پاکستان کی تاریخ۔۔جان محمد دے دس کھرے!

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک گاؤں کے باہر جان محمد نامی بابا رہا کرتا تھا۔بابے نے اپنا ایک آستانہ بنایا ہوا تھا۔ اور اردگرد کے دیہات میں”پِیر صاحب” کے نام سے جانا جاتا تھا۔اس کے پاس روزانہ گردونواح سے خواتین اور دیگر لوگ تعویز وغیرہ لینے آتے تھے۔
ایک روز قریبی گاؤں سے ایک عورت آئی اور آتے ہی فریاد کرنے لگی کہ بابا جی۔ ۔ ۔ میں اپنے شوہر کے ہاتھوں بہت تنگ ہوں۔ کوئی ایسا تعویز دو کہ اس سے میری جان چھوٹ جائے۔بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھی۔ لیکن چرب زبان عورت دہائی دینے کے ساتھ ساتھ کہنے لگی کہ اگر پیر صاحب نے اس کی مشکل کا حل نہ کیا تو وہ اپنی جاننے والی ہر عورت کو یہ کہے گی کہ پیر صاحب تو ڈھونگ ہے۔ دو نمبر ہے۔

یہ سن کر بابا جان محمد بہت تلملایا۔ لیکن جلد ہی معاملے کی نزاکت کو سمجھ گیا کہ ایک عورت کا پروپیگنڈا کسی بھی طاقتور میڈیا سے بڑھ کر طاقتور ہوتا ہے۔ اس کی تو مریدنیاں بھی زیادہ تر عورتیں ہی تھیں۔ اگر یہ عورت اپنے کہے پر عمل کرتی ہے تو اس کا تو کاروبار ہی ٹھَپ ہو جائے گا۔جان محمد نے بہت دیر تک سوچا۔ کہ آخر کس طرح وہ اس عورت کو ٹالے کہ مال بھی کما لے اور عزت بھی رہ جائے۔ کافی دیر سوچنے کے بعد اس کے ذہن میں ترکیب آئی۔ اس نے عورت کو کہا کہ وہ گھر چلی جائے۔ تعویز ایک ہرکارے کے ہاتھ بھیج دیا جائے گا۔۔۔۔شام کو جان محمد نے عورت کے خاوند کو اپنے آستانے پر بلوایا۔ اور دوسری طرف اپنے ایک خلیفہ کو تعویز دے کر شوہر کی غیر موجودگی میں عورت کے گھر بھیج دیا۔

اس عورت کا شوہر جب آستانے پر حاضر ہوا۔ تو جان محمد نے اسے علیحدگی میں بتایا کہ کس طرح اس کی بیوی اس سے جان چھڑوانا چاہتی ہے۔بابے نے مطالبہ کیا کہ اگر اسے پانچ روپے سکہ رائج الوقت پیر صاحب کو عنایت کر دیے جائیں۔ تو پیر صاحب اس کی بیوی کو تعویز نہیں دیں گے۔اُس دور میں پانچ روپے بھی بہت زیادہ ہوا کرتے تھے۔ خاوند نے کڑوا گھونٹ بھر کے جان بچانے کی خاطر پانچ روپے پیر صاحب کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔اُدھر پیر کے خلیفہ صاحب تعویز لے کر عورت کے گھر پہنچے ہوئے تھے۔ خلیفہ نے عورت کو کہا کہ اس تعویز کو کسی ایسے بستر میں چھُپا دو جو کبھی استعمال میں نہ رہتا ہو۔ ساتھ ہی خلیفہ نے کہا کہ تعویز کا ہدیہ دس روپے ہے۔ عورت پہلے تو بہت سٹپٹائی پھر گھر میں جو کچھ تھا اکٹھا کر کے پانچ روپے بنا جو اس نے خلیفہ کے حوالے کیے اور تعویز کسی بوسیدہ بستر میں دبا دیا۔

کچھ دن بعد پِیر صاحب کے حکم پر خلیفہ اور اس کے چیلوں نے اس عورت کے خاوند کو اغواء کیا اور کسی ایسے عربی ملک میں لے جا کر بند کر دیا جہاں سے واپس آنا ناممکن تھا۔ ۔۔۔عورت نے شوہر کی گمشدگی کو پیر صاحب کے تعویز کا کمال سمجھا۔ اور چند دن دنیا کو دکھانے کے لیے رو پِیٹ کر شکر ادا کرنے لگی کہ شوہر سے جان چھوٹی۔اب ایسی باتیں بھلا عورتوں سے کہاں چھُپتی ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں ہر طرف غلغلہ ہونے لگا کہ بابا جان محمد نے اس عورت کو تعویز دیا تھا جس کی وجہ سے اس کا شوہر مر گیا۔بات نکلتے نکلتے پولیس تک جا پہنچی۔ پولیس والے عوامی ردعمل سے مجبور ہو کر بابا جان محمد کے پاس جا پہنچے اور الزام کی انکوائری کی تو بابے نے کہا کہ یہ مجھ پر الزام ہے۔ پہلے اس عورت کے مکان کی تلاشی لے کر دیکھ تو لیا جائے کہ میں نے تعویز پر کیا لکھا تھا؟

پولیس فوراً عورت کے گھر پہنچی۔ تلاشی لینے پر تعویز برآمد ہوا جسے کھول کر دیکھا گیا تو اس پر لکھا ہوا تھا۔ ۔ ۔”تیرا کھسم مرے نا مرے۔ ۔ ۔ جان محمد دے پَنج کھرے”۔تعویزبہرصورت پیر صاحب کے جرم کی نفی کرتا تھا۔پولیس نے کافی دیر تفتیش کرنے کے بعد تعویز لینے کی وجہ سے شک کی بنیاد پر گرفتار کر لیا۔ اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔دوسری طرف جب اس واقعہ کی گونج چہار دانگ پھیلی تو پیر صاحب کے پاس دھڑا دھڑ سائیلین آنے لگے۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ یہ سب پیر صاحب کی کرامت ہے۔ کہ تعویز کا اثر بھی ہوا اور انہیں کوئی پکڑ بھی نا سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا کاروبار پہلے بھی زیادہ چمک اٹھا۔ اور جان محمد کے روز کے دَس کھرے ہونے لگے۔

کہانی کو ذرا پھیلا کر دیکھا جائے تو پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں مختلف کردار۔ ۔ ۔ اس کہانی میں نظر آئیں گے۔
سمجھ لیجیے کہ جان محمد عرف پیر صاحب کسی”طاقتور” ادارے سے منسلک کوئی ایسے صاحب ہیں جن کا ہمیشہ سے اپنا مخصوص ایجنڈا رہا ہے۔ اور وہ ہر وقت ہر قسم کے حالات میں اپنے دس کھرے کرنے کے چکر میں نظر آتے ہیں۔دوسری جانب اس عورت کو اپوزیشن۔ ۔ ۔ خاوند کو حکومتی وزیر اعظم اور خلیفہ سمیت چیلے چانٹوں کو عدل و انصاف کے علمبردار سمجھ لیا جائے۔ تو پاکستان کی پوری سیاست اس ایک کہانی میں واضح ہو جائے گی۔ معلوم ہو گا کہ یہ کہانی صرف ایک بار بار نہیں پاکستان کی تاریخ میں بار بار دہرائی جا رہی ہے۔

ہمیشہ سے ہی عورت کے بھیس میں اپوزیشنز جان محمد جیسے طاقتور”بابوں” سے اپنی حکومتوں سے گلوخلاصی کے لیے رجوع کرتی رہی ہیں۔ اور یہ بابے۔ ۔ ۔ان کی جلد بازی اور بے صبری سے فائدہ اٹھا کر براہ راست یا بالواسطہ طور پر اپنے”دس” کھرے کرتے رہے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ بے صبری کا مظاہرہ کرنے والی اپوزیشن بھی ایک نا ایک دن مکافاتِ عمل کا شکار ہو کر اس عورت کی طرح جیل کی چکیاں پیستی ہے۔رہ گئی عوام۔ ۔ ۔ تو لگتا ہے انہوں نے تاریخ میں بار بار دہرائی جانے والی اس کہانی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بلکہ الٹا ہر بار”بابوں” کی چالاکیوں کو کرامات جان کر ان ہی کے در پر سوالی بنتے نظر آتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نتیجہ یہ کہ جمہوریت نامی گھر بار بار اجڑتا رہا ہے۔ اور تب تک اجڑتا رہے گا۔ جب تک کہ عورت نما اپوزیشن صبر وتحمل سے کام نا لے۔ اور “بابے” لوگوں کو مارنے کا سرٹیفیکیٹ دینے اور دَس کھرے کرنے کی بجائے اپنے کام۔ ۔ ۔ اللہ اللہ کرنے پر توجہ نہ دیں۔۔۔۔سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہے۔ ناسمجھ کہانی کا لطف اٹھائیں۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”پاکستان کی تاریخ۔۔جان محمد دے دس کھرے!

Leave a Reply to Sajjad Cancel reply