنا اقامہ اور عہدہ الیکشن کمیشن کو ظاہر کردیا تھا اس لئے نااہلی کے لئے یہ بنیاد بھی ختم ہوگئی تھی۔

اناؤں کی تسکین مگر پھر بھی ضروری تھی اس لئے لازم تھا کہ کہیں سے کوئی کوڑی لائی جائے جو کرپشن کے خلاف اس ’’جہاد‘‘ کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔ اس کا حل اس صورت میں نکالاگیا جو اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ یہ ایک خالصتاً تکنیکی پوائنٹ ہے، اور یقیناً یہ دور کی کوڑی لانے والے اپنی اس کامیابی پر بہت نازاں ہوں گے، مگر ٹھہرئیے! اگر بھنگڑے ڈال ڈال کر تھک گئے ہوں تھوڑی دیر سستا لیجئے اور لگے ہاتھوںمعاملے کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیجئے۔۔۔
معزز عدالت نے اپنے فیصلے میں ارشاد فرمایا ہے کہ چونکہ مسمی نوازشریف کیپٹل ایف زیڈ ای نامی کمپنی کے چیئرمین کا عہدہ رکھتے تھے اور دستاویزات کے مطابق ان کی تنخواہ مقرر تھی، اس لئے بھلے انہوں نے یہ تنخواہ وصول کی ہو یا نہ کی ہو، کمپنی پر یہ رقم نواز شریف کو واجب الادا تھی ، اس طرح یہ ان کا اثاثہ بن گئی جسے انہوں نے2013 کے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا۔ معزز جج صاحبان اپنے فیصلے میں رقم طراز ہیں۔۔

It is hereby declared that having failing to disclose his ‘‘Un.withdrawn receivables’’ constituting assets from Capital FZE Jebel Ali, UAE in his nomination papers filed for the General Elections held in 2013 in terms of Section 12 (2) (f) of the Representation of the People Act, 1976 (ROPA), and having furnished a false declaration under solemn affirmation respondent No. 1 Mian Muhammad Nawaz Sharif is not honest in terms of Section 99 (f) of ROPA and Article 62(1)(f) of the Constitution of Islamic Republic of Pakistan, 1973 and therefore he is disqualified to be a Member of the Majlis-e-Shoora (Parliament)”.

مندرجہ بالا عبارت میں ا نورٹڈ کوماز میں لکھے الفاظ بہت اہم ہیں، کیونکہ آگے چل کر نااہلی کی پوری عمارت اسی مفروضے پر قائم ہے۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ میں اس ’’دعویٰ‘‘ کو مفروضہ ہی سمجھتا ہوں کیونکہ اس کی اثبات میں کوئی ٹھوس شہادت نہیں۔ جج صاحبان نے اپنے تئیں ’’ریسیو ایبلز‘‘ کی تعریف بھی کسی بزنس ڈکشنری سے نقل کی ہے ، مناسب ہوگا کہ معزز جج صاحبان کے الفاظ بعینہٖ نقل کردیئے جائیں۔

Accounts receivable a claim against a debtor usually arising from sales or services rendered

پھر فیصلے میں مزید لکھتے ہیں کہ

It has not been denied that respondent No. 1 being Chairman of the Board of Capital FZE was entitled to salary, therefore, the statement that he did not withdraw the salary would not prevent the un-withdrawn salary from being receivable, hence an asset

مذکورہ بالا عبارت کے بعد اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں باقی رہ جاتا کہ ’’ریسیوایبلز‘‘ کی کہانی مکمل طور پر مفروضہ ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ یہ مکمل طور پر ایک تکنیکی نکتہ ہے جس کو سمجھنے کے لئے اکاؤنٹنگ کی تھوڑی بہت شدھ بدھ ہونا ضروری ہے۔ اکاؤنٹنگ اسٹینڈرڈز کی رو سے ریسیوایبل صرف اس وقت قائم ہوتا ہے جب آپ کوئی پراڈکٹ سیل یا کوئی سروس فراہم کر چکے ہوں تاہم اس کی مد میں کسٹمر کی جانب سے ادائیگی ہونا باقی ہو۔ یہ لازماً بطور اثاثہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر پراڈکٹ یا سروس فراہم کیے بغیر ہی کوئی رقم وصول کرلی جائے تو اسے ’’غیر مکتسب آمدن‘‘ کہتے ہیں جس کا اندراج کمپنی کے میزانیے (بیلنس شیٹ) میں بطور واجبات یا ’’لائیبلیٹی ‘‘ کے کیا جاتا ہے۔ اب ہم سپریم کورٹ کی ہی فراہم کردہ تعریف کے مطابق دیکھیں تو محض اپائمنٹ لیٹر پر درج ہونے سے تنخواہ کسی ملازم کا حق نہیں بن جاتی، بلکہ اس کا استحقاق حاصل کرنے کے لئے ملازم کو مہینہ بھر اپنی سروسز فراہم کرنی ہوتی ہیں، اور متعین کردہ تعداد میں اپنی حاضری کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اگر کوئی ملازم مذکورہ تعداد میں حاضری پوری نہ کرسکے اور چھٹی بھی منظور نہ کروائے تو کمپنی پر اتنے دن کی تنخواہ واجب الادا نہیں ہوتی، اور کمپنیاں ایسی صورت میں ملازم کی اتنے دن کی تنخواہ کاٹ بھی لیتی ہیں، ایسا ہونا ایک عام پروفیشنل پریکٹس ہے۔

اس تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ جب تک کوئی ملازم مطلوبہ معیار کے مطابق کمپنی کو اپنی سروسز فراہم نہیں کرتا ، اس کا تنخواہ پر استحقاق قائم نہیں ہوتا، اور نہ ہی کمپنی کے کھاتوں میں اس ضمن میں کوئی ’’پے ایبل‘‘ کھڑا ہوگا۔ جب کمپنی کے کھاتوں میں کوئی پے ایبل نہیں بنا تو ایمپلائی کیسے کوئی ریسیو ایبل کلیم کرسکتا ہے! سو اسی اصول کو نواز شریف کے کیس پر بھی منطبق کیا جانا ضروری تھا، مگر چونکہ اس ضمن میں عدالت میں باقاعدہ جرح ہوئی ہی نہیں، اس لئے ممکن ہے کہ وکلا یہ نکتےنہ اٹھا سکیں ہوں۔ جب مدعا علیہ نے عدالت میں حلفاً بیان کیا کہ اس کا عہدہ محض رسمی تھا اور اس کا کمپنی میں کوئی عمل دخل نہیں تھا ، اور نہ ہی اس کے باقاعدگی سے دفتر جانے یا دفتری امور نمٹانے کی کوئی شہادت دستیاب ہے، تو ایسے میں کمپنی کے اکاؤنٹس چیک کیے بغیر کیسے یہ فرض کر لیا گیا کہ مدعا علیہ کی تنخواہ کمپنی کے کھاتوں میں جمع ہو رہی تھی مگر اس نے اسےصرف وصول نہیں کیا۔ اتنے کمزور مفروضے کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ کیسے دےدیا گیا ، اور اتنی جلد بازی میں، بغیر مزید تفتیش کے کیوں دے دیا گیا، اس پر کوئی تبصرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کھلے رازوں پر کیا تبصرہ کیا جائے اور کسے سنایا جائے؟ میں کوئی سخت لفظ استعمال کر کے اپنے لیے کوئی مشکل نہیں کھڑی کرنا چاہتا تاہم جب تک نواز شریف کی مذکورہ کمپنی میں تنخواہ “accrual” ثابت نہیں ہوجاتا، اس بنیاد پر اسے نااہل قرار دینا ’’بادی النظر‘‘ میں انصاف کے منافی ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھیے گا کہ پچھلی بار جن دو معزز جج صاحبان نے وزیر اعظم کی نا اہلی کا اختلافی نوٹ لگایا تھا، انہوں نے اس کی وجہ وزیر اعظم کے بیانات میں تضادات کو قراردیا تھا، اب کی بار اس کا ذکر ہی غائب ہے۔…بہر کیف، عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، اور نواز شریف فی الوقت نااہل ہے، تو یار دوستوں کا لڈی ڈالنا تو بنتا ہے۔ اس دوران میرے خیال میں نواز شریف اس فیصلے کے اپنی نا اہلی والے حصے کے خلاف سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن ضرور دائر کرے گا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ ریویو میں اس فیصلے کو تبدیل کرایا جاسکتا ہے کیونکہ کم ازکم یہ حصہ نامکمل معلومات پر مبنی ہے۔ باقی جشن منانے والوں کی خدمت میں اتنا ہی عرض ہے کہ ساراپنڈ بھی مرجائے تو ۔۔۔۔ سمجھ تو آپ گئے ہوں گے!

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply