ایک نظر ادھر بھی۔ احمد ہاشمی

نظام سیاست کا ایک وقیع لیکن سادہ سا عنصر جمھوریت ھے جس کے معنی کاروبار ریاست میں عوام کی رائے کا احترام ھے۔ برصغیر میں کالونیل ازم کے توسط سے قومی ریاستوں اور جمھوریت سے عام لوگ متعارف ھوئے تو جھاں قومیت پرست اپنائی گئ وھاں جمھوریت بطور طرز حکومت اپنانے پر بھی توجہ دی گئ ۔پاکستان میں جمھوری اقدار پنپ سکیں یا نا پنپ سکیں ۔یہ ایک الگ موضوع بحث ھے ۔زیر نظر مضمون اس بات پر توجہ دلانے کی کوشس ھے کہ سیاست اور سازش کی اس گرم بازاری میں بحیثیت شھری ھماری سیلف ڈویلپمنٹ کس حد تک ضروری ھے ۔ابراھم لنکن کا مشھور قول لوگوں کی حکومت لوگوں کے کے لئے لوگوں کے زریعے زبان زد عام بات ھے لیکن اس پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات ھرشخص کو اتنا ھی زمی دار بناتی ھے جتنا کہ ریاستی عناصر کو -اگر جمھوریت سے اپ تمامتر فوائد حاصل کرنا چاھتے ھیں توبحیثیت شھری ھم پر بھی بھت سی زمہ داریا ں عائد ھوتی ھیں -کیا کبھی ھم نے سیاستدانوں کا احتساب کرنے کے ساتھ ساتھ تنھائ میں بیٹھ کر اپنے اپ سے احتساب مانگا ۔اگر مانگا تو سچ سچ بتائے گا اپ کے اندرونی محتسب نے کیا جواب دیا ..ھم زیادہ تر اس بات کا زکر تک نھیں کرتے ،ھم میں سے اکثر اس بات کا لوگوں کو بات کا پتا ھی نھیں کہ بحیثت ایک ملک کے شھری ھونے پر ھماری کیا زمہ داریاں ھیں ۔اس میں ایک خاص حد تک حکومتیں بھی زمہ دار ھیں جنھوں نے کبھی اس بات کو یقینی نھیں بنایا کہ عوام کو اس حد تک باشعور بنایا جائے کہ وہ اپنی زمہ داریوں سے اگاہ ھو سکیں کیونکہ اگر عوام باشعور ھوگئے تو کل کلاں وہ پھر ووٹ کا انتخاب بھی مکمل شعور کے ساتھ کریں گے ۔
ھندوستان کے سٹیٹ کمشنر سیلش گاندھی اپنی ای میل کا اختتام ان الفاظ سے کرتے ھیں ”
‏My india is not great but the fault lies with me ”
اس کی انھوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں بھت خوبصورت انداز میں وضاحت کی کہ “ھمیں ایسے نعرے اور ایسے دعوے بھت زیادہ اپیل کرتے ھیں جس میں ھمیں کچھ نا کرنا پڑے لیکن کوئ کھیں سے چھڑی گمھائے اور سب بھتر ھو جائے جیسا کرپشن ختم کردو ،تھانہ کلچر ،صحت اور تعلیم کا نظام بدتر ھو چکا ھے وغیرہ وغیرہ ۔ھم میں سے ھر کوئ روزانہ 5 گھنٹے صرف شکایت ھی کرتا رھتا ھے کسی نا کسی بدانتظامی کی۔لوگوں سے جب پوچھا جاتا ھے کہ کیا اس سے کچھ بدلا کیا ..؟جواب اتا ھے کہ نھیں ! پوچھا جائے کہ کیا اس سے کچھ بدل سکتا ھے ..؟کھتے ھیں نھیں ! تو پھر یہ سوچنا چاھئیے کہ خالی شکایت کا کیا فائدہ ..؟ھر وقت شکایت کرنے سے تو کھیں بھتر ھے کہ ھر مھینے میں دو گھنٹے کم ازکم یہ سوچیں کہ ھم اپنے ملک کے لئے کیا کر سکتے ھیں .ھم پر جو زمہ داریاں عائد ھوتی ھیں کیا ھم ان کو پوری طرح سے ادا کر پا رھے ھیں اگر نھیں تو پھر غلطی حکومت کی نھیں ھم سب کی ھے ۔”ھم اپنی زمہ داری قبول کرنے سے کترا رھے ھیں ۔پانچ سال میں ایک دفعہ ووٹ ڈالنیے کے بعد ھماری زمہ داری ختم نھیں ھو جاتی بلکہ مزید بڑھ جاتی ھے کہ ھم اس بات کا جائزہ لیں کہ گزشتہ ادوار میں وہ کونسی کوتاھیاں ھیں جو ھم تواتر سے کرتے ارھے ھیں جن کی وجہ سے ھمارے مسایل حل نھیں ھو پا رھے ۔
بادی النظر میں یہ تمام باتیں مضحکہ خیز معلوم ھوتی ھیں کہ جس ملک میں اتنے مسائل ھوں وھاں پر شھریوں کی زمہ داریوں کا تعین اس انداز سے ھوپائے کہ ھر شخص اپنے فرایض سے نبرد ازما ھوپائے بظاھر ناممکن لگتا ھے ۔اصل حقیقت یہ ھے کہ عوام کی کردار سازی ان کی قیادت قومی ادارے کرتے ھیں اور ان کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ھیں ۔ھمارے ھاں کے سول سوسائٹیز جو ائے دن لایعنی ایشوز پر بحث اور مباحثہ کا بازرا گرم رکھتی ھیں ان کو چاھئے حقیقی مسائل پر بھی توجہ دیں اور بحیثیت شھری جو زمہ داریاں ھم پر عائد ھوتی ھیں ان کے بارے شھریوں کی تربیت کے لئے لائحہ عمل تشکیل دیں ۔عوام کو تربیت کا سچا شعور دینے کے لئے فکری ،عملی ،سیاسی اور تھذیبی قیادت کی صحتمندانہ خطوط پر نشونما حد درجہ ضروری ھے

Facebook Comments

احمد ھاشمی
احمد ھاشمی انجئنرنگ کے آخری سال کے طالبعلم ھیں .مزھب ،فلسفہ اور سماجیات زاتی دلچسپی کے میدان ھیں .وہ موضوعات جنھیں عام طور پر زیر بحث نھیں بنایا جاتا ان پر طالبعلمانہ انداز میں روشنی ڈالنے کی کوشس کرتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply