• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • عمران و وزیر اعظم کا کیس،آمدن،ذرائع اور متعلقہ دستاویزات

عمران و وزیر اعظم کا کیس،آمدن،ذرائع اور متعلقہ دستاویزات

عمران و وزیر اعظم کا کیس،آمدن،ذرائع اور متعلقہ دستاویزات
طاہر یاسین طاہر
ہماری سیاسی تاریخ کئی المیوں اور المیہ سازوں سے بھری پڑی ہے۔سیاست میں وفاداریاں نہیں صرف مفادات ہوتے ہیں۔مثلاً ذوالفقار علی بھٹو آمر جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ پھر ان ہی کے خلاف یوں کھڑے ہوئے کہ پاکستانی سیاسی تاریخ انگشت بدنداں ہے۔ اسی طرح آمر جنرل ضیا الحق نے جب نواز شریف کو لانچ کیا تو یہ دونوں کردار کے بھی ایک دوسرے کے دست و بازو بنے۔ ایک مرحلے پر ضیاالحق نے کہا تھا کہ نواز شریف کا کلہ مضبوط ہے۔ضیاالحق کی موت کے بعد 17 اگست،والی کئی برسیوں میں فیصل مسجد اسلام باد کو گواہ بنا کر نواز شریف نے ان جملوں کی تکرار کی کہ میں جنرل ضیاالحق کا مشن مکمل کروں گا۔
وہ اسی مشن میں ل؛گے ہوئے تھے کہ 12 اکتوبر کا کو ہو گیا۔کئی کردار جنرل مشرف کو سو مرتبہ بھی وردی میں صدر منتخب کروانے کے لیے متحرک تھے۔آج مگر کہین نظر نہیں آرہے۔ حتی کہ جنرل مشرف کی خوشنودی کے حصول کے لیے شریف کو کرپٹ، غدار اور چور کہنے والے آج ایک بار پھر شریف خاندان کی ترجمانی پہ معمور ہیں۔یہ ہماری سیاسی تاریخ کی تکلیف دہ جھلک ہے۔ہمارے ہاں یہ شیوہ ہے کہ مخالف سیاسی کرداروں پر جھوٹے مقدمے قائم کروائے جائیں، ان کی کردار کشی کی جائے اور صرف خود کو ہی محب وطن ثابت کیا جائے۔واقعی امر یہی ہے کہ دودھ کا دھلا کوئی نہیں۔ سب انسان ہیں اور سب غلطیاں کرتے ہیں، ہاں جب کوئی قومی سطح کا کردار جھوٹ بولتا ہے تو بین الاقوامی سطح پر نہ صرف اس ایک شخص بلکہ پوری قوم کی مجموعی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ایک شخص اپنے بھاری بھر کم مینڈیٹ کے ساتھ پوری پاکستانی قوم کی نمائندگی کا دعویدار ہوتا ہے۔
پانامہ لیکس کے بعد ،جب کہ دنیا کی نامور شخصیات سمیت پاکستان کے حکمران خاندان،اور 400 دیگر افارد کے نام بھی اس پانامہ لیکس سکینڈل میں آئے تو اپوزیشن نےا س پہ زبردست احتجاج کیا۔چونکہ وزیر اعظم کے خاندان،ان کے بچوں کا اس سکینڈل میں نام تھا، تو انھوں نے اپنے خاندان اور بچوں کے دفاع کے لیے یکے بعد دیگرے قوم سے خطاب کیا، پارلیمان کو اعتماد میں لینے کوشش کی، مگر فی الواقع، لندن فلیٹس اور دیگر مالیاتی سکینڈلز کے حوالے سے میاں صاحب، ان کے بچوں، ان کی بیگم اور ترجمانوں کے بیانات میںاس قدر تضادات تھے کہ کوئی بھی مطمئن نہ ہو سکا۔پی ٹی آئی کی قیادت کو البتہ یہ کریڈت ضرور جاتا ہے کہ وہ اس کیس کو سپریم کورٹ لے گئے۔یہاں سے اس کیس کا نیا عدالتی و سیاسی مرحلہ شروع ہوا۔حکومت کی تقریباً ساری مشینری حکمران خنادان کے دفاع میں جت گئی اور ایسی ایسی پریس کانفرنسز دیکھنے اور سننے کو ملیں کہ رہے نام اللہ کا۔
حکومتی ترجمانوں و وکلا کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ احتساب صرف نواز شریف ان کے بچوں کا ہی کیوں؟ جبکہ آف شور کمپنیوں میں 400 پاکستانیوں کے نام آئے ہٰن جن میں ایک حاضر سروس جج صاحب بھی ہیں، معترضین کا کہنا یہ ہے کہ نواز شریف چونکہ حکمران ہیں تو اصولی طور احتساب کی شروعات ان ہی سے ہونی ہے۔ جے آئی ٹی سے کیس کی موجودہ صورتحال تک کئی اتار چڑھائو آئے۔اسی اثنا میں راولپنڈی سے مسلم لیگ نون کے رہنما، جن پہ کہ ایفی ڈرین کا مقدمہ چل رہا ہے، انھوں نے عمران خان کی آمدن،ان کی آف شور کمپنی، بنی گالہ جائیدار وغیرہ کے حساب کے لیے کیس دائر کر دیا۔ یوں ردعمل مٰن دائر کیا جانے والا کیس بھی اب سماعت ہو رہا ہے۔گذشتہ سے پیوستہ روز عمران خان نے عدلات مین یہ تحریری بیان دیا کہ ان کی منی ٹریل نا مکمل ہے۔
اس پہ نون لیگ ،اور ان کے حواری بہت شاداں ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ دوسروں کی چوریوں پکڑنے والا خود چور نکلا۔جبکہ عمران خان نے وضاحت کی ہے کہ ان کا اور وزیراعظم نواز شریف کا کیس ایک جیسا نہیں ہے جیسا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کو اپنی آمدنی کے تمام ذرائع اور متعلقہ دستاویزات فراہم کر دی ہیں۔وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی ٹیکس چوری نہیں کی اور نہ ہی منی لانڈرنگ کی۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنا پیسہ پاکستان سے باہر کمایا اور وہیں ٹیکس ادا کیا جبکہ بیرون ملک آمدنی سے ہی انہوں نے بنی گالہ کا گھر خریدا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پی ٹی آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے قائدین چور ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں سب ہی چور ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عوام ان پر بھروسہ کرتے ہیں اور انہیں پیسہ دیتے ہیں جس کی مدد سے پاکستان میں 2 شوکت خانم ہسپتال قائم کر لیے گئے جبکہ ایک زیر تعمیر ہے۔عمران خان نے اپنے کرکٹ کرئیر میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کی کاؤنٹی کرکٹ ٹیموں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا انہوں نے 1977 میں انگلش کاؤنٹی سسکس اور 1984 میں آسٹریلوی کاؤنٹی نیو ساؤتھ ویلز کے ساتھ معاہدے کیے اور یہ تمام تفصیلات انہوں نے سپریم کورٹ میں جمع کرادیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر کوئی لندن میں ان کی ٹیکس تفصیلات کے بارے میں جاننا چاہتا ہے تو انگلینڈ چلا جائے جہاں انہیں انگلینڈ کے محکمہ ان لینڈ ریونیو سے ان کی ٹیکس اور آمدن کی تفصیلات حاصل ہو جائیں گی پی ٹی آئی کے سربراہ نے واضح کیا کہ ان کا ایک روپیہ بھی پاکستان سے باہر نہیں جبکہ شریف خاندان کی جائیدادیں ملک سے باہر ہیں۔
امر واقعی یہ ہے کہ بے شک عمران خان اور وزیر اعظم صاحب کے منی ٹریل کیس کی نوعیت مختلف ہے۔اگرچہ عمران خان اپنی منی ٹریل کے نا مکمل ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ انھون نے زیادہ تر پیشہ باہر سے کمایا اور کاونٹی کرکٹ سے حاصل ہونے والی رقم بینک کے ذریعے اکاونٹ میں آتی تھی جس پر سے ٹیکس کاٹ لیا جاتا تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان پہ، یہ الزام ہے کہ انھوں نے منی لانڈرنگ کی؟ اور بحثیت حکمران قومی خزانے کی مدد سے اپنے اثاثوں میں اضافہ کیا؟ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ وہ کبھی بھی حکمران نہیں رہے۔ البتہ بنی گالہ کی جائیداد، کیسے خریدی اور ادائیگی کیسے ہوئی؟اس پر ٹیکس ادا ہوا یا نہیں؟اور یہ کہ پارٹی کے لیے حاصل ہونےو الی فنڈنگ وغیرہ پر ان سے مکمل حساب لیا جائے،کہ بالآخر وہ اب ایک قد آور سیاسی رہنماہیں اور انھیں قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply