ہندوستان کی مزید تقسیم ناگزیر

اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کی تحریک آخری موقع تھا جب مسلمان اور ہندو ایک نظر آئے ۔اس کے بعد ان دونوں قوموں کے درمیان تفریق کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی. ہندو تعصب کبھی شدھی اور سنگھٹن کی صورت میں سامنے آیا تو ،کبھی راشٹریہ سیوک سنگھ کی بدنما شکل اختیار کی۔ ہندو معاشرہ خود بھی ذات پات میں منقسم رہا ،جس میں برہمن کو سب سے اونچا درجہ حاصل رہا۔
راشٹریہ سیوک سنگھ نے دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف سینکڑوں تخریبی کاروائیاں کیں ان کارروائیوں نے نفرتوں کا ایک ایسا ماحول بنا دیا جس میں دونوں قوموں کا ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہو گیا اور اسی ماحول کی کوکھ سے دو قومی نظریے نے جنم لیا ۔یہ نظریہ زمینی حقائق کے زیر اثر ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا. یہ ہندوؤں کا تعصب ہی تھا جس نے جناح جیسے اتحاد کے داعی کو اقبال کا ہمنوا بنا دیا اور یوں دو قومی نظریے کو مضبوط،ذہین، اور پڑھی لکھی قیادت نصیب ہوئی۔ اس قیادت کی مساعی اور مسلمانوں کی تائید نے ایک علیحدہ وطن کے حصول کی راہ ہموار کی۔ ہندوستان مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوا اور دونوں مذاہب کے لوگوں نے ایک بہت بڑی ہجرت کی۔ اس ہجرت کے دوران کشت و خون کے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ الامان والحفیظ. تقسیم ہند کے وقت سکھوں کی قیادت نے فلسفہ تقسیم اور ہندو ذہنیت کو سمجھنے میں غلطی کی اور نہ صرف اپنا وزن ہندوستان کے پلڑے میں ڈال دیا بلکہ مسلمانوں کی قتل و غارت میں کلیدی کردار ادا کیا، (یقینا سکھ قوم کو اپنے اس عمل پر پشیمانی ہو گی اور وہ اس تاریخی غلطی پر نادم ہونگے)۔
ہندوستان بننے کے بعد جلد ہی سکھوں پر ہندو ذہنیت کھلنا شروع ہوئی، ہندو غلبے کی شعوری کوششوں پر سکھ قوم میں اضطراب پھیلا اور یوں آزاد خالصتان کی تحریک شروع ہوئی ۔یہ تحریک اپنے عروج پر تھی کہ بھارتی فوج نے سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کی اور خالصتان تحریک میں سرگرم کردار ادا کرنے والے سکھ مار ڈالے گئے، قیادت بیرون ملک فرار ہو گئی اور خالصتان تحریک وقتی طور پر دب گئی۔اس کے بعد ہندوستانی حکومت نے ایک منصوبے کے تحت سکھ نوجوانوں کو مختلف قسم کے نشوں پر لگا کر سکھ قوم کی نفسیات تبدیل کر دی ایک نسل ان نشوں کا شکار ہو کر اپنے مقصد کو بھول گئی لیکن حقیقت ایسے حربوں سے کہاں چھپتی ہے آج سکھ قوم کے نوجوان دوبارہ آزادی کے لیے سرگرم نظر آتے ہیں اور ڈاکٹر امرجیت سنگھ کی قیادت میں متحد ہو رہے ہیں۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں دلت طالب علم راہنما کنہیا کمار کی قیادت میں لگتے آزدی کے نعروں کی گونج پورے ہندوستان میں سنی جا رہی ہے۔برھان وانی کی شہادت نے کشمیر میں آزادی کی دبی ہوئی چنگاری کو شعلہ جوالا بنا دیا ہے اور کشمیری قوم گولیوں کے سامنے اپنے عزم و استقلال کی طاقت کے ساتھ سینہ سپر ہے۔نکسل باڑیوں کی، چوتھی نسل، بھی ہندوستان سے بر سر پیکار ہے۔ناگا لینڈ کی تحریک بھی عنفوان شباب پر ہے۔۔۔۔ہندوستان میں دو قومی نظریہ آج بھی اپنی تمام حقیقتوں کے ساتھ موجود ہے ۔۔اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔۔ایک مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
بہار میں چنگوانا نامی گاؤں کے ایک مسلمان نوجوان سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ جس گاؤں یا شہر میں ہندو اور مسلمانوں کی آبادی توازن میں ہے وہاں پر ہندو اور مسلم اکٹھے نہیں رہتے ،بلکہ اگر ایک محلہ پورے کا پورا مسلمانوں کا ہے تو دوسرا پورے کا پورا محلہ ہندوؤں کا۔ ہندو اکثریتی محلے میں کسی مسلمان کا رہنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے ۔اسی طرح مسلم اکثریتی محلے میں کسی ہندو کا رہنا مشکل ہے۔ ہندو بہمن آئے روز اپنے نوجوانوں کو بھڑکا کر مسلمانوں سے بھڑواتے رہتے ہیں یہ صورت حال انڈیا میں موجود مذہبی، قومی و طبقاتی تقسیم کی غماز ہے اور سیکولرازم کے تمام تر نعروں کے باوجود دو قومی نظریہ کو دبایا نہیں جا سکا بلکہ یہ ہر آنے والے دن کے ساتھ پھلا پھولا ہے. گئو رکھشکوں کی تخریبی کارروائیاں، ہندوؤں کی تنگ نظری، وسائل اور ملازمتوں کی متعصبانہ اور غیر مساویانہ تقسیم، اقلیتوں پر ظلم و تشدد اور اقلیتوں کا احساس عدم تحفظ ،انڈیا کی مزید تقسیم کی بنیاد رکھ چکے ہیں اور جلد یا بدیر ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہو چکی ہے۔

Facebook Comments

شاہد خیالوی
شاہد خیالوی ایک ادبی گھرا نے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ معروف شاعر اورتم اک گورکھ دھندہ ہو قوالی کے خالق ناز خیالوی سے خون کا بھی رشتہ ہے اور قلم کا بھی۔ انسان اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور خالق کا شاہکار ہے لہذا اسے ہر مخلوق سے زیادہ اہمیت دی جائے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا لیا تو قلم کوآسودگی نصیب ہو گی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply