نوید پٹھان اور ہم

چند دن پہلے ہندوستان میں ہونیوالے ایک بہیمانہ قتل کی وڈیو منظر عام پر آئی ۔سوشل میڈیا کے مطابق ایک ہندو انتہا پسند گروہ نے مسلمان ہونے کے جرم میں ایک نوجوان گولڈ میڈلسٹ تن ساز نوید پٹھان کو ظالمانہ طریق پہ قتل کیا۔پھر خبر آئی کہ یہ تو دو الگ الگ واقعات کو جوڑ کر ایک کتھا بنائی گئی ہے ۔مبینہ طور پہ امر واقعہ کچھ یوں ہے کہ پٹھان چوک کا رہائشی نوید اقبال عرف پپو بلڈر اور ہے ۔ اوروڈیو میں موجود رفیق الدین عرف گڈیا اور ۔
انڈین میڈیا کے مطابق رفیق الدین شیخ ایک گینگ کا سرغنہ تھا اور اس کا قتل گینگ وار کا نتیجہ ہے ،اور نوید اقبال کا ایک مقامی جمنیزیم کو لے کر مخالف پارٹی سے تنازعہ تھا اور اس کا قتل جو کہ کچھ دن قبل ہوا ،اسی تنازعہ کا شاخسانہ ہے ۔لیکن آجکل اندھی نفرت کے زہر نے اس قدر فضا کو مسموم کیا ہوا ہے کہ کوئی تحقیق کی دلدل میں پھنسنا پسند ہی نہیں کرتا۔ جونہی بھارت کا نام نظر سے گزرتا ہے صلواتوں کا انسائیکلو پیڈیا متحرک ہو جاتا ہے ۔فیس بک ہو یا ٹویٹر ہرجگہ یہ خبراسی عنوان کے ساتھ نظر آتی ہے کہ “بھارتی جنونیت کی انتہاء۔۔ نہتا مسلمان قتل” پھر اس کے نیچے گالیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اور گالیاں بھی ایسی کہ الحفیظ الاماں۔
سوال یہ نہیں کہ میں ہندوستان کا طرفدار ہوں یاپاکستان کا۔ سوال یہ بھی نہیں کہ کیا ظلم کیخلاف آواز اٹھانا درست ہے یا غلط۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا ظلم صرف سرحد پار کے انتہا پسند ہی کر رہے ہیں ۔۔؟ اگر آپ کا بھی یہی خیال ہے تو میری طرح آپ کو بھی اپنے خیالات کو غور و فکر کے پاٹوں تلےپیسنے کی ضرورت ہے ۔ بات یہ ہے کہ ظلم کا کوئی مذہب کوئی سرحد نہیں ۔ظلم جہاں بھی ہوگا ظلم ہی کہلائے گا۔ ذرا مڑ کر تو دیکھیئے ۔ ظلم اسوقت بھی ہوا جب کوٹ رادھا کشن میں کسی مسیحی کوجلتے بھٹے میں جھونک دیا گیا۔ظلم تو اس وقت بھی ہوا جب گڑھی شاہو اور ماڈل ٹاون میں عبادت کرتے درجنوں لوگوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ظلم تو اسوقت بھی ہوا جب گوجرانوالہ میں احمدیوں کے گھروں کو نذر آتش کرکے ثواب کمایاگیا۔
ظلم تو اس وقت بھی ہوتا ہے جب ہزارہ کےکسی آصف،کسی سرور اورکسی مرتضی ٰکو چھلنی کیا جاتا ہے ۔ ظلم تو اسوقت بھی ہوتا ہے جب قاہرہ سے لے کر پشاور تک کسی بھی شیعہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔کیا یہ سب واقعات ظلم کی تعریف میں نہیں آتے ؟ ایسے واقعات کے خلاف یا تو آواز اٹھائی نہیں جاتی اور اگر اٹھائی بھی جاتی ہے تو اتنی تو بہرحال نہیں جتنی سرحد پار ہونے والے کسی واقعہ پہ اٹھائی جاتی ہے ۔
تو جناب !جنونیت ہندوستان یا پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلے کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے ۔اسے کسی طور بھی کسی سرحد کیساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا۔ ارے دور کیوں جائیے! مشال خان کے واقعے کا زخم ابھی مندمل تو نہیں ہوا۔

Facebook Comments

امجد شمس آبادی
بلاگر، طنز و مزاح نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نوید پٹھان اور ہم

Leave a Reply