بات تو سچ ہے ۔مگر

میرا ملک واقعی بڑا زرخیز ہے ۔جہاں روز نت نئے تماشے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ہر تماشے کو تماش بین خوب انجوائے کرتے ہیں۔اور جب خوب مکمل سیر ہوجاتے ہیں۔ پھر اس پر بھانت بھانت کے تبصرے شروع ہوجاتے ہیں۔اس پیارے ملک میں روز ایک نیا چٹکلہ ہوتا ہے۔کچھ دن اس پر خوب سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے ۔لیکن پھر بھی لاحاصل ہی رہتی ہے ۔ابھی اس تماشے کی گونج ختم نہیں ہوتی کہ اک نیا شوشہ سر پر کھڑا ہوتا ہے۔پہلے پہل ہم اپنے بڑوں سے سنتے آئے تھے کہ یہ حکومت کسی مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیئے عوام کے سامنے اک نیا بکھیڑا کھڑا کر دیتی ہے اور اس پرانے ایشو سے توجہ ہٹا کر اس نئے مسئلے پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔
کچھ ایسا ہی اب بھی ہوا ہے ۔حال ہی میں ریمنڈ ڈیوس کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے ۔جس میں موصوف نے اپنی گرفتاری سے لیکر رہائی تک کی داستان کو بہت ہی شرارتی انداز میں قلم بند کیا ہے۔یہاں شرارتی کا صیغہ اس لیئے لگانا پسند کیا کہ ،عوام اس کتاب کو پڑھ کر بجائے کوئی عملی قدم اٹھانے کے مطلب حکمرانوں کے خلاف سراپائے احتجاج ہوتی ۔لیکن افسوس قوم اس کتاب کو اس طرح پڑھتی رہی جیسے ،ڈاکٹر یونس بٹ کے لکھے ہوئے شرارتی چٹکلے ہوں۔مطلب عوام کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔قوم کے ساتھ اتنا بڑا ہاتھ ہوگیا۔حکمرانوں کی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے اور ہم ہیں کہ ایک دوسرے کو چٹکیاں بھر رہے ہیں ،اور خوب لطف اندوز ہورہے ہیں۔ویسے عوام کو کیا دوش؟بحیثیت قوم ہم سب ایک ہی جیسے ہیں۔اس ملک میں 70 سال سے کیا کچھ نہیں ہورہا۔ہم سب صرف تماش بین ہیں جو تماشہ دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔اور تماشہ ختم ہونے کے بعد اپنی راہ لگتے ہیں۔
آج قوم بغلیں بجا رہی ہے کہ دیکھو ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں کیا کیا لکھا ہے۔ہمارے حکمرانوں نے خون کا سودا کیا ہے ۔کیسے ایک شخص ،دو لوگوں کو مار کر آسانی سے اپنے ملک چلا گیا ؟لیکن یہاں بات دو لوگوں کے قتل تک محدود نہیں۔بات اس سے بھی بہت آگے تک کی ہے ۔ایسا پہلے بار نہیں ہوا کہ ہم نے ایک شخص کو دوسرے ملک کے حوالے کردیا ،اور وہ بھی ایک قاتل کو ۔اس سے پہلے بھی ہم کئی لوگوں کو امریکہ کے حوالے کرچکے ہیں۔یوسف رمزی،ایمل کانسی،عافیہ صدیقی،ملا عبدالسلام ضعیف۔حالآنکہ ملا عبدالسلام ضعیف افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں ایک وزیر تھے اور پاکستان میں سفیر کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔
پاکستانی حکومت نے ان لوگوں کو امریکہ کے حوالے کردیا گیا۔اگر ان پر کوئی الزام تھا تو ان پر یہاں مقدمہ چلایا جاسکتا تھا کیونکہ سوائے عبدالسلام ضعیف کے سب پاکستانی تھے۔اور ایک دوسرے ملک کے وزیر کو کیسے آپ نے دوسرے ملک کے حوالے کردیا۔لیکن افسوس ہم ڈالروں کے نشے میں اپنی اقدار کھو چکے ہیں۔ایک امریکی جج کے ریمارکس ہم پاکستانیوں کے بارے میں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔افسوس تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں کا کیا دھرا ہے۔کیا جرنیل۔کیا جمہوریت۔سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ اب اگر ایک شخص سات سمندر پار سے کوئی کتاب لکھ بھیج رہا ہے،اور اس میں ہمارے بزرجمہروں کے چہرے سے نقاب ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے تو اس میں مضائقہ ہی کیا ہے۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply