آئیےمیٹرک میں ٹاپ کرتے ہیں۔۔۔۔سخاوت حسین

پچھلے کچھ دنوں سے پاکستان کے مختلف تعلیمی بورڈ میں میٹرک کے نتائج کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ ان نتائج کے اعلانات کے بعد طلبا مختلف رویوں کا شکار نظر آرہے ہیں۔ پچاسی فی صد نمبر لینے والے بھی ویسے ہی اداس ہیں جیسے ساٹھ فی صد لینے والے۔ اس کی وجہ پوچھی جائے تو کہتے ہیں کہ میرٹ بہت بڑھ چکا ہے۔ ایف ایس سی کے لیے اچھے گورنمنٹ کالج میں داخلہ نہیں ملتا۔ لہذا ہزار نمبروں سے کم نمبر لیں تو ایسے لگتا ہے جیسے چالیس فی صد نمبر لیے ہیں۔

مملکت عزیز میں میٹرک کے رزلٹ کے بعد ہر طرف ہزار داستان شروع ہوجاتی ہے۔ جسے دیکھو ، ہزار کے ہندسے کو ہاتھ میں لیے کھڑا ہے۔ ہماری ترقی کی اس سے زندہ مثال کیا ہوگی کہ ہمارے طلبا طوطے کی طرح “رٹا” لگا کر میٹرک میں ہزار سے زیادہ نمبر تو لے لیتے ہیں مگر عملی اور ریسرچ سٹڈیز میں ہم مائنس سے بھی نیچے ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم زراعت میں بھی قابل قدر کارنامے سرانجام نہیں دے سکے۔ وہاں بھی ہم دوسرے ممالک کی مشینریز اور بیجوں کےمحتاج ہیں۔ اس کی وجہ دیکھی جائے تو  ایسا لگتا ہے جیسے ہم صرف نمبر گیم کے لیے میٹرک اور ایف ایس سی تک تعلیم دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارا طالب علم بے سمت ، مختلف سمتوں میں چکر لگاتا ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ کوئی اینٹ بھی اٹھاؤ  نیچے سے ہزار کا ہندسہ نکل آتا ہے۔ جس طالب علم  سے پوچھو یہی کہتا نظر آتا  ہے کہ ایک ہزار اتنے نمبر لئے۔ ہم نے ہزاری تو پیدا کرلئے مگر ان ہزاری کو معیاری نہیں بنا سکے۔ اسی لیے آج ہمارا ماسٹرز کرنے والا چند ہزار روپوں کی ملازمت کے لیے روز سڑکوں پر خوار ہوتا ہے۔

آج کا طالب علم ٹیپ ریکارڈر ہے۔ وہ طوطا ہے۔ وہ صرف وہی پڑھ سکتا ہے جو کتاب پر چھپا ہے۔ علم جیسے دماغ کےبند ڈربوں میں بند ہوگیا ہے۔ ہم سوچ سے عاری نسل پیدا کر رہے ہیں۔ آج کا طالب علم سوال نہیں کرتا۔ وہ غور نہیں کرتا۔ افسوس جو غور کرتا ہے۔ وہ اس سسٹم کے ساتھ چل  نہیں سکتا ۔ سکولوں اور کالجوں میں طالب علموں کو یہی سکھایا جاتا ہے کہ وہ رٹا لگائیں۔ زندگی میں پہلی بار یہ منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ طالب علم میٹرک میں اچھے نمبرز لینے کے لیے ریاضی جیسے عملی مضمون کو بھی رٹا لگا رہے تھے۔جس سے ہماری تعلیمی سمت کا اور علمی قبلے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہماری تعلیمی ترجیحات کیا ہیں۔

یہاں جس طالب علم کو دیکھو  وہ انٹری ٹیسٹ کی دوڑ میں لگا ہے۔ جس اکیڈیمی کو دیکھو۔ بہترین نسل کی دعوے دار ہے۔ ہر گلی میں ایک سکول ہے اور ان سکول میں ڈھیروں بچے پڑھتے ہیں مگر کتنے پڑھے لکھے نکل رہے ہیں یہ سب سے بڑا سوال ہے۔؟ ہم سائنس میں کہاں کھڑے ہیں۔؟ ہم ٹیکنالوجی میں کہاں کھڑے ہیں۔؟ ہم ریسرچ میں کہاں کھڑے ہیں۔؟ یہی طالب علم جو ہزار نمبر لیتا ہے یہاں تک کہ بہترین گریڈ میں ایم بی اے کرنے کے بعد ساری زندگی سسٹم کو کوستا رہتا ہے۔ اس کے پاس کوئی ہنرہی نہیں۔ اداروں نے اسے ٹیپ ریکارڈر تو بنا دیا ہے مگر انسان نہیں بنایا۔ اس میں فیصلہ کرنے کی قوت ہی پیدا نہیں کی گئی۔ اسے حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں سکھائی گئی۔ افسوس کے ساتھ ہم غور کریں اور دیکھیں ان ہزار نمبروں کو ہم دنیا میں کہاں رکھیں  گے کہ ہمارا طالب علم کل اپنی  دنیا خود بنا سکے۔

اگر ایڈیسن، آئن سٹائن ، نیوٹن اور ایسے ہزاروں دنیا کی تقدیر بدلنے والے افراد سینکڑوں سالوں بعد ہمارے ہاں پیدا ہوتے تو کیا کر رہے ہوتے۔ شاید نالائق ، نکمے فلاں کے بیٹے نے اتنے نمبر لیے اور تم یہ گریڈ لائے ہو جیسی باتیں سن رہے ہوتے اور اتنی باتیں سن کر وہ بھی کسی کونے میں مقدر کو رو رہے ہوتے اور اعلی گریڈ والوں کو حسرت سے تکتے رہتے۔ کیا ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم اپنا تعلیمی قبلہ درست نہیں کریں گے۔ کیا ہم مملکت عزیز کو حقیقی علم و دانش کا گہوارہ نہیں بننے دیں گے۔ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں کیسے پاکستان کی ضرورت ہے۔ پڑھے لکھے دنیا کی آنکھ سے آنکھ ملاتے پاکستان کی یا بے شعور ، ملازمت کی خاطر دربدر ہونے والے اور دوسرے ممالک کو حسرت سے تکنے والے پاکستانیوں کی۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے اور جلد کرنا ہےکہ ہم کس سمت جائیں گے۔ پڑھے لکھے پاکستان کی یا ایسے نعرہ کی طرف جو عنقریب ہر گلی اور محلے کی چھوٹی بڑی اکیڈیمی کےجلی حروف میں لکھا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“ہمارے پاس آئیے اور اعلی نمبروں سے میٹرک کیجئے۔ کیوں کہ ہماری اکیڈیمی کے بچے ہی اکثر بورڈ کے امتحانات میں ٹاپ کرتے ہیں۔”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply