سویلین بالادستی پرغیر جمہوری قوتوں کا حملہ

سویلین بالادستی پرغیر جمہوری قوتوں کا حملہ
ناصر منصور
نواز شریف اور ان کی حکومت پر مسلسل یلغار کیاواقعی ان کی بدعنوانی اور کرپشن کی بنا پر ہے یا پھر اس کے مقاصد اور اہداف کچھ اور ہیں ؟۔نظر، یہ آرہا ہے کہ جو کچھ دکھائی دیتا ہے حقیقت اس سے مختلف ہے ۔ اگر کرپشن ہی کا معاملہ تھا تو پھر اصغر خان کیس ایک ایسا پھندا تھا جو نواز شریف اور دیگر کرپٹ سیاسی عناصر کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لیے کافی تھا لیکن اس میں چونکہ سابق آرمی چیف،اورآئی ایس آئی کے سربراہ براہِ راست ملوث تھے اس لیے یہ کیس عدلیہ کی فائلوں میں کہیں دفن ہو گیا ۔موجودہ سیاسی بحران ہماری تاریخ میں پیوست ان بنیادی سماجی تضادات میں سے ایک ہے جس کا حل ہونا ابھی باقی ہے۔
منتخب سویلین قوتوں اور مقتدرہ غیر سویلین قوتوں کے درمیان جاری ریاستی کنٹرول کے لیے رسہ کشی کی جڑیں ہماری ابتدائی تاریخ میں پیوست ہیں ۔ یہ چپقلش کبھی مدہم چنگاری اور کبھی تندوتیز شعلوں کی صورت میں نمایاں ہوتی نظر آتی ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہو یا پھر ان سے پہلے ماضی بعید کی تاریخ میں سویلین وزیر اعظم کا قتل ،کئی ایک وزراء اعظم کی غیر آئینی طور پر برطرفی یا پھرغیر جمہوری انداز میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)حکومتوں کی جبراََبرخاستگی،بے نظیر بھٹو کا قتل ،نواز شریف کی جبری جلاوطنی ہو ،یہ سب اسی تضاد کا شاخسانہ ہے جس سے ہمارا سماج گزشتہ ستر برس سے دوچار ہے ۔پاکستان کے بڑے حل طلب سماجی وسیاسی تضادات میں سے ایک تضاد ملٹری اور سویلین کا ریاستی امور پر بالادستی سے متعلق ہے ۔سویلین اپنی بالادستی عوامی حمایت اور آئین میں درج اختیارات کی بنا پر حاصل کرنے کو حق بجانب قرار دیتے ہیں۔ جب کہ اسٹیبلشمنٹ عملاََ اس بالادستی کو تسلیم کرنے پر کسی صورت آمادہ نہیں۔غیر منتخب منظم مقتدرہ ادارے خود کو ریاست کا محافظ ،اندرونی وبیرونی حقیقی یا تراشے گئے خطرات سے بچاؤ کا واحد قلعہ تصور کرتے ہیں ۔ان کی نظر میں سویلین قیادت گو کہ عوام کے منتخب کردہ ہوتے ہیں لیکن ان کی حب الوطنی اور ریاست کو درپیش مسائل اور خطرات سے نبردآزما ہونے کی صلاحیتیں مشکوک ہیں ۔
ایک فوجی آمر نے جب پہلی بار 1958میں براہِ راست اقتدارپر غیر آئینی طور پرقبضہ کیاتو پھر اس کے بعدسے ملکی سیاسی تاریخ میں یہ غیر آئینی وغیر جمہوری عمل کئی بار دہرایا گیا ہے آج بھی وہ شرمندہ یا پشیمان نہیں ہیں ۔ اس کا سبب یہی ہے کہ آئین میں درج سب سے قبیح اور خطرناک جرم ہونے کے باوجود آج تک کوئی بھی فوجی آمر سزاوار نہیں ٹھہرایا جا سکا۔ جب کہ لیاقت علی خان سے لے کر نواز شریف تک سویلین حکمران ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتے چلے آ رہے ہیں ،کبھی وہ جان سے گئے اور اکثر اقتدار سے۔سویلین سے ان کے کردہ وناکردہ اعمال کا حساب عوام بھی مانگتے ہیں جن کا یہ حق ہے اور وہ بھی مانگتے ہیں جن کا یہ حق ہی نہیں بنتا ،سویلین پر قانون کی تلوار رکھنے والوں نے کبھی آئین سے کھلواڑ کرنے والوں، حمود الرحمان کمیشن میں موردِ الزام ٹھہرائے جانے والوں، افغان جہاد کے نام پر اربوں ڈالرز خرد برد کرنے اورجہاد کے نام پر بیرونی قوتوں کی ایماء پر آگ اور خون میں لوگوں کو نہلانے والوں،اوجڑی کیمپ المیے اور کارگل ایڈوانچر کے ذمہ داروں اور ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کو دبانے کو قانون نے قابل گرفت کیوں نہیں سمجھا ؟۔یہ سوال آج بھی جواب کا طلبگار ہے ۔بہر کیف سویلین قیادت نے اپنی تمام تر کوتاہ اندیشیوں، کم مائیگیوں اور کمزوریوں کے آئینی اختیارات اور ریاستی امور پر دسترس کی جائز خواہش کے لیے دامے، درمے، سخنے اپنی کوششیں ترک نہیں کیں اور یوں زینہ بہ زینہ اپنی کمزور پوزیشن کو مستحکم کیا ہے ۔1973کے آئین کی تشکیل اور بعد ازاں اس میں کی گئیںآمرانہ ترمیمات سے کسی حد تک گلو خلاصی اسی جانب پیش قدمی کا عندیہ دیتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ یہ سوال نہایت ہی اہمیت کا حامل بنایا گیا اور یہ اکثر زیرِ بحث رہا کہ سویلین قیادت کا متبادل فوجی قیادت ہے ۔ اس بیانیے کے علم بردار پوری قوت اور شدومد سے اس کا اظہار بھی کرتے تھے لیکن یہ بیانیہ اب بسترِ مرگ پر پڑا سسک رہا ہے اور اس کے ترجمان منہ چھپائے پھرتے ہیں یا پھر اپنے دکھوں کا مدوا آئینی اداروں اور آئینی قیادت کی خامیوں اور کوتاہیوں کو محدث عدسے کے ذریعے بڑا کر کے دیکھنے اوردکھانے میں مشغول رہتے ہیں لیکن سیاسی تاریخ کے مختلف ادوار میں ان سارے الزامات کی دھول بیٹھنے پر لیاقت علی خان ، حسین شہید سروردی،ذوالفقار علی بھٹو ،محمد خان جونیجو ،بے نظیر بھٹو اور آنے والے وقتوں میں نواز شریف کے نام پر اس طرح کے بدنما دھبے نہیں ہوں گے جیسے کہ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ،جنرل ضیا ء ،جنرل مشرف اور نسیم حسن شاہ قبیل کے ججوں کا بجا طور پر مقدر ٹھہریں گے ۔
سیاسی وسماجی تبدیلیاں ایک ارتقائی عمل ہے جو بتدریج اور مسلسل ترقی کے ارتقائی مدارج طے کر تاہے ۔ یہ عمل مسلسل آگے اور مزیدبہتری کی جانب بڑھے گا یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سویلین قیادت کا پلڑا بھاری ہوتا جائے گا ۔لیکن اس کے لیے بہت سی قربانیاں ناگزیر ہو جاتی ہیں۔ سویلین قیادت ریاست کے آئین کے تحت حاصل اختیارات کلی طور پر واپس چاہتے ہیں اور بے نظیر بھٹو یا نوازشریف بھی اس کا اظہار ہیں ۔لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو بھی اسی کا اظہار تھے ۔یہی صورتحال کل عمران خان
یا دوسری سیاسی قیادت کو بھی درپیش ہو سکتی ہے ۔عموماََ سیاسی قیادت کوچھاؤنیوں کی نرسریوں میں پروان چڑھنے والے پودے قرار دے کر مطعون کیا جاتا ہے لیکن ان نرسریوں کو
قائم کرنے والوں پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا کہ انہیں اس قسم کی نرسریاں بنانے کی ضرورت کسی آئین اور قانون کے تحت پیش آتی ہیں ۔سویلین اختیارات جو ظاہراََ منتخب سیاسی قیادت کے ہاتھ میں ہونے چاہیں وہ عرصہ دراز سے عسکری قیادت کے ہاتھ میں مرکوز ہیں ۔وہ ان اختیارات کے استعمال کے اس قدر عادی اور اس میں طاق ہو چکے ہیں کہ انھیں نئے حالات اور حقائق کی روشی میں میں آئینی حدودکو تسلیم کرنے میں ہتک نظر آتی ہے اوریہ آئین کی کتاب میں لکھی سویلین مطلق بالادستی کو حقیقی معنوں میں تسلیم کرنے کو ایک ڈراؤنا خواب تصور کرتے ہیں ۔
سویلین منتخب نمائندے مقتدرہ قوتوں کی جانب سے تعین کردہ ڈپٹی کمشنر اور کونسلر کے سے اختیارات بڑھ کر ریاستی پالیسیاں مرتب کرنے اور ان میں تبدیلیوں کا مکمل اختیارچاہتے ہیں ۔وہ پڑوسی ممالک خصوصاََ ہندوستان اور افغانستان سے متعلق پالیسی اور دیگرامورِ خارجہ پر کلی اور مکمل اختیار کے متمنی ہیں ۔وہ ریاستی بیانیے میں کئی ایک تبدیلیوں کے بھی خواہاں ہیں جو کہ شاید مقتدرہ قوتوں کے لیے نظری اور عملی طور پر قابلِ قبول نہیں۔ موجودہ حکومت پرتنقید ہے کہ اس نے اب تک اپنا وزیرِ خارجہ مقرر نہیں کیا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر خارجہ پالیسی اس کے ہاتھ میں ہے ہی نہیں تو مفلوج، عضوئے معطل اور نمائشی عہدے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔وزیرِ دفاع کی حیثیت کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ وہ دفاعی امور میں کس قدر باختیار ہے ۔ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ بے نظیر صاحبہ کے پہلے دورِ حکومت سے لے کر آج تک خارجہ امور سویلین قیادت کی دسترس سے باہر رہے۔مثال کے طور پر ریاست کا سب سے اعلیٰ ادارہ یعنی پارلیمنٹ کہتی ہے کہ سعودی سنی عسکری اتحاد کا حصہ نہ بنا جائے لیکن اس کے عین برعکس سابق آرمی چیف سنی ملٹری اتحاد کا سربراہ بن جاتا ہے اور آج سویلین قیادت کو پارلیمنٹ کے اس فیصلے کے اثرات کی تپش محسوس کرائی جا رہی ہے ۔ یہ کئی بار ہو چکا ہے کہ مقتدرہ حلقے ہر ایسی سویلین بالادستی کی کوشش کو ریاستی یکجہتی اور سلامتی پر حملہ تصور کرتے ہوئے ایک ایسے بیانیے کا سہارا لیتے ہیں جس کا جواز کچھ توسویلین حکمران اپنی نااہلی سے خود مہیا کرتے ہیں اور کچھ طلسمِ ہوشربا داستان تراش علم ودانش کے بھانڈ اپنا ہنر آزماتے ہیں ۔یہ اپنی شعبدہ گری سے ایسا منظر کھینچتے ہیں کہ عوام الناس ہی نہیں بلکہ بہت سے متحرک اور باشعور سیاسی کارکن بھی وقتی طور پر حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے فریبِ نظر کا شکار ہوکر سازشی لشکر کا حصہ بن جاتے ہیں۔
ایک وقت تھاجب سویلین بالادستی کے لیے آوازصرف بلوچستان،سندھ اور پختونخوا سے ابھرتی تھی تو ان کی حب الوطنی پر شک ( یقین کی حد تک) کا الزام آسانی سے تھونپا جا سکتا تھا ،انھیں غدار، انڈیا دوست اور مذہب دشمن قرار دینا عام تھا ۔ماضی کے سویلین قیادت تو رہنے دیجیے حال کے سویلین رہنماؤں اسفند یار ولی، اختر مینگل ، بے نظیربھٹو کو وطن دشمن ،انڈیا کا ایجنٹ ،مذہب دشمن اور ریاست کے لیے سیکورٹی رسک قرار دینا مقتدرہ حلقوں اور قوتوں کے لیے آسان اور مرغوب مشغلہ رہا ہے ۔لیکن سماج اور اس میں سیاست کے ارتقائی عمل نے پنجاب سے اٹھنے والی سیاسی سویلین قیادت کو بھی اسی زمرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ نواز شریف کو مودی کا ایجنٹ ،کشمیر کا سوداکرنے والا کہا گیا لیکن پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حالیہ انتخابات میں 90%نشستیں’’ مودی کے ایجنٹ‘‘ نے ہی حاصل کیں ۔لیکن پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے اب شاید اس طرح کے پروپیگنڈے سے اب پاکستان کے عام شہری اور خصوصاََ پنجابی عوام کو متاثر کرنا ممکن نہیں جیسا کہ ماضی میں آسانی سے کیا جا سکتا تھا۔حالات اور بدلتی صورتحال نے پنجاب میں اثر رکھنے والی سویلین قیادت کوبھی دیگر صوبوں سے اٹھنے والی سیاسی قیادت کی طرح باور کرا دیاہے کہ مشرف کے آئینی بساط پلٹنے کی گھڑی میں بحیثیت ادارہ عسکری قیادت نے کیا کردار ادا کیا اور پھر کس طرح نواز شریف اور دیگر سویلین قیادت کو نشانِ عبرت بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا گیا ۔کہا جاتا ہے کہ وہ تو نواز شریف کیس خوش قسمتی تھی کہ وہ پنجاب سے تعلق رکھتے تھے ورنہ اس کے جرائم اسے بھٹوز اور بگٹی بنانے سے نہیں روک سکتے تھے ۔ لگتا یہ ہے کہ نوازشریف اور اس کے سیاسی رفقاء نے مشرف آمریت کے دور میں وہ سب کچھ سیکھ کر ذہن نشین کرلیا ہے جو دیگر وفاقی اکائیوں کی سویلین قیادتوں نے نہ صرف بہت پہلے سمجھ لیا تھا بلکہ اس کا ناقابلِ تلافی ہرجانہ بھی ادا کیا ۔غیر جمہوری قوتوں کے لیے اب مشکل یہ ہے کہ اس بار پاکستان کی سیاسی قوت کے منبع یعنی پنجاب سے انھیں چیلنج درپیش ہے اور یہ ریاستی بیانیے کے ایک بڑے عنوان کے مقابل کھڑا ہے ۔ سیاسی قیادت سویلین بالادستی کے اپنے مقصد وموقف پر کسی حد تک ڈٹی ہوئی بھی نظر آتی ہے۔اسی لیے موجودہ سویلین قیادت کو بھی ماضی میں آزمائے گئے نسخے یعنی بدعنوانی، بد انتظامی اور پروپیگنڈے کے طوفانِ بدتمیزی کے ذریعے دباؤ میں لا کر رضاکارانہ طور پر اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے ۔منتخب سویلین قیادت نے آخری حد تک مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا ہے جوسویلین بالادستی کی جاری جنگ کو مزید طاقت وتوانائی فراہم کرے گی ۔
سویلین بالادستی کا منبع آئین اور پارلیمنٹ ہے جب کہ اس آئینی اور قانونی بالادستی سے مسلسل دستبرداری کے لیے مختلف ادوار پر مختلف طریقہ کار اختیار کیے گئے ۔کئی بار براہِ راست حاضر ڈیوٹی جنرلوں نے سویلین کو گھر بھیج دیا ۔یا پھر صدور کی پشت پر کھڑے رہ کر 52Bکے تحت سویلین اختیار کو روندا گیا اور اب عدالتی اختیار کو وسیع کرتے ہوئے اس بڑھتے ہوئے سویلین بالا دستی کے خطرے کو چیلنج کیا گیا ہے ۔لیکن قدر مشترک یہ ہے کہ ہر بار سویلین قوت کی نمایاں علامت پر حملہ ہوا ہے ،اس پرہر بار کرپشن کا الزام لگا ہے ، اسے ہندوستانی حکمرانوں کا دوست اور ملکی سیکورٹی کے لیے رسک قرار دیا گیا ہے ۔یہ جو کچھ آج قانون کی بالا دستی کے نام پر ہو رہا ہے وہ اس سے پہلے فوجی آمر اور صدور کرتے رہے ہیں۔ یہ سویلین بالادستی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کا تسلسل اورایک نیا محاذ ہے ۔ بے نظیر بھٹو جیسی سیاسی شخصیت کو سیاسی منظر نامے سے ہٹا دیے جانے کے بعد شاید نواز شریف
وہ واحد نمایاں سیاسی علامت ہے جو سیاست کے دشت کی سیاحی میں مقتدرہ قوتوں کے عزائم کے مقابل جم کر مزاحمت کرنے کے قابل ہوچکے ہیں ۔آنے والے انتخابات میں ان
کی کامیابی کے امکانات سویلین بالادستی مخالف قوتوں کو مزید خوف میں مبتلا کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔
نواز شریف کے خلاف قائم JITمیں ISIاورMIکی موجودگی اور رپورٹ میں مشترکہ طور پر منتخب سویلین قیادت کے خلاف چارج شیٹ کیا مقتدرہ اداروں کی کھلی جانبداری کی طرف اشارہ کرتی ہے؟۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب سپریم کورٹ محمد خان جونیجو کی برطرفی کے خلاف فیصلہ دینے جا رہی تھی تو اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے سنیٹر وسیم سجاد کے ذریعے عدالت کو جونیجو حکومت بحال کرنے سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ انتخابات کرانے جا رہے ہیں ۔تو کیا موجودہ آرمی چیف اس ساری صورتحال میں خفیہ ادارے کے نمائندوں کومتنازعہ JITکا حصہ بننے سے روکنے میں کون سا امر مانع تھا ؟۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اس طرح کے ہر قضیے میں سابقہ فوجی جنرلز جو آج کل تجزیہ کاروں کے روپ میں میڈیا پرمنتخب سویلین قیادت سے اپنی شدید نفرت کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے یہ اسی بنیادی تضاد کی علامتیں ہیں جو ہماری ریاست کو درپیش ہے۔
آج بہت سی سیاسی قوتوں کو نواز شریف کے طرزِ سیاست اور ماضی قریب کے غیر جمہوری طرزِ عمل پرشدید تحفظات ہی نہیں بلکہ جائز شکایات بھی ہیں کہ انھوں نے سابقہ وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے خلاف چوہدری کورٹ میں کالا کوٹ پہن کر سویلین بالادستی کی علامت کی تذلیل کی ،میمو گیٹ کی آڑ میں سویلین قوتوں پر حملہ آور وں کے ہمنوا بنے ۔اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج جمہوریت اور جمہوری قوتیں زیادہ مستحکم اور مضبوط ہوتیں ۔لیکن یہ وقت بدلہ چکانے اور سویلین بالادستی کی علامت پر حملہ آوروں کے غول میں شامل ہونے کا نہیں بلکہ پچھلے منصوبہ بند دھرنوں کو ناکام بنانے جیسے مشترکہ ردِ عمل کامتقاضی ہے تاکہ جمہوری ارتقائی عمل کو پرامن طور پر 2018کے انتخابات تک لے جایا جا سکے۔
اگر ماضی میں نواز شریف کے منفی کردار پر تنقید کی جارہی ہے تو آج ویسا ہی منفی کردار ادا کرنے والوں کو بھی مستقبل میں ایسی ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا ۔جمہوری عمل کا تسلسل ہی سویلین بالادستی کی ضمانت ہے اور سویلین منتخب قیادت کو آئین میں درج طریقہ کار سے ہٹ کر گھر بھیجنے کا ہر عمل عوام الناس کے لیے قابلِ قبول نہ ہو گا۔ سویلین قیادت کی آئینی بالادستی کا مرحلہ طے ہونے کے بعد سماج کے دیگر تضادات کا عقدہ تیزی سے کھل کر سامنے آسکتا ہے جو انقلابی قوتوں کو کھل کر نظریاتی اظہار کا موقع اور بورژوا سویلین حکمرانوں کے مقابلے میں نئی عوامی جمہوری اور قومی سیاسی صنف بندیوں کا موقع فراہم کرے گا ۔

Facebook Comments

ناصر منصور
محنت کی نجات کے کوشاں ناصر منصور طالبعلمی کے زمانے سے بائیں بازو کی تحریک میں متحرک ایک آدرش وادی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply