بدلتی کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور سرکاری جامعات

بڑا ہی مشہور فقرہ ہے کہ "یہ دورکمپیوٹر ٹیکنالوجی کا دور ہے اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی بہت تیزی سے بدل رہی ہے"۔ہم میں سے ہر ایک اس حقیقت سے آشنا ہے کہ یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے ہماری روز مرہ زندگی کو جس قدر آسان کر دیا وہ بھی سب کے سامنے ہے اور اس ٹیکنالوجی کو جس ملک نے سنجیدگی سے لیا آج وہ دنیا کے دوسرے ممالک کو عشروں پیچھے چھوڑتا ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے۔
جنوبی ایشیا میں بھارت نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو بہت عرصہ پہلے سنجیدہ لیا، اپنی جامعات میں اس کی گریجوایشن کے کورسسز شروع کروا دیے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارے ملک میں گنتی کے کمپیوٹر ہوا کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت آج دنیا میں سب سے زیادہ کمپیوٹر پروفیشنل پیدا کرتا ہے، وہ سافٹ وئیر ایکسپورٹ کی مد میں اسی ارب ڈالر سے زیادہ سالانہ کما رہا ہے۔ دنیا کی دو مشہور کمپنیز گوگل اور مائیکروسافٹ کے سی ای اوز بھارتی ہیں اور دنیا کی تمام بڑی آئی ٹی کمپنیز میں ہر سال سو سے زائد بھارتی سیلیکٹ ہو کر جاتے ہیں ۔
پاکستان نے آئی ٹی کو بہت دیر بعد سیریس لیا۔ سوائے چند ایک جامعات کے ملک میں موجود تقریباَََ تمام جامعات کے کمپیوٹر کے بی ایس پروگرامز بیس سال سے پرانے نہیں۔
پاکستان نے جب آئی ٹی کی دنیا میں سر اٹھانا شروع کیا تو ہمارے سامنے بہت بڑا چیلینج ہمارا ہمسایہ بھارت تھا۔ جو اوپر بیان کردہ وجوہات کی بنیاد پر ہم سے بہت بہتر تھا۔ مگر پاکستان نے حیرت انگیز طور پر آئی ٹی کی دنیا میں بھارت جیسا ہمسایہ ہوتے بھی بہت تیزی سے اپنا نام بنایا۔ دس سال پہلے تک امریکی اور یورپین جو ہمیں بھارت سمجھ کر کام دیتے تھے آج ہم ان کی نمبر ایک چوائس بنتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں موجود سافٹ وئیر ہاوسز اپنی ٹیکنالوجی، بہترین انجینئرز اور اعلی مارکیٹنگ صلاحیتوں کی وجہ سے بھارت کے بڑی کمپنیز کو مات دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ ملک خداداد کا وہ واحد شعبہ ہے جس نے پچھلے بیس سال کے بدترین انرجی بحران کے باوجود ترقی کی منازل طے کیں۔
مگر اب ہمارے سامنے ایک سنگین مسلہ ایک خطرناک اژدھے کی طرح پھن پھیلائے کھڑا ہے اور وہ ہے کمپیوٹر کے میدان میں قابل انفرادی قوت۔ آج ہمارے ملک میں کثیر تعداد میں موجود سرکاری و نجی جامعات کی اولین ترجیح کمپیوٹر سائنس میں طلبا کا داخلہ ہے اور اس کورس کی فیس دوسرے کورسز کے مقابلے میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ افسوس کا اصل مقام یہ ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر تمام سرکاری و نجی جامعات کا اس شعبے پر توجہ صرف اور صرف پیسے کا حصول ہے۔ ہمارے کمپیوٹر کے شعبے کے فارغ التحصیل طلبا بجائے ترقی کرنے کے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری جامعات کا کردار ہے۔ جامعات کا اصل مقصد صرف اور صرف پیسہ چھاپنا ہے۔ اساتذہ کا معیار، ان کا پڑھانے کا طریقہ، جدید کورسز سے لا علمی اور مارکیٹ اور جامعات کا دن بہ دن بڑھتا فرق اس خطرے کو مزید سنگین کئے جا رہا ہے۔ ملک کا سپریم ادارہ ایچ ای سی اس حوالے سے ستو پی کر سکون کی نیند سو رہا ہے۔
میں پچھلے تقریبا اڑھائی سال سے اپنی کمپنی کی طرف سے جامعات کے فارغ التحصیل طلبا کی بھرتی کے عمل میں شامل ہوں اور ہم کو دس سے پندرہ طلبا کو بھرتی کرنے کے لیے بھی بہت طویل عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کئی جامعات کے جاب فئیرز میں شرکت، ٹیسٹس کا انعقاد اور پھر انٹرویوز ڈرلز۔ چار پانچ سو طلبا کی چھانٹی کے بعد دس سے پندہ قابل طلبا ملتے ہیں جن میں ایک اچھا انجینئر بننے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اور میں یہ چند جامعات کی بات کر رہا ہوں۔ لاہور کی علاوہ تقریبا تمام سرکاری جامعات اور لاہور کی ہی ایک دو کو چھوڑ کر تمام نجی جامعات کا کردار اس حوالے سے کردار بہت تشویش ناک ہے۔ خصوصا سرکاری جامعات میں جس طرح میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر اساتذہ کی بھرتی کے عمل کے انجام دیا جاتا ہے اس کا انجام پھر پوری مارکیٹ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لاہور کے علاوہ کسی شہر کی کوئی سرکاری جامعہ ایسی نہیں جو مارکیٹ میں موجود جدید ٹیکنالوجی پر کوئی توجہ دے، اس حوالے سے کسی سیمینار کا انعقاد کرے، کوئی جاب فئیر ہو۔ اس کے نتیجے میں سرکاری جامعات کے درمیان ہی معیار کی ایک خلیج ہے جو بتدریج بھڑتی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں پاکستان کی کمپنیز صرف اس لئے زائد کام نہیں پکڑ رہی کہ ہمارے پاس قابل انجینئرز کی کمی ہے۔ اور میرے خیال میں پاکستان کا یہ واحد شعبہ ہوگا جس میں روزگار کے مواقع زیادہ ہیں اور لوگ کم۔ ارباب اختیار اس مسلے کو جتنی جلدی سنجیدگی سے لیں گے اتنا ہی نقصان کا خدشہ کم ہے۔ ورنہ ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں فارغ التحصیل ہوئے کمپیوٹر گریجوائٹ بھی آپ کو ایم بی ایز کی طرح ڈگری لیے سڑکوں پر دھکے کھاتے نظر آئیں گے۔

Facebook Comments

اویس قرنی
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”بدلتی کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور سرکاری جامعات

Leave a Reply to Prof Afzal Baig Cancel reply