گئو راکشس،اس کے رکشک اور بھکشک/ڈاکٹر سلیم خان

پہلو خان کی شہادت پارلیمان کے بجٹ اجلاس کے دوران ہوئی تھی اور عباس نقوی نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کا انکار کردیا تھا اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شاید حالات اس قدر ابتر نہ ہوتے۔ بی جے پی اس خوش فہمی میں تھی کہ یہ معاملہ بھی یونہی رفع دفع ہوجائے گا لیکن مانسون اجلاس کے آنے تک وہ چہار جانب سے گھر گئی۔ ایک طرف ہندوستان بھر میں مظاہرے ہوئے اور پھر یہ آگ دنیا بھر میں پھیل گئی یہاں تک کہ نیویارک ٹائمز نے یوگی ادیتیہ ناتھ کو دہشت گرد مافیا کا سرغنہ قرار دے دیا۔ یوگی ادیتیہ ناتھ اگر دہشت گرد ہے تو ظاہر ہے اس کو وزیراعلیٰ بنانے والا دہشت گرد گروہ کا کرتا دھرتا ہوگیا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے اس بابت مرکزی حکومت اور 6 صوبائی حکومتوں کو نوٹس دے دیا۔ اس کے بعد حزب اختلاف نے حکومت کو ایوان پارلیمان میں گھیرنے کا منصوبہ بنالیا۔ وزیراعظم کو بالآخر احساس ہوگیا کہ اب مونی بابا بنے رہنے سے کام نہیں چلے گا اس لیے پہلے تو انہوں نے سابرمتی آشرم میں اشاروں کنایوں میں مذمت کی اور پھر کل جماعتی نشست میں کھل کر بولے لیکن یہ ساری مشقت بے سود رہی اس لیے کہ مودی جی قوم کا اعتبار کھوچکے ہیں۔ پارلیمانی سیشن سے قبل کل جماعتی اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ’’ گئورکشا کے نام پر تشدد برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘۔ قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ اس پرصرف بیان بازی ہوگی یا حکومت کی جانب سے کوئی اقدام بھی کیا جائیگا؟ ۔

مودی جی نے بڑی چالاکی سےایکشن لینے کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر ڈال دی اور’’ریاستی حکومتوں کو تلقین کی کہ وہ اس تشدد میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی صوبائی حکومت اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو وہ کیا کریں گے؟ کیا وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے یا کسی وزیر یا افسر کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کریں گے؟ گئودہشت گردی کے زیادہ تر واقعات ان صوبوں میں وقوع پذیر ہوئے ہیں جہاں بی جے پی بر سر اقتدار میں ہے۔ ان میں سے ہر جگہ وزراء نے بالواسطہ یا بلا واسطہ اس قتل و غارت گری کو مختلف حیلوں بہانوں سے حق بجانب ٹھہرایا اور قاتلوں کی پشت پناہی کی۔ راجستھان کے گلاب چند کٹاریہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ کیا ایسے وزیرداخلہ سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس دہشت گردی کا خاتمہ کرے گا ؟ اگر نہیں تو مودی جی اس کو برخواست کیوں نہیں کرتے تاکہ ایک ٹھوس پیغام جائے اس لیے کہ یہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانیں گے اور مودی جی کے مگر مچھ کے آنسوؤں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ حزب اختلاف نے پہلی بار ایوانِ پارلیمان میں اس غنڈہ گردی کاالزام بغیر کسی لاگ لپیٹ کے براہِ راست سنگھ پریوار پر لگایا ہے۔

ترنمول کے ڈیرک اوبرین نے کہا گئودہشت گردوں کے خلاف خالی خولی الفاظ کافی نہیں ہیں۔ اے آئی ڈی ایم کے کی ویجیلا ستیاناتھن نے کہا بیف بہت سارے لوگوں کی فطری پسند ہے اور گائے کے نام پر تشدد انسانی تباہی ہے۔ بی ایس پی کے مشراجی نے اعلان کیا کہ بی جے پی طبقاتی،فرقہ وارانہ اورذات پات کے تشدد کو ہوا دے رہی ہے۔ایس کے رہنما نریش اگروال نے پریکر کا حوالہ دے کراسے منہ میں رام بغل میں چھری سے مماثل ٹھہرایا اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر بی جے پی کے ارکان پارلیمان وعدہ کریں کہ وہ گائے کا خیال رکھیں گے تو میں ایک ایک گائے ان سب کودان کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اگروال کے ذریعہ ہندو دیوتاؤں کا شرابیوں سے موازنہ کرنے پر بی جے پی والے چراغ پا ہوگئے اور خوب ہنگامہ کیا۔ غلام نبی آزاد نے چونکہ ایوان بالا میں حزب اختلاف کے رہنما ہیں اس لیے انہوں سرکار پر ہلہّ بولتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے زبانی جمع خرچ کے باوجود فسطائی عناصر اپنی نفرت انگیز مہم چلائے جارہے ہیں۔ سابق وزیر قانون کپل سبل نے ایوان میں واضح کیا یہ کسی غیر منظم بھیڑ کے ذریعہ کیا جانے والی قتل و غارتگری ہجوم کا اچانک حملہ نہیں بلکہ ایک منظم عوامی قتل عام ہے اور اس کی روک تھام کے لیےمحض بیان بازی اور اظہار افسوس کافی نہیں ہے۔

سی پی ایم کے سیتا رام یچوری نے گئورکشک دہشت گردوں کو امریکہ کی بدمعاش مافیا کو کلکس کلان، جرمنی کے نازی اور اٹلی کے فسطائیوں کا ہم پلہّ قرار دیا۔ انہوں کے کہا مختلف مقامات پر ان کا بیک وقت متحرک ہوجانا نظریاتی ہم آہنگی کا غمازہے۔یچوری نے یاددلایا کہ آریس ایس پر پابندی لگاتے ہوئے اس کو ولبھ بھائی پٹیل نےتشدد کا علمبردار گروہ قرار دیا تھا اور ان گئورکشکوں کو وہیں شہ ملتی ہے۔ انہوں نے سارے گئورکشک گروہوں پر فی الفور پابندی کا مطالبہ کیا۔ ہجوم کے ذریعہ نہتے لوگوں پر آئے دن ہونے والے بزدلانہ حملوں پر بات چیت بہت چکی اب وقت آگیا ہے کہ اس کی روک تھام کے عملی اقدامات کیے جائیں اور سخت سے سخت قانون بنایا جائے۔ اس لیے کہ اول تو انتظامیہ کے اندر آمادگی پائی نہیں جاتی اور اگر وہ کچھ کرنا بھی چاہتا ہے تو اس کو قانون کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ویسے تو قانون وضع کرنا مقننہ کا یعنی سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے مگر مودی جی اور ان کے دست راست امیت شاہ کی ساری توجہ فی الحال سیاسی طاقت کے فروغ میں وقف ہے۔ ارون جیٹلی سرمایہ داروں کے ساتھ ملی بھگت کرکے عوام کو لوٹنے میں جٹے ہوئے ہیں۔ عباس نقوی جیسے چھٹ بھیوں کا کام ہر سرکاری اقدام کی اوٹ پٹانگ تائید کرکے ظلم و جبر کو حق بجانب ٹھہرانا ہے۔ ایسے میں سماج کے باشعور طبقات (سول سوسائٹی) نے پہل کرکے اس دہشت گردی کے خلاف مانو سرکشا قانون (یعنی مسوکا )کا مسودہ پیش کیا ہے۔

اس قانون کے مسودے کی تدوین کے لیے ماہرین کے ایک خصوصی گروپ نے کام کیا جس میں سپریم کورٹ کےمشہور وکیل سنجے ہیگڈے، سردار مشرف، انل چامڑیہ، اپوروانند،صنم وزیر اور نویدتیامینن جیسی معروف انصاف پسند شخصیات شامل تھیں۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے پوتے ڈاکٹر پرکاش امبیڈکر کی سرپرستی میں اس تجویز کو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں پیش کیا گیا۔ شہزاد پونہ والا نے یہ مسودہ پیش کرتے ہوئے کہا گھریلو ملازمین اور دلتوں کے تحفظ کے لیے جس طرح خصوصی قوانین موجود ہیں اسی طرح کے ایک قانون (ماسوکا) کی ضرورت ہے۔ تعزیرات ہند کی دفع 1860 موجود تو ہے لیکن ماسوکا کی طرح ہمہ جہت نہیں ہے۔ اس کے اندر تفتیش کے ضابطوں اور گواہوں کے تحفظ کی شق بھی شامل کی گئی ہے۔ قومی تحریک برائے انسدادقتلِ ہجوم کے بانی تحسین پونہ والا نے امید کا اظہار کیا کہ جلد ہی مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس کو قانون کا درجہ عطا کریں گی۔ انہوں نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ہم ایوان پارلیمان سے لے وزرائے اعلیٰ تک سب کے دروازے پر دستک دیں گے۔ اس مہم میں ہمیں نوجوانوں، بزرگوں اور سماج کے سارے طبقات کی حمایت حاصل ہورہی ہے۔

اس قانون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے شہلا رشید نے کہا کہ موثر قانون کی عدم موجودگی کے باعث جے این یو کے لاپتہ طالبعلم نجیب پر حملہ آوروں کے خلاف ابھی تک ایف آئی آر نہیں درج ہوسکی اور پونہ کےمحسن شیخ کے قاتل ضمانت پر چھوٹ گئے۔ اونا کے دلت مظلومین کو بھی اسی سبب سے انصاف نہیں مل سکا۔ مانو سرکشا قانون میں ہجوم اور اس کے ذریعہ قتل عام کی دستوری تعریف بیان کی گئی ہے۔ اس کو غیر ضمانتی جرم قراردیا گیا ہے۔ متعینہ مدت کے اندر (۶ ماہ کے اندر) عدالتی تفتیش مکمل ہونے تک پولس تھانے کے افسر کو معطل کرنے کی سفارش کی گئی اور مجرمین کے لیے عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ اس مجوزہ قانون میں ظلم وجبر کا شکار ہونے والوں کے لیے مناسب معاوضہ کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے شدت پسند ہندواحیاء پرست جماعت شیوسینانے بھی گئورکشا کے نام پرلوگوں کی جان لئے جانے کو ہندوتو کے خلاف بتایا اور وزیراعظم سے اپیل کی کہ وہ گائے کے گوشت پر ایک قومی پالیسی پیش کریں۔ شیوسینا کے ترجمان سامنان اداریہ میں لکھا کہ گائے کے گوشت کا معاملہ کھانےکی عادتوں، کاروبار اور روزگار سے وابستہ ہے اس لیے اس معاملے پر ایک قومی پالیسی ہونی چاہیے۔ سینا نے اعتراف کیا کہ گئورکشا کرنے والے لوگ کل تک ہندو تھے لیکن آج وہ قا تل بن گئے ہیں۔ لوگوں کا قتل کرنا ہندوتو کے اصولوں کےخلاف ہے۔

گائے کے گوشت پرایک قومی پالیسی آپسی تناؤ کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ شرم کا مقام ہے کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو ہندوتوا کا سبق یاد دلانے کے لیے شیوسینا کوزحمت کرنی پڑ رہی ہے۔ مودی جی علی الاعلان (80 فیصد) گئورکشکوں کو جرائم پیشہ کہتے ہیں اور گئورکشک بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کا الم اٹھائے پھرتے ہیں تو آخر ان تنظیموں کو جرائم پیشہ دہشت گرد قرار دے کر ان پرپابندی کیوں نہیں لگائی جا تی ؟ اپنے ووٹ بنک کے ناراض ہوجانے کا خوف مودی جی کی راہ میں تو حائل ہوسکتا ہے لیکن تحسین پونہ والا کو ان کا خوف نہیں ستاتا اسی لیے انہوں نے گئو رکشا کے نام پر بنی تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کے مطالبہ کو لے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کررکھی ہے۔ اس کے تحت عدالتِ عالیہ نے مرکزی حکومت اور ۶ ریاستی حکومتوں گجرات، راجستھان، جھارکھنڈ، مہاراشٹر، اتر پردیش اور کرناٹک کو نوٹس جاری کرکے تین ہفتے میں جواب مانگا ہے۔ درخواست گزار نے اپنی عرضی میں راجستھان کے الور میں ہوئےپہلو خان کے سانحہ کا حوالہ دیتے ہوئے گئو رکشا کے نام پر دلتوں اور اقلیتوں کے خلاف کئے جارہے تشدد کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح کے تشدد کرنے والی تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے۔

سپریم کورٹ نے اس بابت حکومت سے سوال کیا تھا کہ وہ لوگوں کے درمیان نفاق ڈالنے والوں کوکیوں نہیں پکڑتی؟عدالت نے گائے کی حفاظت کے نام ملک کی ذات برادریوں کےدرمیان اختلافات پھیلانے والوں کےخلاف کارروائی نہ کرنے پر پہلے تو ان ساتوں حکومتوں سے جواب طلب کیا لیکن تین ہفتہ کی مدت میں جواب داخل نہ کرنے پر نوٹس جاری کردیا۔ افسوس کہ مودی جی عدالت عالیہ کے نوٹس کی جانب توجہ دینے کے بجائے پروچن سنا رہے ہیں۔ وہ خود تو گئو رکشاکا سیاسی فائدہ اٹھا تے ہیں مگر دوسروں کو اس سے منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’ اس طرح کے تشدد کو سیاسی فائدے کیلئے فرقہ وارانہ رنگ دینا ملک کے فائدے میں نہیں ‘‘۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ جو تشدد خالصتاً فرقہ وارانہ ہےوزیراعظم اس کو کوئی اور رنگ دیناچاہتے ہیں۔ مودی کے بغل بچہ عباس نقوی نے ایوان میں کہا کہ گئورکشکوں کو بدنام نہ کیا جائے۔ ان جرائم میں ملوث لوگوں کے گلے میں گئورکشک کی تختی نہیں ہوتی۔ یہی وہ حمایت ہے جس نے گئوراکشسوں کے حوصلے بلند کردیے ہیں۔

عباس نقوی کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کاکوئی مجرم اپنے گلے میں تختی ڈال کر جرم کا ارتکاب نہیں کرتا لیکن اگر گائے کے نام پر برپا ہونے والی دہشت گردی کے ہرویڈیو میں غنڈے کھلم کھلا گئو بھکتی کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں بشرطیکہ نقوی جیسے لوگوں کی آنکھوں پر یرقانی پردہ نہ پڑا ہو۔ عباس نقوی جن کی بدنامی کو لے کر پریشان ہورہے ہیں ان میں سے 80 فیصد کو خود ان کے وزیراعظم جرائم پیشہ قرار دے چکے ہیں۔ سچ تو یہ گائے کے نام پر جاری و ساری دہشت گردی کا سیاسی فائدہ خود بی جے پی اٹھارہی ہے اس لیے کسی اور کو اس سے روکنے کا اسے کوئی اخلاقی حق نہیں ہے۔ مودی جی کے خیال میں ’’ یہ ٹھیک ہے کہ گائے کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے لیکن اس کے بہانے قانون کو ہاتھ میں لینے کا کسی کو حق نہیں۔ گئو رکشا کی آڑ میں بہت سے لوگ ذاتی دشمنی کے باعث قانون ہاتھ میں لے کر خوفناک جرائم کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی ضروری ہے‘‘۔وزیراعظم کے اس بیان سے گندی سیاست کی بدبو آتی ہے۔ یہ کیسی ذاتی دشمنی ہے کہ جس میں مارنے والے سارے ہندو اور مرنے والے سب کے سب مسلمان یا دلت ہیں۔ کیا ہندووں کی آپس میں ایک دوسرے کوئی دشمنی نہیں ہے ؟ اس طرح کی پشت پناہی سے قاتلوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور تشدد کی آگ پھیلتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مودی اور ان کے شاگرد نقوی کو پتہ ہونا چاہیے کہ ذاتی دشمنی متعینہ افراد کے درمیان کسی خاص سبب سے ہوتی ہے جیسا کہ بارہ بنکی میں بی جے پی کے رہنما سابق گرام پردھان پرہلاد شرن جیسوال کے خاندان پرپنچایت کے انتخابی رنجش کی وجہ سے شیوپال یادو نے حملہ کردیا۔ اس کا اطلاق پہلو خان اور حافظ جنید وغیر پر نہیں ہوتا جن پر اجنبی ہجوم نے بیف رکھنے کا نعرہ لگا کرحملہ کردیا۔ اس لیے’’ ملک کے مختلف حصوں سے آئے دن آنے والی تشدد کی خبروں ‘‘ پر وزیراعظم کی جانب سے افسوس کا اظہار نرا پاکھنڈ ہے اور حزب اختلاف کے رہنما کا یہ الزام صد فیصد درست ہے کہ جو باڑ کھیت کی حفاظت کے لیے لگائی گئی ہو اگر وہی فصل برباد کرنے لگے تو اس کا کیا فائدہ؟ مودی جی پر قدیم کہاوت صادق آتی ہے ’’باڑھ لگائی کھیت کو باڑ کھیت کو کھائے۔ راجہ ہوکر چوری کرے نیایہ کو کون چکائے؟‘‘

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply