مدارس کے فلاکت زدہ فاضلین

تم نے دیا ہی کیا ہے؟
اتنا عرصہ پڑھائی کی تم نے. پڑھائی ختم ہوئے سات سال بیت گئے جس میں صرف تین سال جاب کی ہے چار سال فارغ بیٹھے تھے اور وہ جاب بھی بس نام کی جاب تھی پیسہ تو اک پائی بھی نہیں دیا تم نے، اور تم سے تو اچھا چھوٹا ہے جو گھر پیسے بھی دیتا ہے ہر دو مہینے بعد ایک بکری لاکر والدین کو ایصال ثواب کردیتا ہے ہر تیسرے ماہ دو تین دیگ لاکر عزیز واقارب کو بلاکر کھلاتا ہے، بہنیں آجائیں تو واپسی پر ان کو خالی ہاتھ جانے نہیں دیتا کبھی ان کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو خرید کر دے دیتا ہے اور ایک تم ہو بس بیٹھ کر تیار ٹھونستے رہتے ہو اگر تھوڑا بہت کماتے بھی ہو تو اپنے بچوں کو کھلاتے ہو بس کبھی آلو ٹماٹر تک نہیں لائے تم!

یہاں تک کہہ کر وہ خاموش ہوئے تو پورے کمرے میں ہم تین لوگوں کے باوجود ایسے لگ رہا تھا جیسے یہاں کوئی جاندار ہے ہی نہیں. لب بستگی کے مضطرب سناٹے میں خامشی کے اُلو اڑنے لگے، تھکان وشکستگی ان کے لہجے سے عیاں تھی. غم وغصہ سے ہانپتا بدن ان کی دلی کیفیت کی چغلی کھا رہاتھا-
تو تم نے کیا کہا انہیں؟۔۔۔۔ میں نے سوگوار فضا کو توڑنے کے لیے کمر سیدھی کی اور دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے ہوئے پوچھا –
وہ کچھ دیر سوچوں میں گم رہے پھر تھوک نگلتے ہوئے کہا ۔۔۔میں نے کیا کہنا تھا بس یہ کہ۔۔۔ آپ بڑے ہیں میرے ماں باپ کی جگہ ہیں. آپ ہی نے مجھے لکھایا پڑھایا پالا پوسا ہے. لوگوں کا ایک خدا ہوتا ہے اور میرا خدا کے بعد آپ تین بڑے مجازی خدا ہیں کہ آپ لوگوں نے ہی یہ سب احسانات کیے ہیں مجھ پر کہ والدین تو بچپن میں ہی گزر گئے تھے اور میں اسی کوشش میں ہوں کہ آپ کے ان احسانات کا بدلہ کچھ تو چکا سکوں لیکن شاید میری قسمت میں کہیں چھید ہے یا پھر ماتھے کی لکیریں کسی منفعت کو جذب کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں یا پھر ہاتھ کی سطریں مال ودولت سے خالی ہیں –
وہ باتیں کرتے کرتے پھر کہیں سوچوں میں دور نکل گئے اور کچھ لمحے توقف کے بعد پھر سے شروع ہوئے،

یار انسان اپنی بساط کے تا بقدر مکلف ہے سو جو میرے بس میں ہے ان کے لیے کرنے سے دریغ نہیں کرتا –
مثلاً آپ کیا کرسکتے ہیں یا کیا ہے آپ نے ان کے لیے؟
میں نے جلدی سے پوچھا،
مثلاً میں جب کسی مریض کو خون عطیہ کرنے جاتا ہوں تو ان سے عرض کرتا ہوں کہ میرے بڑے بھائی لا علاج مرض کا شکار ہیں ان کے لیے دعا کریں اللہ انہیں شفا دیں اور میں یہ عطیہ کرتا بھی بھائی کے لیے ہوں کہ خدایا مجھ سے یہی ہوسکتا ہے اسے میری طرف سے ان کے حق میں قبول فرما، یا کسی گاڑی کو دھکا دے کر سٹارٹ کرنا ہو تو اس بھلائی کی نیت بھی بھائی کے لیے کرتا ہوں یا پھر ان کے لیے نماز پڑھ کر ایصال کردیتا ہوں کہ انہیں اللہ شفا دیں، یا پھر ہڑتال والے دن موٹر سائیکل لے کر نکل جاتا ہوں کہ کوئی بزرگ جو کسی گاڑی کے منتظر ہوں انہیں لفٹ دے دیتا ہوں ،انہیں ان کی جگہ تک پہنچا دیتا ہوں اور انہیں بھی اپنے بھائی کی شفا یابی کے لیے دعا کرنے کا کہتا ہوں۔یا جب وہ گھر میں طعنے کوسنے دیتے ہیں یا ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں تو میں باوجود ان کے غلطی پر ہونے کے کوئی ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لاتا کہ ان کا دل نہ دکھے۔۔ ہاں جب برداشت سے باہر ہوجاتا ہے تو جواب دیتا ہوں پر بہت ہی کم۔۔ فرض نماز پڑھتا ہوں تو رب سے یہی دعا کرتا ہوں کہ اس کا اجر مجھے نہیں چاہیے میرے بھائی کو دے دیں کہ میرے مربی میرے محسن ہیں وہ،
بس یہی چھوٹی موٹی غیر مرئی چیزیں ہیں جو میں ان کے لیے کرتا ہوں باقی تو میرے بس میں کچھ نہیں!

ہم دونوں دوست ان کی باتیں بلا حرکت خاموشی سے سن رہے تھے اور اس کی دکھیاری حالت سن کر گونگے بنے بیٹھے رہے، میں نے دوست کو دیکھا کہ وہ بات کرے لیکن انہوں نے مجھے کہنی ماری کہ میں ہی اس آفت رسیدہ وفلاکت زدہ شخص کے زخموں پر پھاہا رکھ دوں ۔۔۔
سو میں نے گلا کھنکارتے ہوئے کہا ۔۔دیکھ بھائی! ہم تینوں ہی مدارس کے فارغ لوگ ہیں اور مدارس کے فضلا کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ مدرسہ چھوڑ کر حقیقی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ان کی مشکلات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے نہ تو ہمیں کوئی ہنر یا پیشہ آتا ہے نہ ہی مال ہوتا ہے کہ تجارت شروع کریں. نہ ہی ہم سے محنت ومشقت والے کام ہوتے ہیں کہ گینتی بیلچہ چلا کے کچھ کمائیں یا پھر بوجھ ڈھونے والا لوڈروں کا کام کرسکیں، مدارس میں جائیں تو وہاں صرف آنے جانے کا کرایہ پکڑایا جاتا ہے، اسکولز میں جائیں تو وہ کم تنخواہ میں زیادہ سے زیادہ کام لیتے ہیں اور وہاں بھی استحصال ہوتا ہے اور نہ ہی اتنا وقت ہوتا ہے مکینکی درزی یا کوئی اور فن وپیشہ سیکھا جاسکے لہذا جیسے تیسے کرکے وقت کو دھکا دیتے جاؤ کہ “ان مع العسر یسرا” کبھی نہ کبھی یہ اندھ کار ختم ہو ہی جانا ہے۔ بس اس طلوع صبح عید تک خود کو بچا لو ۔۔۔ یہ کہانی صرف آپ کی نہیں ہے یہ تقریباً ہر دوسرے گھر کی ہے اور ہاں جو آپ بھائیوں کے لیے کررہے ہو اس کی کوئی ویلیو نہیں، انہیں پیسہ چاہیے ہوتا ہے وہ لاؤ تو سبھی کے دلارے ہوں گے، نہیں لاؤ گے تو مرد تو چھوڑیے عورتوں تک کے کوسنے سننے پڑیں گے ۔ خداوند ہر ایک پر رحم فرمائے !

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے دوست نے انہیں کچھ پیسے دیئے اور ان کے لیے کام ڈھونڈنے کا کہہ کر انہیں رخصت کیا اور میں نے ان کے بیان کردہ تمام ظلمتی رنگوں کو ملا کر ایک مجسم تصویر ترتیب دی تو مجھے ایک ہی شکل نظر آئی ۔۔۔۔بے بسی! ۔۔۔۔۔۔مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ مدارس والے اپنے نصاب میں تبدیلی لائیں اور وہ تبدیلیاں کیسی ہوں! جب ہم پڑھتے تھے تو انگلش وتمام عصری علوم کمپیوٹر سمیت حرام تھے اور ابھی وہی حرام چیزیں مدارس والے خود پڑھا رہے ہیں تو بس اتنی سی گزارش کروں گا کہ مدرسے آنے والا ہر بچہ اپنی زندگی کے بہترین سال وہاں دیتا ہے تو اس کے بدلے مہتمم حضرات اپنے بچوں کے علاوہ اُن بچوں کے لیے بھی کچھ ایسا کر گزریں ،جس سے بچہ معاشرے کا اہم فرد بن جائے نہ کہ معاشرے پر بوجھ ۔۔اور ہاں ہماری اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ مدارس قال اللہ وقال الرسول بند کردیں کہ ایسا تو سوچنا بھی تباہی ہے!

Facebook Comments

معراج دوحہ
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مدارس کے فلاکت زدہ فاضلین

  1. اتنی بھیانک تصویر بھی نہیں ہے ۔ فاضلین تعلیم سےساتھ اور بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔ اس پر اگست میں تفصیلی مضمون لکھوں گا۔ان شاءاللہ

Leave a Reply to Sajid qaimi Cancel reply