گوجال !جہاں سے پاکستان شروع ہوتا ہے ۔۔۔۔سید مہدی بخاری

چار مرغابیوں کا غول اڑا اور دور برفپوش پہاڑوں کی طرف نکل گیا۔ ان کے اڑنے کے ساتھ خوشی بھی رخصت ہوئی۔ ہوٹل واپس پہنچے تک بھوک ستا رہی تھی۔ بوڑھے شخص نے بڑھ کر استقبال کیا اور بولا “حالات کے پیشِ نظر سیاحت کے متاثر ہونے کے بعد یہاں اب کبھی کبھار ہی کوئی بھولا بھٹکا آ جاتا ہے، تو میری بھی گزر اوقات کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ تم اس جھیل کی اچھی تصویریں لینا، اور دنیا کو دکھانا تا کہ سیاحت کو پھر سے فروغ مل سکے اور میرے بچوں کی روزی روٹی بھی لگی رہے، میں تمہیں مزیدار کھانا کھلاتا ہوں۔” بوڑھے کی اس رشوت پر آنکھ میں نمی اور لبوں پر مسکراہٹ پھیل آئی۔
وہیں ایک ڈینش لڑکی ملنے چلی آئی۔ بات چیت شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ پی ایچ ڈی کی طالبعلم ہے اور پاکستان میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں پر مقالہ لکھ رہی ہے۔ کہنے لگی کہ تین ماہ سے بورت جھیل پر ہوں۔ یہ جگہ اور جھیل اتنی پسند آئیں کہ ابھی تک واپس جانے کا دل نہیں کیا، اور یہں ایک کمرے میں پڑی اپنا گزر بسر خود کر رہی ہوں۔ پھر بولی “کیا تم نے پورے چاند کی رات میں اس جھیل کو دیکھا ہے؟ اگر نہیں تو تم یہاں رک جاؤ آج رات دیکھ کر جانا۔ مجھے یقین ہے کہ تمہیں ایسی تصویر پھر نہیں ملے گی۔”
میں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ مجھے جانا ہے اور میرے پروگرام میں یہاں رکنا نہیں۔ وہ بولتی ہی چلی جا رہی تھی۔ شاید تین مہینوں کا اسے ایک ساتھ بولنا تھا۔ میں اور جیپ ڈرائیور کھانا کھاتے اس کی باتیں سنتے رہے۔ چلنے لگے تو بولی “تمہارا ملک خوبصورت ہے، پَسو گاؤں جاؤ تو بتورا گلیشیئر ضرور جانا۔ میں نے وہاں سفید برفوں پر سفید رنگ کے راج ہَنس اُترتے دیکھے ہیں۔” میں نے اثبات میں سر ہلایا اور چل دیا۔
ڈرائیور نے چلتے چلتے حیرانی سے پوچھا “صاحب گلیشیئر پر راج ہَنس اُترتے ہیں؟ ہم نے تو کبھی نہیں دیکھے، ہمارا تو بچپن ہی اِدھر گزرا ہے۔” میں نے ڈرائیور سے کہا “وہ کوئی دیوانی تھی، اور دیوانے لوگوں کی دیوانگی میں گلیشیئر پر راج ہَنس کیا، کبوتر بھی اُتر سکتے ہیں اور تتلیاں بھی۔ میں نے بھی دریائے چناب پر جگنوؤں کے قافلے دیکھے تھے۔” ڈرائیور مسکرانے لگا اور مسکراتے مسکراتے پَسو گاؤں آ گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply