میں کہاں کہاں سے گزر گیا۔۔۔۔۔ظفرالاسلام سیفی/قسط1

زیر نظر تحریرظفرالاسلام سیفی کی خودنوشت آپ بیتی کی پہلی قسط ہے،جس میں وہ اپنے بچپن ولڑکپن سے لے کر جوانی وموجودہ حالات تک کا ایک اجمالی خاکہ اس خوبصورت پیرایہ  بیاں میں نذر قارئین کر رہے ہیں کہ انہیں حالات کے دریچوں سے ماضی کی حسین یادیں اپنے سامنے کھڑی نظر آنے لگتی ہیں۔خود نوشت آپ بیتی کا یہ خوبصورت سلسلہ بتلاتا ہے کہ اپنی زندگی پر لکھنے کے لیے شبلی نعمانی ہونا ضروری ہے نہ سلیمان ندوی …… قدرت اللہ شہاب ہونا ضروری ہے نہ جوش ملیح آبادی .. ہڈسن،ورڈز ورتھ،چرچل ہونا ضروری ہے نہ مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا زکریا،مرزا ادیب واحسان دانش بلکہ پیہم جذبات،حسین ماضی اور بے داغ کردارہونا ہی کافی ہے۔یہ خود نوشت سوانحی خاکہ جہاں سوانح نگار کی حالات زندگی کا بیاں ہے وہیں اردو ادب میں گرانقدر اضافہ وسرمایہ بھی ہے،قسط وار یہ سلسلہ ”مکالمہ“ کی دیوار کے ساتھ اس احساس کے ساتھ چسپاں کیا جاتا رہے گا کہ یہ ہمیں اپنے ماضی میں جھانک کر حال ومستقبل کی سمت متعین کرنے میں مدد دیگا۔امید ہے قارئین کے لیے ”میں کہاں کہاں سے گذر گیا“ کا قسط وار سلسلہ دلچسپی اور بہت کچھ سیکھنے کا باعث بنے گا۔آپ اس سلسلے کو ہر منگل اور  ہفتے کے روز   پڑھ سکیں گے!

بسم اللہ الرحمن الرحیم!
میری پیدائش انیس صد چوراسی کے دسویں مہینے میں ہوئی،مجھے شعور مگر اپنے تعلیمی دورانیے کی پہلی کلاس میں ملا،یہ وہ دور تھا جب نرسری پریپ نہیں کچی پکی ہوا کرتی تھی،کچی پکی میں کام بھی کچا پکا ہوا کرتا تھا،تب زمانہ سادہ مگر سچا ہوا کرتا تھا،گورنمنٹ پرائمری سکول تو  میری شعوری تعلیم کی پہلی درسگاہ تھی،اساتذہ عظام کی ایک مختصر مگر مخلص ٹیم مصروف تعلیم تھی،سکول ورک ہوتا کیا تھا کچھ یاد نہیں،

تڑکے میں ہی بستر سے اٹھاتی امی جان کسی دشمن سے کم نہ لگتی،سکول جانے کاتصور المناک احساس سے کم نہ تھا،پیٹ وسردرد کے جملہ اعذار مسترد ہونے کے بعد بادل نخواستہ اپنے بٹن ٹوٹے اور دامن پھٹے نیلگوں یونیفارم کو بوجھل دل کے ساتھ یوں زیب تن کرتے جیسے سزائے موت کے قیدی کو پھانسی گھاٹ کی طرف تیار کرکے لے جایا جانے لگا ہو، بقچی نما بستہ کمر کے ساتھ چپکائے اپنی بہن بھائیوں کے ہمراہ ایک چھوٹے سے پرائمری سکول کی طرف  یوں چلتے جیسے کوئی رئیس زادہ سج دھج کے لارنس کالج یا ایچ ای سن کالج کی طرف لاؤ لشکر کے ساتھ رواں ہو،تب ہاتھ میں اٹھائی تختی جہاں اپنے طلب علم کے دکھلاوے کا کام دیتی تھی وہیں راستے میں الجھتے ”پپو“ اور ”پولا“ کے خلاف ایک کارآمد ہتھیار بھی ہوتی،راستے میں اپنے تئیں ”سلطان راہی “ بن کر چلتے مگر کسی بڑے کو دیکھ کر شرافت کا ایسا ڈھونگ رچاتے کہ شاید ہی کوئی ہوتا جو ہماری پارسائی کا معترف نہ ہوتا،راستہ ہمیشہ ہمارا اپنا ہی ہوتا تھا کیونکہ بنا ہو ا راستہ ہمیں اک نظر نہ بھاتا،ہم اسے لمباوبے ڈھنگا سمجھتے،اس پر چلنے کا کبھی اتفاق ہوجاتا تو منزل کو پہنچنے تک عجب سراسیمگی طاری رہتی،اس لیے اپنے ساتھیوں کی ہمراہی میں کھیت بہ کھیت چھلانگیں لگاتے منٹوں میں سکول پہنچتے،دس منٹ پہلے بجنے  والی  گھنٹی پر کہا جاتا کہ ارے ابھی تو گھنٹی  بجنا شروع ہوئی ہے۔ ناشتہ کرنا،یونیفارم پہننا،جوتوں میں تسمہ ڈال کر انہیں پہننا،دائیں بائیں بکھری کتابوں کوجمع کرنا،کاپیوں کو مختلف مقامات سے تلاشنا اوران سب کو بستہ میں ڈالنااور اسمبلی سے پہلے سکول پہنچنا دس منٹ کے اسی دورانیے میں ہوجاتا،سکول جاتے ہوئے راستے میں سکون کا کوئی پل ہوتا تو یاد
رہتا۔

اسمبلی ہر سکول کی طرح ہمارے سکول کا بھی پہلا کام ہوتا تھا،تلاوت کے بعد نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہوتی،بعض طلباء کا سوز آواز بسااوقات فضا میں سماں باندھ کر رکھ دیتا، اشعار کو سمجھنا تو رہا تھا بس آواز سے انتخاب کے معیار کا اندازہ لگایا کرتے،پھر اجتماعی طور پر اقبال کی دعائیہ نظم ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“ پڑھی جاتی،سمجھ کا گلہ اپنی فہم سے تو آج تک ہے اسوقت ظاہر ہے کہ کیا سمجھنا تھامگر نجانے کیسے لفظ لفظ لاشعور میں بیٹھتا گیا اور ازاں بعد اس کے ہر ہر لفظ نے زندگی کو بہت سے پہلوؤں میں معنویت بخشی،آخر میں قومی ترانہ پڑھا جاتا،اسمبلی میں بسااوقات نماز کا سبق اور شش کلمہ بھی کہلوائے جاتے تھے،غیر حاضر طلباء کو سامنے بلایا جاتا،کان پکڑواکر خوب پٹائی ہوا کرتی،تب اس مار کو کھیتی کا پانی اور استاد کو مربی سمجھا جاتا تھا،زمانے نے چونکہ مالی ہوس سے شناسائی پائی تھی نہ تعلیم کو کاروبار اور استاد کو ملازم سمجھا جاتا تھابلکہ تعلیم ایک مقدس عبادت تصور ہوتی جسمیں ایک استاد اپنے طالب علم کو اپنا بچہ اور تعلیم کو تکلفات کے رسمی تقاضوں سے ماوراء ہو کر پڑھایا کرتا،طالب علم استاد کے فرض منصبی کو جانتا،سکول کے درودیوار پر گاہک کو دھوکہ دینے والی نہیں بچوں کی تربیت کرنے والی وال چاکنگ کی گئی ہوتی جو خاموش استاد کا کام کرتی،غیر حاضر طلباء کی اسمبلی میں ہی باز پرس ہوتی،کلاس میں اس پر تنبیہ کا رواج نہ تھا،جب کبھی ہم غیر حاضر ہوجاتے توہماری کوشش ہوتی کہ سکول سے متصل بہنے والے نالے جسے ہم اپنی مادری زبان میں ”کس“ کہا کرتے تھے پر لگے چشمے سے اساتذہ کے لیے پانی لینے نکل کھڑے ہوں اور اسوقت تک واپس نہ آیا جائے جب تک اسمبلی میں مار پیٹ کی ”دغا دغڑ“ ختم نہ ہوجائے، کچی پکی کے بعد پہلی دوسری کلاس کے لیے کمرہ دستیاب نہ تھا،سکول سے باہر ایک صاحب کی زمین جسے ہم ”ڈوغا“ کہا کرتے تھے پر بیٹھ کر یہ چاروں کلاسیں کچھ نہ کچھ پڑھا کرتی تھیں،پڑھا کیا کرتے تھے یہ تو یاد نہیں البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ پچھلی صف میں بٹھایا جاتا تو اگلی صف والوں کو کنکریاں مارا کرتے اور اگر اگلی صف مقدر بنتی تو سامنے کچی روڈ پر گذرنے والے اپنے گاؤں کے ”چچا چچی،خالہ،خالو،ماموں،ممانی،ابا،اماں،بے اور بڑی بی“ کو ہی دیکھا کرتے اور دل میں سوچتے کہ کتنے خوش قسمت ہیں کہ سکول ٹائم میں آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں،اس کچی روڈ پر ہفتوں میں جب کبھی گاڑی آجایا کرتی تو بچے تو تھے ہی بچے خود اساتذہ وبڑے حضرات بھی باجماعت لائن میں کھڑے یوں اسے گھورا کرتے گویا کوئی ”ایف 16“ لینڈ بلکہ کرش کرگیا ہو،گاڑی اوجھل ہونے تک گویا غیر اعلانیہ چھٹی رہتی،ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ڈرائیور پائلٹ کی طرح ”مہان“ سمجھا جاتا اور اس سے دعا سلام بڑے نصیب کی بات ہوا کرتی تھی۔ہر بس کانمبر،اسکے گذرنے کا وقت،ڈرائیور کانام،اور اسکا پتہ پہلے کلمہ کی طرح زبان پر رہتا،اگر چھٹی کے وقت کوئی گاڑی سکول سے متصل کچی روڈ سے گذرتی تو ایک کلومیٹر تک اسکے ساتھ بھاگنا تو گویا ”سعی بین الصفا والمروۃ“ کی طرح لازم تھا۔

بارہ بجے سکول میں ”بریک“ ہوتی جسے ہماری تعلیمی زبان میں ”تفریح“ کہا جاتا تھا،تفریح کے دورانیے میں وہ انت مچتی کہ الامان والحفیظ،طلباء وطالبات بلکہ لڑکے ولڑکیاں اپنے اپنے کھیلوں میں مگن ہوجاتے،لڑکوں کے بعض کھیل خوفناک حد خطرناک ہوتے،بھاگتے ہوئے ایک دوسرے کو پکڑنا حقیقت میں تو ایک اچھا اور صحت افزاء کھیل ہے مگر ہم جو ”پکڑن پکڑائی“ کھیلا کرتے وہ نہایت خطرناک ہوتی،ٹولیاں بنا کر لڑنا تفریح کا ایک اہم جزو ہوتا،ایک دائرہ کھینچ کر بسااوقات باقاعدہ ”ریسلنگ“ کی طرز پر لڑائی کے مقابلے ہوا کرتے،نیچے گرادینا جیت سمجھا جاتا تھا، جب کبھی ایسی ”سعادت“ ناچیزکوحاصل ہوجاتی تو سامنے والی کی ٹانگیں سوویت یونین سمجھ کر پوری قوت سے یوں کھینچتا جیسے لڑنے والا اپنا ساتھی نہیں طاغوت گرنے جارہا ہے۔شرارت کی بھی ایک حد ہوتی ہے مگر ہماری شرارت تو بے حد تھی،کبڈی کھیلنا بھی ایک اہم تفریحی شغل تھا جسے حوصلے والے ہی کھیلا کرتے تھے،ہم چونکہ خاموش ”سلطان راہی“ تھے اس لیے نہ کھیلنا صرف اپنے مزاج ہی نہیں عزت کے بھی خلاف تھا،بارہا کھیلتے ہوئے زخمی بھی ہوئی لیکن زخموں کو خود ہی بھرنا پڑا،کوئی طالب علم جو لڑنا نہ جانتا ہو ہماری نظر میں بچہ نہیں ”بابو“ تھا،جس کی سیدھی ٹوپی ٹیڑھی کرنا اور ٹیڑھی کو اتار پھینکنا ہر ایک اپنا حق سمجھتا تھا،اسکی کتابیں،کاپیاں کھاتہ مشترکہ سمجھا جاتا اور اسکے رونے سے پوری کلاس محظوظ ہواکرتی،پڑھتے تو ہم بھی تھے مگر یہ کیا یار .۔۔۔۔ شرافت کے ساتھ بھی کوئی پڑھنا ہوتا ہے؟

سب شرارتوں کے باوصف اپنے تعلیمی کام کے ساتھ انصاف کرنا نجانے کہاں سے ہمارے اندر آدھمکا تھا،ہم مستیوں وچٹکلیوں کے باوجود سمجھتے تھے کہ پڑھنا،لکھنا بہرحال ضروری ہے،سکول آنے کا مقصد کچھ حاصل کرنا ہے اور اسمیں غفلت کسی طور روا نہیں ،تختی لکھنا ہمارے کام کا ایک اہم حصہ تھا اور ہم کس اہتمام کے ساتھ وہ لکھا کرتے اسکا تصور آج بھی حیران کردیتا ہے ،پڑوس کے کھیت المعروف ”ڈوغے“ سے قلم بنانے کے لیے لڑیاں کاٹنا،روٹی پکانے والے ”توے“ کی کالک سے سیاہی بنانا،پانی کے نالوں المعروف ”کس“ کی ساحلی پٹی سے گاچی نکالنا اور تختی پر مارنا،پھر تختی کے لیے قلم کو تراشنا یہ سب ایک نہیں کئی کئی بارہمارے یومیہ معمولات کا حصہ تھا،یاد کرنے کے سبق کو زبانی رٹنا اورکاپیوں کا ہوم ورک سکول میں ہی حتی المقدور کرلینے کا اہتمام تھا،طلباء تو کیا استاد بھی ہمیں لائق وذی استعداد کہا کرتے تھے،مگر عجیب ”مخول“ تو یہ تھا کہ ہمیں لائق کا مطلب آتا تھا نہ ذی استعداد کا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تیسری کلاس میں جب سالانہ امتحان کا نتیجہ بولا گیا تو استاد اولا پوزیشن ہولڈر طلباء کے نام بولا کرتے پھر فیل طلباء کا نام لیتے اور آخر میں یہ بتاتے کہ باقی سب پاس ہوگئے ہیں،اس ترتیب پر جب ہماری کلاس کا نتیجہ بولا گیا تو میری تیسری پوزیشن تھی،استادجی نے میرانام لیا اور کہا کہ وہ ”تھرڈ“ ہے،میں نے اپنے عقب میں کھڑے اپنی کلاس کے ایک ساتھی سے اسکا مطلب پوچھا کہ یہ کیا ہوتا ہے؟ تو اس نے جھٹ سے کہا کہ جیسے باقی فیل ہوگئے ایسے تم بھی ”تھرڈ“ ہوگئے ہو،میں نے سوچا کہ یہ فیل ہی کی کوئی سطح ہوتی ہے،بس یہ سننا تھا کہ میں نے اونچی اونچی آواز میں رونا شروع کردیا،طلباء کے ہنگام رستاخیز میں میری آواز کسے آنی تھی کہ مجھے سمجھاتا البتہ گھر پہنچ کر بڑی بہن نے سمجھا یا کہ ”تھرڈ“ کا مطلب کیا ہوتا ہے،ہم خاموش تو ہوگئے مگر شک پھر بھی رہا کہ شائد اس نے بہلانے کے لیے ایسا کہا ہو اور ہم سچ ہی کہیں ”تھرڈ“ نہ ہوگئے ہوں،ازاں بعد جب ہمارے لیے نئی کلاس کی کتابیں لائی گئی تو ہمیں یقیں ہوا کہ ہم پاس ہوگئے ہیں  اوریہ کہ ”تھرڈ“ پاس ہی کی کوئی قسم ہے۔

چھٹی سے کچھ لمحات قبل ہی ہم اپنے بقچہ نما بستوں اور جوتوں کے تسموں کو اس زور سے گرہ لگا تے جیسے چھٹی نہیں ”میراتھن ریس“ ہونے جارہی ہے،چھٹی کے لیے بل جیسے ہی بجائی جاتی ہم بآواز بلند لفظ ”چھٹی“ اس زور سے بولتے کہ گاؤں لرز اٹھتا تھا،یہ کہتے ہی سکول سے اس طرح سے بھاگتے جیسے زلزلہ آگیا ہو اور کچھ ہی دیر میں عمارت گرنے والی ہے،احاطہ سکول سے باہر نکل کر اپنے ساتھیوں کو تلاشتے اور انکی ہمراہی میں ہی گھر جاتے، دن بھر کلاس کی آپ بیتی پر سیر حاصل گفت وشنید ہوتی،اور استاد کے ہر ہر قول وفعل کو اچھی طرح جانچتے اور زیر تبصرہ لاتے،اکثر راستے میں کسی ”پپو“ یا ”پولا“ سے یوں الجھ جاتے جیسے پاکستان وہندوستان ”بارڈر“ پر بپھر گئے ہوں،تختی کی قدر ہم اس لیے بھی کیا کرتے تھے کہ یہ اکثر ٹیڑھے دماغوں کو ٹھکانے لگانے کے بھی کام آتی ہے،مہینے دومہینے میں ایک تختی کا ٹوٹنا معمولی بات ہوتی تھی،شاید اسی لیے دوکاندار تختی دیتے بھی سستی تھے تاکہ بچے دشمن سے اپنی سرحدات کا تحفظ کرسکیں۔گھر واپسی کا راستہ بھی ہمارا پنا بنایا ہوا ہوتا تھا کہ سیدھے راستے پرچلنا ہم ”شان بچپنیت“ کے خلاف سمجھتے تھے،مگر سکول جانے اور گھر واپس آنے کے ہردوراستوں میں فرق یہ ہوتا تھا کہ جانے کا راستہ مختصر ترین اور واپس آنے کا طویل ترین ہوتا،گھر واپسی پر سارے گاوں کا وزٹ اس طرح کرتے جیسے کوئی پراجیکٹ آفیسر اپنے پراجیکٹ سے متعلقہ علاقے کا جائزہ لے رہا ہو،سکول کا تھکنا تو یاد نہیں البتہ بعد کا تھکنا ضرور یاد ہے،جب ہم گھر پہنچتے تو چارپائی پر یوں گرتے جیسے سکول سے نہیں ہمالیہ سر کر کے آرہے ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ظفر الاسلام
ظفرالاسلام سیفی ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب ہیں ، آپ اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھتے ہیں ،شاعر مصنف ومحقق ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میں کہاں کہاں سے گزر گیا۔۔۔۔۔ظفرالاسلام سیفی/قسط1

Leave a Reply to haroon Cancel reply