ترک صدر کی آمد اور لاہور میں کرفیو!!

ترکی جو ماضی میں مسلم امہ کا لیڈر، خلافت عثمانیہ کا علمبردار اور دور حاضر کا جدید ترین ملک ہے۔ ترکی کے برصغیر کے مسلمانوں سے تعلقات کوئی نئے نہیں ہیں۔ اس خطے کے لوگوں کا ماضی میں خلافت عثمانیہ سے جذباتی اور مذہبی لگاؤ تھا۔ جب خلافت خطرے میں آئی تو برصغیر کے مسلمانوں نے تحریک خلافت چلائی۔ خلافت کا خاتمہ اور مصطفی کمال کی مذہب سے بیزاری نے مسلم امہ کو سعودیہ کی جانب جھکاؤ پر مجبورکیا ۔ لیکن وقت گزرتا گیا اور ترکی معاشرے میں ایک ایسے شخص کا ظہور ہوا، جو عوامی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک راسخ العقیدہ مسلمان بھی ہے۔ اردگان نے اس وقت اقتدار سنبھالا جب ترکی کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ ترکی کرنسی گر چکی تھی، اور لوگ آپس میں دست گریبان تھے لیکن اس مرد سیاست و معاشرت نے آج دنیا کے سامنے ترکی کو مضبوط ریاست بناکر کھڑا کردیا۔ ایک ایسی ریاست جو دوبارہ سے مسلم امہ کی قیادت کے لیے تیار ہے۔
ترک صدر نے آج اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا جس میں ماضی کو بھی خوب بیان کیا اور حال پر بھی بات کی، ترک صدر نے پاکستان کے ساتھ دوستی پر فخر اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے کردار کا یقین دلایا۔ انہوں نے داعش کو غیر اسلامی اور غیر انسانی قرار دیتے ہوئے ، مغرب پر تنقید کی کہ یہ سب مغرب کی سازشوں کے نتائج ہیں۔ ترک صدر نے مسلم امہ کے اتحاد پر زور دیا۔ ترک صدر کے خطاب کے مندرجات کا مختصر اًظہار کردیا گیا لیکن افسوس اس بات کا ہے۔ اس سارے دورے میں پاکستانیت کی کمی اور پنجابیت ہر طرف نظر آرہی ہے. ہر طرف پنجابی قیادت نظر آرہی ہے۔ ترک صدر ریاست پاکستان کےمہمان ہیں لیکن رویوں سے یہ پنجاب کے زیادہ مہمان نظر آرہے ہیں۔
یہ بات بھی درست ہے کہ میاں فیملی کے اردگان سے ذاتی تعلقات ہیں، لیکن ذاتی تعلقات کو دوام بخشنے کے لیے ریاست پاکستان کے وسائل ہی کیوں؟ اگر اردگان واقعی ہی ریاست پاکستان کے مہمان ہیں تو دوسرے صوبے سے کوئی لیڈر کیوں نظر نہیں آرہاہے؟ کیا سندھ میں حکومت نہیں ہے؟ کیا پختون خواہ کا کوئی وزیراعلیٰ نہیں ہے یا پھر بلوچوں کی نمائندگی نہیں ہے؟ ذاتی تعلقات کو سیاست میں لانا اور پھر سیاست کو ایک صوبے تک محدود رکھنا، میرے نزدیک ن لیگ کبھی وفاق کی علمبردار جماعت نہیں ہوسکتی۔ ن لیگ کی قیادت میں پنجابیت ابھی بھی ختم نہیں ہوسکی، جس سے چھوٹے صوبوں میں احساس کمتری بڑھ رہا ہے۔ یہ احساس کمتری انارکی کو فروغ دے رہا ہے جو آگے چل کر وفاق کے استحکام کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔
ترکی صدر کی لاہور آمد سے پہلے ہی دن تین بجے مال روڈ کا بند کردیا گیا۔ جس سے عوام کو خاصی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ترک صدر کی لاہور آمد اہل لاہور کے لیے زحمت بن چکی ہے، کیونکہ مال روڈ پر اس وقت کرفیو کا سماں ہے۔ یہ ایک ایسا روڈ ہے جو ائیر پورٹ اور پورے لاہور سے ملحقہ سڑکوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ اب سول یہ اٹھتا ہے کہ اس روڈ کی بندش سے اگر کوئی مریض چل بسا اسکا ذمہ دار کون ہوگا؟ کیونکہ مئیو ہسپتال کا راستہ اسی روڈ سے ہوکر گزرتا ہے۔ترک صدر کے اعزاز میں شاہی قلعہ(حضوری باغ) میں عشائیے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جس میں پنجاب کی اعلی ٰشخصیات کی شرکت ہے۔ لیکن افسوس دوسرے صوبوں کی نمائندگی نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال پر کیا شاعر نے خوب کہا ہے!
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں!!!

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply