ہولو کاسٹ میوزیم واشنگٹن ۔۔۔۔عبیداللہ چوہدری

This Museum is not an answer. It is a question?

واشنگٹن کے تقریباً  وسط میں ہولو کاسٹ میوزیم ہے۔ مجھے کئی پاکستانیوں نے اسے وزٹ کرنے کا مشورہ دیا جو بظاہر اس عالمی سانحے کے شدید مخالف تھے اور ان کا موقف تھا کہ یہودیوں سے بڑا ظلم ہوا۔ ایک صبح تیار ہو کر نکل پڑا ۔ شہر میں پارکنگ بڑا مسئلہ اور مہنگی بھی تھی تو ایڈوائس کے مطابق Virginia Square کے میٹرو اسٹیشن کے قریب ایک پارکنگ پلازہ میں گاڑی پارک کی اور دیکھنے لگا کہ اب انڈر گراؤنڈ میٹرو اسٹیشن کہاں ہے۔ بظاہر کچھ نظر نہیں آ رہا تھا کچھ تگ و دو کے بعد زیر زمین راستہ نظر آ ہی گیا۔ برقی سیڑھیوں کے ساتھ ہی ایک پاکستانی کا سٹریٹ سٹال تھا ۔۔۔۔ Credit cared is accepted only 10$ plus perches. میں حیران تھا کہ کریڈٹ کارڈ مشین بھی ہے اس کے پاس۔ عام طور پر چھوٹے کاروباری ( Immigrants) امریکہ میں صرف کیش پر ہی کاروبار کرتے ہیں تا کہ ٹیکس بچا کر اپنے آبائی ملک میں بیوی بچوں کا خرچہ پورا کر سکیں۔

سیڑھیاں نیچے اترا تو زیر زمین ایک نئی دنیا تھی۔ وہ دنیا جو واقعی ہالی ووڈ کی فلموں میں ہی نظر آتی ہے۔ الیکٹرانک مشین سے ڈے پاس خریدا اور نقشہ لیئے دو سٹوری نیچے اسٹیشن پر کھڑا ہو گیا۔ ریڈ لائن۔بلیو لائن، سلور لائن اور اورنج لائن کی کنفیوژن ابھی باقی تھی کہ ڈائریکشن کا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ مشرق، مغرب، شمال اور جنوب بے معنی سے ہو گئے تھے۔ اپنے استاد ڈاکٹر Iqbal Ahmad Khan کا سبق یاد آیا کہ Literate وہ نہیں ہوتا جو پڑھ سکتا ہے بلکہ Literate وہ ہوتا ہے جو کسی پروڈکٹ کا مینول پڑھ کر اسے استعمال بھی کر سکے۔ سارے سائن بورڈ پڑھے اور سلور لائن پر بیٹھ کر 12 ویں اسٹیشن L’Enfant Plaza پر اتر کر اپنے Literate ہونے کا ثبوت دیا اور خود کو شاباشی بھی۔ زیر زمین ٹرین کا یہ نظام Athens (یونان) سے مشابہت رکھتا ہے اس کا تجربہ بھی کافی کام آیا۔ اسٹیشن سے باہر نکلا تو ایک بات سمجھ آ گئی تھی کہ اگر راستہ پوچھنا ہے تو کسی پکے امریکی سے پوچھیں ۔۔۔ باقی تو پوچھنے پر صرف منہ دیکھتے رہتے ہیں۔ اور امریکی بھی کون سا فورا ً بتا دیتے ہیں۔ پہلے غور سے سنتے ہیں پھر اپنا فون اٹھا کر گوگل پیر سے پوچھتے ہیں اور جب یقین ہو جائے کہ صحیح راستہ معلوم ہو گیا ہے، پھر تسلی سے آپ کو سمجھانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ دیسی سے اس لئے بھی پوچھنا زیادہ سود مند نہیں ہوتا ۔۔۔۔ کیونکہ انکا پہلا مقصد ہوتا ہے ڈالر کمانا! اور “فضول” خرچ کرنے کی جگہوں خصوصا ً میوزیم کا انہیں کم ہی معلوم ہوتا ہے۔

اب بات آگے بڑھاتے ہیں۔ ایگریکلچر کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پھر دوسرا سرکاری ڈیپارٹمنٹ دیکھنے میں بالکل ایک جیسے مگر بورڈ اور بلڈنگ نمبر مختلف۔ ایسے میں ہمارے جیسے جو بلڈنگ دیکھ کر راستہ یاد کرتے ہیں کی سائنس فیل ہو جاتی ہے اور پھر کام آتا ہے گوگل پیر۔۔۔۔ کئی بلاک گزر کر اب سامنے ہی ہولو کاسٹ میوزیم کھڑا تھا جس پر یہ بورڈ لگا تھا۔

American and the holocaust…. special exhibition.

راستہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اور گواچ گواچ کر جب منزل پر پہنچا تو ریسپشن ڈیسک سے ٹکا سا جواب ملا کہ آج کے دن کے سب پاس ختم ہو چکے۔ مگر منت کام آ گئی اور ادھیڑ عمر “جوان” نے انڈردی ٹیبل ایک پاس پکڑا کر کہا کسی کو بتانا نہیں۔۔۔۔ 5 بجے میوزیم بند ہو جائے گا ابھی 3 گھنٹے ہیں جلدی جاؤ۔ ایک مختصر سے تعارف کے بعد جب گائیڈ نے لفٹ میں چوتھی منزل کیلئے روانہ کیا تو معلوم ہوا انڈر دا ٹیبل پاس لینے والوں کی تعداد درجن سے زائد تھی۔ ( یہ وضاحت ضروری ہے کہ پاس مفت تھے) ہمارے والا انڈر دی ٹیبل ۔۔۔۔ والی بات بالکل نہ  تھی۔ میوزیم چوتھی منزل سے شروع ہو کر آہستہ آہستہ سیڑھیوں کے راستے  واپس گراؤنڈ فلور پر آ جاتا تھا۔

جیسے ہی میوزیم میں داخل ہوا تو ہُو  کا عالم تھا۔ ایک چھوٹی سی جگہ پر سینکڑوں لوگ اور وہ صرف معلومات پڑھ، سن اور دیکھ رہے تھے۔ بول ایک بھی نہیں رہا تھا۔ میوزیم میں دنیا بھر سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ میں بھی لائن میں لگ گیا اور ایک ایک فریم پر نظریں جما دیں۔ یہ سب دیکھ کر سب سے پہلے ڈھاکہ فریڈم میوزیم یاد آیا جسے سن 2000 میں دیکھنے کا تکلیف دہ تجربہ ہو چکا تھا ۔ جرمن نیشنلسٹ پارٹی (نازی) نے برسراقتدار آتے ہی لائبریوں سے لاکھوں کتابیں نکال کر انہیں آگ لگا دی اور پھر شروع ہوا نسل کی بنیاد پر قتلِ عام۔ نازیوں کے ظلم کی تصویری داستان جو کلیجہ دل کو لانے کیلئے کافی تھیں۔ جرمن کیا، آرمینیا، آذربائجان، رومانیہ، پولینڈ، ڈنمارک۔۔۔ بلکہ سارے ہی یورپ میں چن چن کر یہودیوں کو مارا گیا۔ ہٹلر کی شعلہ بیانی نے لوگوں کے اندر کے حیوان کو باہر نکالنے کیلئے پیٹرول کا کام کیا۔ کبھی کنسٹرکشن کیمپوں میں کبھی بڑے بڑے گیس چیمبروں میں اور کبھی لائن میں کھڑے کر کے سینکڑوں کے سروں میں گولی مار دی گئی۔ بہت سوں سے تو پہلے اجتماعی قبریں کھدوای گئیں اور پھر اسی میں ان کو گولی مار کر پھینک دیا گیا۔ بھوک سے کئی لوگ ہڈیوں کی مٹھ بنے اور پھر چل بسے۔ جگہ جگہ بتایا گیا تھا کہ کس طرح امریکیوں نے یہودیوں کو نازیوں سے بچایا تھا۔

شروع شروع میں کیمونسٹ، جپسی اور یہودی مردوں اور بعد میں انکی عورتوں اور بچوں کو بلا تفریق مارا گیا۔ لیکن مرنے والوں میں یہودیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ ہر ملک میں سپیشل ڈیتھ سکواڈ بنائے گئے۔ لاشوں کو جلا کر دانتوں سے لیکوڈ سونا تک اکھٹا کیا گیا۔ بے شک اقوام متحدہ کے زیر انتظام اس میوزیم میں تصوریں، اخبارات کے تراشے، آڈیو ریکارڈنگ اور ڈاکومنٹری کا بیش قیمت خزانہ ہے۔ میوزیم کی آخری منزل پر شام میں ہونے والے قتال کا بھی ایک سیکشن ہے۔ جو مذہب اور فرقے کے نام پر قتل کی داستان بیان کرتا ہے۔

میں 5 بجے تک شدید ڈپریشن میں رہا اور پھر چپ چاپ واپس ورجینیا چلا گیا۔ یہ پہلی بار نا تھا کہ ہولو کاسٹ کے بارے میں جانا تھا۔ کئی ڈاکومنٹریز دیکھ اور کئی ناول پڑھ چکا تھا۔ فلم Book Thiefکئی بار دماغ میں چلنا شروع ہو جاتی۔ ایک سوال بار بار اٹھا کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ پورا یورپ ہی یہودیوں کے اتنا خلاف ہو گیا کہ انہیں سبزی کی طرح کاٹ ہی دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے گوگل پیر پر اس کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر سوائے اس کے کہ دولت پر یہودیوں کا قبضہ تھا اور باقی تقریباً  سب ہی ان کے مقروض تھے کے علاوہ کچھ اور نہیں ملا۔ سب جانتے ہیں کہ ہولو کاسٹ پر سوال اٹھانا بھی جرم ہے۔ اور صرف یک طرفہ معلومات ہی دستیاب ہیں مگر جو ایک وجہ بتائی گئی ہے وہ تقریباً  مکمل ہے۔ کیونکہ کسی نہ  کسی موقع پر میوزیم کی انتطامیہ کے کسی ایک شخص کو معلوم تھا کہ یہ یک طرفہ معلومات ہیں  اور اس نے میوزیم کے آخر میں ایک بینر پر لکھ دیا تھا۔۔
This Museum is not an answer.
It is a question.
لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ تصویر کے دوسرے رخ پر بھی تحقیق کی جائے اور ان وجوہات کی گہرائی میں جایا جائے  جس کے نتیجہ میں لاکھوں انسان مارے گئے۔ کوئی ان کا بھی  ذکر کرے جو یہودی بھی نہ  تھے اور پھر بھی نازی عذاب کا نشانہ بن گئے!

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply