دوسروں کو خوشیاں دیں

ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﮐﺜﺮ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﯼ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮﯼ ﻣﻘﺼﺪ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﮧﭨﻮﭦ ﮐﺮ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﺭﺵ ﺑﺮﺳﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺯﻣﯿﻦ ﺟﺐ ﭨﻮﭦ ﮐﺮ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﺫﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻏﻠﮧ ﺍﮔﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﻮﺩﻭﮞ ﯾﺎ ﻓﺼﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﭨﻮﭦ ﮐﺮ ﮔﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﻗﻠﻤﻮﮞ ﯾﺎ ﺷﺎﺧﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﯿﺎ ﭘﻮﺩﺍ ﯾﺎ ﻧﺌﯽ ﻓﺼﻞ ﺍﮔﺘﯽ ﮨﮯ۔دھوکہ کھانے والا، اعتبار کے ٹوٹنے کی چوٹ کھانے والا وقتی طور پر ٹوٹ ضرور جاتا ہے مگر ساتھ ہی وہ انسانوں کے اصلی روپ سے بھی آشنا ہوجاتا ہے ۔ کھرے کھوٹے کی پہچان اس کے شعور کو مزید تابناکی بخشتی ہے۔ انسان دھوکہ کھانے کی وقتی اذیت کا شکار ہوتا ہے مگر وقت کا مرہم اسے اور با صلاحیت اور با شعور بنا دیتا ہےﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺩﻝ ﭨﻮﭦ کر ﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺏ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮍﺍ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﮟ گااورہماری زندگی میں سب کچھ کسی وجہ سے ہوتا ہے غلط ہوتا ہے تاکہ ہم صحیح کی قیمت جان سکیں، اور لوگ بدلتے ہیں تاکہ ان کا اصلی چہرہ جان سکے اور جب آپ اپنی کار دس پندرہ میل پہاڑ کے اوپر لے جا سکتے ہیں لیکن آپ کو یقین ہوتا ہے کہ چوٹی پر پہنچنے کے بعد پھر اترائی ہی اترائی ہے۔ یہ یقین اس لیے ہوتا ہے کہ آپ قدرت کے رازوں سے واقف ہیں اور پہاڑ کے خراج کو سمجھتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی کار مسلسل اوپر ہی اوپر نہیں جا سکتی، نہ ہی نیچے ہی نیچے جا سکتی ہے۔ یہ صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔
آپ کی زندگی میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ چینی فلسفے والے اس کو ین اور یانگ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہم لوگوں سے زندگی میں یہی غلطی ہوتی ہے کہ ہم لوگ متبادل کے راز کو پکڑتے نہیں ہیں، جو شخص آگے پیچھے جاتی لہر پر سوار نہیں ہوتا وہ ایک ہی مقام پر رک کر رہ جاتا ہے۔ (گلائیڈر جہازوں کے پائلٹ اس راز کو خوب سمجھتے ہیں) وہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ پہاڑ پہ اوپر ہی اوپر جانا زندگی سے نیچے آنا موت ہے۔ وہ زندگی بھر ایک نفسیاتی لڑائی لڑتا رہتا ہے اور ساری زندگی مشکلات میں گزار دیتا ہے۔
ایک سمجھدار انسان جب زندگی کے سفر پر نکلتا ہے تو آسان راستہ اختیار کرتا ہے۔ وہ بلندی پر جانے کا پروگرام بنا کر نہیں نکلتا کہ نشیب میں اترنے کے خوف سے کانپتا رہے وہ تو بس سفر پر نکلتا ہے اور راستے سے جھگڑا نہیں کرتا۔ جو جھگڑا نہیں کرتا، وہ منزل پر جلد پہنچ جاتا ہے
لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنا ، اور ان کی ضرورتیں پوری کرنا ہی عبادت ہے ۔ وہ آپ کی محبت سے اور شفقت سے محروم رہیں گے تو معاشرے میں کال پڑ جائے گا ، اور آپ کی ضرورتیں بھی رُک جائیں گی ۔ صرف منہ سے بات کر کے لوگوں کی خدمت نہیں ہوتی اس میں عمل بھی ہونا چاہیے ۔ ہمارے جتنے بھی ادیب اور شاعر تھے ، عملی زندگی بسر کرتے تھے ۔ امام غزالی پڑھنا لکھنا چھوڑ کر صاحبِ مال ہوئے لوگوں سے ملے جلے ۔ شیخ اکبر ابنِ عربی ، فرید الدین عطار،رومی ،داتا صاحب ، معین الدین چشتی ، حضرت بختیار کاکی یہ سب لوگوں کے کام کرتے تھے۔ مخلوقِ خدا کے کام آتے تھے ۔ ان کی بہتری کے لیے ان کے ہاتھ بٹاتے تھے ۔ کیونکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت تھی اور یہ سب لوگ اس سنت پر ہی عمل کر کے آگے بڑھ سکے۔ ہم دوسروں کو خوشیاں دے کر ہی خوش رہ سکتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply