• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • حکومت محاذ آرائی کا سوچے بھی نہ۔۔۔طاہر یاسین طاہر

حکومت محاذ آرائی کا سوچے بھی نہ۔۔۔طاہر یاسین طاہر

موضوعات بے شمار ہوتے ہیں ،سیاسیات،حالات حاضرہ اور انسانی سماج کی نفسیات کے طالب علموں کے لیے تو لمحہ لمحہ سینکڑوں موضوعات جنم لیتے ہیں۔اخبار نویسی اور شے ہے دانش وری چیز ِ دگر۔ سارے اخبار نویس سمجھتے ہیں کہ وہ دانش ور ہو گئے حالانکہ بیشتر تعصب اور ترجمانی کا کام کرتے ہیں۔ چند ایک ہیں جو زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہونے کی سعی کرتے ہیں اور اپنے فہم کو ریاضت میں لاتے ہیں۔سوشل میڈیا نے کئی جہان کھولے۔ہر سماج کا اپنا مزاج ہوتا ہے،ہر قوم اپنے علاقائی اثرات کے تحت پروان چڑھتی ہے۔ہمارا کام مایوسی پھیلانا نہیں بلکہ سماج کو ایسی راہ کا مسافر بنانا ہے جہاں چیزوں کو تصوراتی بنا پر دیکھنے کے بجائے عقلی اور واقعاتی انداز میں دیکھا جانا رواج ہو جائے۔یہی اس سماج کی منزل ہونی چاہیے۔تقابل کرتے ہوئے عدل کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔کیا کسرتی بدن والے کسی پہلوان کا تقابل کسی نحیف آدمی سے کیا جا سکتا ہے؟کیا کسی جاہل کا موازنہ کسی عالم سے کیا جا سکتا ہے؟کیا ٹرک ڈرائیور کا تقابل کسی سکول ٹیچر سے کرنا انصاف ہے؟چیزیں اپنی اصل اور تسلسل کے ساتھ ہی دیکھی جائیں تو نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
ہم مگر تصوراتی جہان کے بےکلیم لوگ ہیں۔بت بناتے ہیں اور اسے پوجنا شروع کر دیتے ہیں۔اس سماج کے تین چار بڑے بت ہیں۔بھٹو،نواز شریف،اور اب عمران خان۔مذہبی طبقہ الگ سے اپنی اپنی شخصیات کے سحر میں “جنت” کا طلب گار ہے۔کیا بھٹو اور نواز شریف کا تقابل انصاف ہے؟ قطعی نہیں، کہاں بھٹو کا سیاسی فہم اور کہاں نواز شریف؟کیا عمران خان کا موازنہ بھٹو سے ممکن ہے؟ بالکل بھی نہیں؟ عمران خان کو اور طرح کے حالات کا سامنا ہے، بھٹو کو اور طرح کے سیاسی ماحول کا سامنا تھا۔بھٹو موجودہ وزیر اعظم سے اپنے سیاسی فہم میں بلند تھے۔ وزیر اعظم عمران خان کو زبردست ،”آزاد” اور سخت گیر میڈیا کا سامنا ہے جبکہ بھٹو یا نواز شریف اس آفت سے محفوظ رہے۔ بھٹوکے زمانے میں تو پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستا ن کے سوا تھا ہی کیا؟ نواز شریف جب تیسری بار وزیرا عظم بنے تو کئی پرائیویٹ چینل اور اخبارات اپنے”پھن”پھیلائے ہوئے نظر آئے۔نوز شریف سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت نے انھیں جھیلا اور اپنے عہد کے آخری سالوں میں جنرل مشرف نے بھی۔اب تو سوشل میڈیا نامی چڑیل الگ سے کھانے کو دوڑتی ہے۔ایسے میں کسی بھی حکومت کے لیے مناسب رویہ یہی ہوتا ہے کہ وہ کئی ایک محاذ کھولنے کے بجائے اپنے اہداف پہ نظر رکھے اور سماج کی بہتری کے منصوبوں پر تیز رفتاری سے کام کرے۔
مجھے حیرت ان افراد پر ہے جنھوں نے سائیکل کا سفر بھی نہ کیا مگر وہ جمع تفریق ہیلی کاپٹر کے اخراجات پر کر رہے ہیں۔بے شک عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ گاڑی کے بجائے ہیلی کاپٹر بہت زیادہ مہنگا ہو گا۔لیکن جس انداز میں ہیلی کاپٹر کے سفر ی اخراجات کی توضیح پیش کی گئی اس سے حکومت اور ترجمان دونوںکی سبکی ہوئی۔ بھلا ہو بی بی سی اردو کا کہ کچھ اعداد و شمار دیے ، جس سے ثابت ہوا کہ سفر سہل بھی ہے اور مناسب بھی۔فضول خرچی، عیاشی اور استحقاق بالکل الگ چیزیں ہیں۔اے کاش سوشل میڈیا کے بے رنگ لکھاری حقائق کو بھی ایک نظر دیکھ لیا کریں۔ اے کاش ٹی وی چینلز کے تجزیہ کار ریٹنگ کے بجائے درست تجزیہ کی طرف توجہ دیں، اے کاش اخبار نویس ترجمانی کرنے کےآسان مگر ندامت آور کام سے باز آجائیں۔بھلا یہ کوئی معاملہ ہے بحث کرنے کا کہ وزیر اعظم ہائوس سے بنی گالہ تک ہیلی کاپٹر پر کیوں سفر کیا جا رہا ہے؟مجھے اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارا میڈیا سماج کی درست رہنمائی نہیں کر پا رہا۔بلکہ پروپیگنڈائز اور مختلف افراد و سیاسی گروہوں کے ایجنڈے کو لے کر تجزیاتی رپورٹس،خبریں اور”پیشن گوئیاں” نشر و شائع کرتا ہے۔دو چار دن تو اسی بات پر لگا دیے گئے کہ وزیر اعظم نے عید کی نامز کیوں نہیں پڑھی؟ یا کہاں پڑھی؟حالانکہ سماج کے اصل ایشوز یہ نہیں۔
ملک میں بجلی کا بحران ہے،ہمیں سوال اٹھانا چاہیے کہ گذشتہ حکومت کی مبینہ پیدا کی ہوئی بجلی کدھر گم ہو گئی؟یا گذشتہ حکومت کا جو بجلی سپلائی کا سسٹم تھا کیا اس میں تبدیلی کر دی گئی؟ یعنی ریگولر بل ادا کرنے والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کم ہوتی تھی اور لائن لاسز والے علاقوں میں زیادہ۔ کیا اب سب کو ایک لائن میں کھڑا کر دیا گیا؟پچاس لاکھ گھروں کی تکمیل کیسے ہو گی؟ کروڑوں نوکریاں کس طرح پیدا کی جائیں گی؟ اور کیا ان کی سمت متعین کر دی گئی ہے؟ کیا ان وعدوں کی طرف پیش قدمی شروع ہوئی ہے جن کی بنا پر ووٹ لیے گئے؟ملکی معیشت کی بہتری کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جانے والے ہیں؟ یہ اور اسی نوع کے دیگر موضوعات ہی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہونے چاہئیں تا کہ حکومت اپنا توازن اپنے اہداف کی طرف قائم رکھے۔ہیجان خیزی،الزام تراشی،سیاسی مقدمہ بازیاں اور انتقامی کارروائیاں تو اس سماج کے دائمی مسائل ہیں۔ ان سے ذرا بلند ہو کر معاشرے کی بہتری کے لیے ہم سب کو یکجا ہونا چاہیے۔مجھے حکومت سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے؟ کہ اس حکومت کی ڈرائیونگ ٹیم میں بھی بیشتر پرانے چہرے ہیں، وہی پرانے چہرے جو ان مسائل کا سبب ہیں۔ لیکن کیا وزیر اعظم نوجوانوں کی امیدوں پر پورا اتر سکیں گے؟ اس کے لیے ابھی سے کسی معجزاتی تبدیلی کی امید کے بغیر حکومت کو کم از کم ایک سال کا وقت تو دیں کہ وہ اپنی سمت کا تعین کر سکے۔ اور ہاں حکومت کے شہ دماغ بھی ہر محاذ پر حاضر ہونے کے بجائے اپنے کام پر توجہ دیں۔بہتری کی شروعات تو ہو سکتی ہیں مگر بہتری ابھی بہت دور ہے، یہی ابھی تک کا زمینی سیاسی رویہ ہے۔کیا حکومتی ترجمان جذباتیت اور طاقت کے ملے جلے جذبات کو یکجا نہیں کر رہے؟ایسے میں شور شرابہ تو سننے اور دیکھنے کو مل سکتا ہے،بہتری نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پسِ تحریر: میرے گذشہ کالم” وزیر اعظم کی نماز عید پر غیر ضروری تبصرے” پر کوئی صاحب الزام نگار ہوئے کہ یہ کالم کسی دوسرے کا لکھا ہوا ہے،بلکہ انھوں نے لکھا کہ روزنامہ جنگ میں یہ کالم کسی دوسرے کالم نگار کے نام سے شائع ہوا۔۔ انھوں نے یہ صریح جھوٹ بولا۔نماز عید والا میرا کالم 24 اگست کو اسلام ٹائمز،اور 25 اگست کو روزنامہ دنیا/روزنامہ اذکار میں شائع ہوا، جبکہ 26 اگست کو روزنامہ اوصاف میں شائع ہوا۔عید کی چھٹیوں کے بعد پاکستان میں 25 اگست کو اخبارات شائع ہوئے،اور 25 کو میرا کالم روزنامہ دنیا میں شائع تھا۔۔ اگر اس تاریخ کے بعد کسی کالم نگار نے کسی دوسرے اخبار میں اپنے نام سے بالفرض شائع کرایا تو ثابت یہی ہوتا ہے کہ بعد میں شائع کرانے والے نے نقل کیا، نہ کہ وہ نقال ہے جس کا پہلے شائع ہوا۔۔ الزام نگار کو اپنے ضمیر کی عدالت میں نادم ہونا چاہیے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply