خود کلامی۔۔۔فوزیہ قریشی

وہ چاہتا ہے میں اسے چاہوں
لیکن ! “میں کیا چاہتی ہوں؟”
اِس بات سے، اُسے کوئی غرض نہیں۔
وہ چاہتا ہے کہ جیسے وہ کہے، میں کروں۔
لیکن! “میں کیا کرنا چاہتی ہوں؟”
اِس بات سے بھی، اُسے کوئی غرض نہیں۔
وہ مُجھ سے چاہے جانے کا حق مانگتا ہے.
لیکن! “اُس کا فرض کیا ہے؟
اِس بات سے، اُسے کوئی غرض نہیں۔۔
وہ کہتا ہے، مجھے کرنے دو، جیسے بھی میں کرنا چاہتا ہوں۔
لیکن ! “پھر وہ مجھ سے توقعات کیوں رکھتا ہے؟”

میں جانتی ہوں۔
ہاں! میں بھی، “جانتی ہوں”
وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔
لیکن! یہ ضروری تو نہیں کہ مجھے بھی اُس سے محبت ہو جائے۔۔
“پھر میں محبت کیسے کر لوں؟”
وہ بھی صرف اُس کی غرض اور چاہت کی خاطر۔۔
یہ بھی جانتی ہوں کہ ہم جِسے چاہتے ہیں۔ اُس سے بھی چاہت کی اُمید لگا بیٹھتے ہیں ۔۔۔
اُس کے نہ ملنے پر بے چین اور بے تاب بھی رہتے ہیں۔ اس کے دُھتکارنے پرہماری انا کو ٹھیس بھی پہنچتی ہے۔۔
جانتے ہو! چاہے جانے کی خواہش، “چاہنے سے بھی زیادہ دل فریب ہوتی ہے”۔
میں چاہتی ہوں کہ وہ یہ جاننے کی بھی زحمت گوارہ کرے کہ
“آخر میں کیا چاہتی ہوں؟
کاش وہ سنے کہ “میں کیا چاہتی ہوں؟
سنو! پلیز، مجھے سنانا ہے۔۔۔ کچھ بتانا ہے۔۔۔
تم سنو یا نہ سنو،
لیکن! میں، تمہیں بتانا چاہتی ہوں۔
میں چاہتی ہوں کہ “تم میری چاہت میں پاگل ہو جاؤ، گلیوں میں نکل جاؤ، اپنے کپڑے پھاڑ لو۔۔۔۔۔
ہاں! کپڑے پھاڑ لو، بالکل مجنوں کی طرح۔۔۔۔
لوگ تمہیں پاگل، جنُونی سمجھ کر دُھتکاریں پتھر ماریں۔۔۔۔
تم لہُو لہان ہو جاؤ تاکہ تُمہارے بدن سے رِِسنے والا خون مجھے یقین دلا سکے کہ تمہاری محبت سچی ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سنو! میں چاہتی ہوں کہ تم رانجھے کی طرح تخت و تاج ٹُھکرا کر میری مَجیں (بھینسیں) چَرانے آجاؤ۔ میرے چاچے قیدُو کی بکواس سنو۔
میرے لئے بانسری پر مِیٹھے مِیٹھے سُر ترتیب دو۔۔میں تمہاری بانسری کی َمدُھر دُھن میں گُم ہو جاؤں۔۔۔۔
چلو! ایسا کرو تم میرے لئے فرہاد بن جاؤ اور دُودہ کی نہر کھودو۔۔۔
تمہارے ہاتھ بنجر پہاڑوں کو ریزہ، ریزہ کرتے جب لہُو لہان ہو جائیں اور تھکن کے عالم میں جب تم اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھوتو تمہارے چہرے پر رَتی بھر بھی شِکن نہ ہو۔۔۔
سنو، ایسا کرو! تم سوھنی کی طرح کچے گھڑے پر دریائے جناب پار کرکے مجھے ملنے آؤ۔۔۔
ہاں!
لیکن!! پُنوں کی طرح بے وفائی مَت کرنا کہ مجھے لوگوں سے یہ سننا پڑے۔
“نی سسئیے بے خبرے تیرا
لُٹیا شہر بھنبور”
کیا تم اپنی محبت کو ثابت کر سکتے ہو؟
کیا تم میری ہی زندگی میں۔۔
میرے لئے تاج محل بنواسکتے ہو؟
موت کے بعد اس مقبرے کا میں کیا کروں گی؟
کیا تم میری خاطر پُل صراط پار کر سکتے ہو؟
نہیں کر سکتے نا
کیونکہ یہ سب کتابی باتیں ہیں۔
ہم چاند ستارے توڑنے کے دعوے تو کر سکتے ہیں۔۔
لیکن!! چاند کوئی پھل نہیں کہ تم ہاتھ بڑھا کر پیڑ سے اُچک لو گے اور نہ ہی ستارے تمہارے آنگن میں کِھلے موتیے کی حسَین کلیاں ہیں کہ جنہیں تم چُن کر میرے قدموں میں ڈھیر کر دو گے یا میرے جوڑے میں لگا دو گے۔۔۔۔۔۔۔
جانتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا ممکن نہیں ہے
لیکن !! پھر کیوں یہ خیال کبھی کبھی میرے دل میں آتے ہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”خود کلامی۔۔۔فوزیہ قریشی

  1. ہاہاہا یہ محبت ہو نہیں سکتی ۔ ویسے آجکل کچھ اسی طرح کی صورت حال ہے۔ جس کا مجھے experience ہو چکا ہے ? مگر چاہت اسکی بہت عجیب سی تھی ۔ جسسے آجتک میں سمجھ نہیں پایا۔ اکثر ہم چاہت کرتے ہیں اور پھر اسے محبت کا نام دے دیتے ہیں ☺

Leave a Reply to Naveed Ahsan Cancel reply