حیاتیاتی انقلاب کا بانی ، چارلس ڈارون

اٹھارویں صدی میں برطانیہ میں برپا ہونے والے صنعتی انقلاب نے انسانی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب کیے ہیں ۔ یہی وہ انقلاب تھا جس سے تاریخ کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوا جس کا ایک اظہار ہمیں 1871 میں پیرس کے محنت کشوں کے برپا کردہ ’’پیرس کمیون‘‘ کے انقلاب میں، تو دوسرا اور سب سے طاقتور اظہار 1917 کو روس میں برپا ہونے والے عظیم اکتوبر انقلاب کی صورت میں نظر آتا ہے۔ صنعتی انقلاب کے جلو میں انسانی تاریخ کے تین ایسے عالی دماغ انسانوں کا جنم ہوا جن کا دیا ہوا علم اور تحقیق وجستجو انسانیت کا عظیم ورثہ ہے ۔ ان میں ایک نام سائنٹفک سوشلزم کے بانی “کارل مارکس” کا ہے جس نے انسانی سماج کے تاریخی ارتقا کی تشریح و توجیح سائنسی بنیادوں پر کرتے ہوئے مادے کے تضادات پر مبنی علم، تاریخی و جدلی مادیت کی بنیاد رکھی، جو اس دنیا کو تبدیل کرنے والے انقلابیوں کا ایسا رجز نامہ ہے جس سے ظالم اور استحصالی طبقات آج تک لرزہ براندام ہیں ۔ دوسرا بڑا نام “مارگن” کا ہے جس نے انسانی تاریخ میں انسانی رشتوں کے تعلق اور خاندان کے ارتقا کی بنیادوں کا کھوج لگایا اور یہ مارگن ہی تھا جس کے علم کو بنیاد بناتے ہوئے فریڈرک اینگلز نے اپنی معرکہ آراء کتاب ’’ خاندان،ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز ‘‘ تحریر کی۔ جبکہ تیسرا عظیم نام “چارلس ڈارون” کا ہے جس نے برسوں کے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پرانواع کے ارتقا کے سائنسی علم کی بنیاد رکھتے ہوئے ہمیں بتایا کہ کس طرح دیگر انواع کی طرح انسان بھی ترقی کرتے ہوئے اس نہج کو پہنچا ۔
یہ تینوں بنیادی طور پر ارتقا پر یقین رکھنے والے فیلسوف اور مفکر تھے جنھوں نے بالترتیب سماج، خاندان اور خود انسان کے ارتقا کے بارے میں ٹھوس علم کی بنیادیں رکھتے ہوئے ان سوالوں کے جواب فراہم کیے جن کے لیے نوعِ انسانی صدیوں سے سرگرداں تھی ۔ ان درخشاں فکر انسانوں کی عظمت اس امر میں پنہاں ہے کہ انھوں نے ہر قسم کے مابعد الطبعیاتی اور خیال پرست(عینی) نکتہ ہائے نظر اور طرزِ استدلال کے برعکس اپنے معروض میں موجود مادی حقائق کی بنیاد پر علم کی وہ بنیادیں فراہم کی ہیں جن سے جبینِ جہالت پر آج تک شکنیں ہیں اور اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی یہ علم عینیت کی چیر پھاڑ کسی نشتر کی طرح کر رہا ہے۔ یوں بجا طور پر ان کا شمار بنی نوع انسان کے ایسے محسنین میں ہوتا ہے جنکا قرض اتارنا شاید ممکن ہی نہیں ہے۔
12فروری 1809کو برطانیہ کے علاقے “شریوزبری” میں ایک ڈاکٹر کے گھرجنم لینے والے چارلس ڈارون کے بارے میں کون جانتا تھا کہ آنے والے برسوں میں اپنے علم اور تجربات ومشاہدات کی بنیاد اس کا کیا ہوا کام، علمِ حیاتیات کی دنیا میں ایک عظیم انقلاب کی طرح ڈالے گا۔ یہ بات کس کے احاطہ ادراک میں تھی کہ اس کا پیش کردہ ’’نظریہ ارتقا‘‘ نہ صرف دنیا بھر کے بنیاد پرستوں کے صدیوں سے قائم عقائد کے رنگین محلوں میں زلزال برپا کر دے گا بلکہ اس کائنات میں انسان کے اصل مقام کا تعین کرتے ہوئے ان تمام سوالات کے سائنٹفک جوابات پیش کرے گا جو صبحِ تاریخ سے حضرتِ انسان کی تشفی کرنے میں ناکام رہے ہیں؛ اور یہی سوالات اس کے نوع بنوع توہمات کا منبع و ماخذ ہیں۔
1817میں جب وہ آٹھ سال کا تھا تو اس کی والدہ وفات پا گئی اور اسی سال اسے شریوزبری کے اسکول میں داخل کیا گیا، جہاں وہ ایک ایسے شریر بچے کے طور پر جانا جاتا تھا جو پڑھائی میں اپنی بہن کیتھرائن کے مقابلے میں کمزور تھا ۔ ایک سال بعد اسے ڈاکٹر بٹلر کے اسکول میں داخل کر دیا گیا جہاں وہ اگلے سات سال یعنی 1825 تک تعلیم حاصل کرتا رہا، تاوقتیکہ اس نے برطانیہ کی مشہور ایڈنبرا یونیورسٹی کے شعبہ طب میں داخلہ لے لیا ۔ اس وقت ڈارون کی عمر 16سال تھی اور اس کی وجہ شہرت ، گھڑ سواری اور شکار سے لیکر حیوانات اور نباتات کے مطالعے اور مشاہدے ( جن میں پودوں، درختوں اور مختلف قسم کے حشرات الارض کے نام جاننا اور سکے ،معدنی اشیاء اور ٹکٹیں جمع کرنا شامل تھا) تک کا احاطہ کرتی تھی۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے طور پر گھر میں ایک تجربہ گاہ بھی قائم کر رکھی تھی۔ ڈارون کے اس شوق کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سترہ سال کی عمر میں اس نے آبی کیڑوں پر ایک مضمون لکھا تھا اور وہ یونیورسٹی کے طلبا کی علمی انجمن “Plinean” کے ہونے والے جلسوں میں پابندی سے شرکت کرتا تھا جہاں اس نے یہ مضمون پڑھا تھا۔ اسے شاعری کا بھی حد درجے شوق تھا مگر اس قافیہ پیمائی کے نتیجے میں اس کا کل اثاثہ چند بےسروپا نظموں سے زیادہ نہیں تھا۔ البتہ تیس سال کی عمر تک وہ ملٹن، گرے، بائرن، ورڈس ورتھ ، کولیرج اور شیلے جیسے انقلابی شاعر کو خوب پڑھ چکا تھا اور شیکسپیئر سے بھی واقف تھا ۔ وہ نوعمری سے ہی پیدل گھومنے پھرنے کا بھی حد درجہ رسیا تھا جبکہ اس نے طالبعلمی کے زمانے میں عجائبات عالم پر ایک کتاب کا مطالعہ کر رکھا تھا جس کے نتیجے میں اسے دور دراز کے خطوں کے سفر کا شوق پیدا ہوا اور یہی شوق محض 22سال کی عمر میں ’’بیگل‘‘ نامی بحری جہاز پر اس کے 5سالہ سفر پر منتج ہوا۔
1828-1831 کا زمانہ ڈارون نے کیمبرج یونیورسٹی میں گزارا لیکن اسے ڈاکٹر بننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ اس صورتحال کے پیش نظر اسکے والد نے اسے پادری بننے کی تلقین کی لیکن کیمبرج یونیورسٹی میں اس نے اپنا زیادہ تر وقت بجائے دینیات کے نیچرل سائنس سے متعلق مختلف کتابوں کے مطالعے اور حشرات الارض جمع کرنے میں گزارا۔ دراں حالیکہ وہ27دسمبر 1831 کو بغیر تنخواہ کے رضاکارانہ طور پر ایک ماہرِ مطالعہ قدرت(Naturalist)کی حیثیت سے بیگل نامی جہاز پر روانہ ہوا جو جنوبی کراۂ ارض کے ایک تحقیقاتی سفر پر جا رہا تھا اور اس کا یہ سفر پانچ سال بعد 2 اکتوبر 1836 کو اختتام پذیر ہوا۔ اس سفر میں اس نے دنیا کے مختلف خطوں کی بادیہ پیمائی کرتے ہوئے حیوانات ،پودوں، پرندوں، چٹانوں وغیرہ پر اپنا کام جاری رکھا جس میں آبی جانور اور دیگر نمونے جمع کرنا بھی شامل تھا ۔ڈارون نے اس سفر کے تمام تجربات و مشاہدات اور اکھٹی کی گئی معلومات کی چھان بین کرتے ہوئے اسے انتہائی احتیاط سے ترتیب دیا۔ یہی معلومات بعد ازاں اسکے نظریہ ارتقا کی بنیاد بنی۔
اس سفر سے واپسی کے بعد اس نے اپنا “Journal Of Travelsa” مرتب کرنا شروع کر دیا ۔ اس سے قبل اس کے لکھے گئے خطوط فلاسوفیکل سوسائٹی نے شائع کر دئیے تھے۔ اس عرصے میں وہ لندن کی مختلف سائینٹفک سوسائٹیز کے اجلاسوں میں شرکت کرتا رہا جبکہ جیولیوجیکل سوسائٹی کے سیکریٹری کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض سرانجام دیتا رہا ۔ اس دوران اس نے متعدد کتابیں تحریر کیں جن میں ’’بیگل جہاز کا روزنامچۂ سفر‘‘، ’’مونگے کے چٹانوں کی بناوٹ‘‘، ’’آتش فشانی جزیرے‘‘، ’’جنوبی امریکا کی ارضیاتی تحقیق‘‘، ’’جہازوں کے پیندے میں چپکنے والے کیڑے‘‘ اور ’’حیوانی پودے‘‘ وغیرہ شامل تھی۔ لیکن اس کی سب سے معرکہ آراء کتاب آنا ابھی باقی تھی جس میں اس نے اپنا شہرہ آفاق ’’نظریہ ارتقا‘‘ پیش کیا۔
سائنسی ماحول میں پرورش پانے والے ڈارون کے لیے ارتقا کوئی نئی شے نہیں تھی۔ اسکے والد ایک مستند ڈاکٹر تھے اور اسکے دادا ڈاکٹر ایراس مس ڈارون کو بھی ارتقا کے موضوع سے خصوصی شغف تھا ۔ انھوں نے ارتقا کی تشریح پر مبنی ایک مقالہ بھی تحریر کیا تھا جسکا ڈارون پر گہرا اثر تھا جو آخر کار اس کے ارتقا کی تہہ تک پہنچنے کا باعث بنا ۔آخر 24 نومبر 1859 کو ڈارون کی کتاب ’’اصلِ انواع‘‘(Origin Of Species) کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا اور اس کی تمام کاپیاں(1250)پہلے ہی دن فرخت ہو گئیں ۔ مافوق الفطرت امور کو رد کرتے ہوئے اس کتاب میں ڈارون نے ارتقا سے متعلق ایسے شواہد پیش کیے جنھیں آج تک رد نہیں کیا جا سکا ہے ۔اس کتاب کا لب لباب یہ تھا کہ
’’ کائنات میں موجود ہر شے کا ارتقا ہوا ہے اور اس دنیا میں موجود ہر شے اس طویل ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے جو دنیا میں شروع سے لیکر آج تک جاری وساری ہے۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

انسانی تاریخ کا دھارا تبدیل کر دینے والی اس کتاب کے چھ ایڈیشن ڈارون کی زندگی میں ہی ہزاروں کی تعداد میں شائع ہو کر ہاتھوں ہاتھ لیے گئے اور ڈارون نے اپنی زندگی ہی میں دیکھا کہ یورپ کی 36 زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہوئے ۔ اس کتاب پر پادری حضرات سے لیکر بہت سے نام نہاد سائنسدانوں تک نے بڑا واویلا کیا۔ یہاں تک کے خود ڈارون کی درسگاہ کیمبرج میں منتظمین نے اس کتاب کا کوئی نسخہ نہیں رکھا۔ مگر اب وہ زمانہ نہیں تھا کہ سقراط کو شوکران کا پیالہ پینے پر مجبور کیا جاتا بلکہ یہ وہ عہد تھا جس میں ابنائے وہم ورجعت کو حقائق کی تلخی بہر حال چکھنی ہی تھی ۔ ڈارون کوئی پہلا شخص نہیں تھا جس نے ارتقا پر بات کی بلکہ اس سے قبل متعدد مفکرین نے اس بارے میں اپنی دانش کے جوہر دکھائے البتہ ڈارون سب سے سبقت لیجانے میں اس لیے کامیاب رہا کہ اس نے ہر بات مادی بنیادوں پر تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں پیش کی نہ کہ مابعد الطبعیات کا سہارا لیتے ہوئے۔
ڈارون کی اس کتاب کی قدر ومنزلت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی اشاعت کے دو سال بعد 1861 میں “لاسال” کو لکھے گئے ایک خط میں “کارل مارکس” نے لکھا تھا کہ
’’ ڈارون کی یہ کتاب انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور تاریخ میں طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے اس کتاب نے میرے لیے ایک قدرتی اور سائنسی بنیاد
فرا ہم کی ہے۔‘‘
اس کتاب کے 12 سال بعد ڈارون نے 1871 میں Descent Of man (انسان کی پیڑھی)کے عنوان سے اپنی دوسری کتاب شائع کی، جس میں اس نے ثابت کیا کہ دیگر ذی حیات جانداروں کی طرح انسان بھی تغیر پذیر ہے اور وہ بوزنہ کی نسل سے ارتقا کرتا ہوا اس نہج پر پہنچا ہے۔
ڈارون کی زندگی میں اس کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے ایسے کارٹون بھی شائع کیے گئے جس میں اسے بوزنہ کی شکل میں دکھایا گیا تھا۔ مگر اس کے علم کا جواب علم سے نہیں دیا جا سکا اور دیا جاتا بھی کیونکر کہ اس کے جواب کے لیے مخالفین کے پاس کوئی علمی اور سائنسی بنیاد موجود ہی نہیں تھی ۔ 19 اپریل 1882 کو نظریہ ارتقا کے موجد اور حیاتیاتی انقلاب کے اس بانی نے برطانیہ میں وفات پائی۔ آج ڈیڑھ صدی کا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی اس کا علم، جہل و قیاس پر خندہ زن ہے۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply