اردو کے مزاحمتی ادب میں شیردل غیب کا کردار۔۔۔۔ہمایوں احتشام

شیر دل غیب پر اس نے مجھ سے رائے مانگی، میں کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔
دل میں سوچا زیادہ کچھ کہا تو حکام نگینوں کو خاک میں ملانے کا ڈھنگ خوب سے جانتے ہیں، یہی تو وہ فن ہے جس میں ان کی مہارت کا طوطی بولتا ہے۔ پھر سے سوچا اور دل میں کہا، اتنا مت بولنا کہ خاک نشیں کو زحمت ہو۔ پس محتاط انداز میں گویا ہوا شیر دل محکوموں اور بے زباں ہجوم کا ضمیر ہے، اس کا دل محکوموں کے لیے دھڑکتا ہے، ان کے لیے لکھتا ہے، لکھتا ہے اور لکھتا جاتا ہے، مگر جب لہو لتھڑی خاک کو دیکھتا ہے تو رو دیتا ہے۔ کبھی کوہ شاشان پر اشک رواں نظر آتا ہے تو کبھی شال کی وادی میں نم آنکھوں کے ساتھ مضطر نظر آتا ہے، کبھی کوہ سلیمان پر تو کبھی نوشکی کے ریگستانوں میں الم سے گھلتا ایک ہیولہ معلوم ہوتا ہے۔ اسکی اشک فشانی کا گواہ گوادر کا کوہ باتیل بھی ہے، اور تربت کا کوہ مراد بھی الم کدوں کے اس باسی کے حال سے مکمل واقف ہے۔ کچھ لوگ نوحے لکھتے ہیں، ہمارا غیب بھی مرثیہ نگار ہے۔ اس کے مرثیے زندہ لوگوں کے مرثیے ہوتے ہیں، اس کے نوحوں میں کراچی پریس کلب کے باہر بیٹھی ماں کا حزن بھی ہوتا ہے تو پانی سے ترستے گوادر و تھر کے بچے کی تشنگی کا احساس بھی بدرجہ اتم ہوتا ہے۔ نثر کی شکل میں نوحہ لکھنا شاید غیب صاحب کی اختراع ہے، یا شاید اکتشافات زندگانی نے اسے ایسے ایسے نشتر لگائے کہ شبد نوحے بن گئے۔ غیب آوارہ گرد بھی ہیں، وطن کے قریہ قریہ، گلی گلی، کوچہ کوچہ سے واقف ہیں، ویسے ہی جیسے مستیں توکلی نے کاہان سے مکران، سندھ سے دہلی تک علاقہ اپنے اکتشافات کی تسکین میں روند ڈالا، مگر وہ غاصب نہیں تھا۔ وہ بھی علم کا متلاشی تھا ویسے ہی جیسے ہمارے عہد کا مستیں غیب ہے۔ دونوں درویش منش اور قلم کے غازی ہیں۔

غیب سے پہلی بار سامنا بھی عجب انداز میں ہوا۔ پی ڈی ایف کتابوں کے وٹس ایپ گروپ میں ایف جے فیضی، جو میرے بڑے بھائی کی مانند ہیں، انھوں نے غیب صاحب کی کتاب شئیر کی۔ کتاب کا نام کچھ رومانوی سا لگا، سوچا ڈاونلوڈ کرلیتا ہوں بعد میں پڑھوں گا۔ کتاب ڈاونلوڈ ہوگئی اور اسی اثنا میں کچھ دوست یونیورسٹی ہوسٹل میں موجود میرے کمرے میں آ دھمکے۔ میں نے ازرائے تکلم ان سے کتابیں پڑھنے کی بابت رائے مانگ لی۔ پھر کیا تھا یاروں نے کہا چھوڑ غیب کو ادنیٰ درجے کا نثرنگار اور ناول نگار ہوگا، اس پر وقت کا ضیاع کرنے سے بہتر ہے کسی تعمیری کام میں حصہ لوں یا کم از کم کوئی عالمی ادب کا افسانہ یا ناول پڑھ لوں۔ اول الزکر کا کہنا تھا کہ تمہیں ڈوما کے افسانے پڑھنے چاہئیں دوسرے کا اصرار تھا کہ میں ڈان براون کی ڈاونچی کوڈ پڑھوں۔ کافی دیر کی چخ چخ کے بعد میں نے بذات خود فیصلہ کیا کہ ‘تیرے فراق میں’  پڑھی جائے گی۔ بس وہ کتاب کیا پڑھی، ناچیز عجیب طلسم میں جکڑا گیا۔ لوگ الفاظ سے دکھڑے لکھتے ہیں، غیب نے بناء کسی ہچکچاہٹ کے احساسات اور دکھ لکھ ڈالے، آخر کو الفاظ احساسات کی قدر گرا دیتے ہیں۔ مردانہ برتری والے سماج، بلوچ سماج جو میرے سماج راجپوتانہ سماج کی مانند خالصتاً پدرسری ہے، غیب اس سماج میں ایک عورت سے محبت کرتا ہے، ٹوٹ کر کرتا ہے۔ عشق میں اتنا مدہوش ہوجاتا ہے کہ آس پاس سے بے نیاز ہوجاتا ہے، یار دوست، سنگت فرشتوں کے دام میں ایسے الجھے کہ  پھر نہ  لوٹے، جانے والے چلے گئے۔ غیب مگر زلفوں کی توصیف سے ایک لمحے کو غافل نہ  ہوا۔ بے حسی زبردستی طاری کیے رکھی، اسی اثناء میں مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شدت پکڑتا گیا، مرگاپ لہو میں ڈوب گیا، مذہب کے ٹھیکے داروں نے پورے ملک کو لہو سے رنگ دیا، غیب آنسو بہاتا تھا۔ اور بے بسی جب آخری نہج پر پہنچتی تو ووڈکا زہر سوکھے حلق میں انڈیلتا۔ جہاں عشق نے عمل سے غیب کو باز رکھا، وہاں قومی محبت غیب کو آہیں بھرنے پر مجبور کرتی رہی، غیب نوحوں کو دل میں چھپائے بیابانوں میں بیٹھا روتا رہا۔ وہ محبوبہ سے کیے عہد و پیمان کو نہ توڑ سکتا تھا اور نہ انحراف کرسکتا تھا۔ پھر داغ مفارقت ملا، نہ جنوں رہا نہ  پری رہی۔ نہ  سنگت رہے اور نہ عشق ۔۔۔۔ وطن بھیڑیوں کی آماجگاہ بن گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ادیب تھا تو حساس ہونا بھی لازم تھا، جابر کو روکنا چاہتا تھا، مگر کمزور تھا، آخر اس نے اپنا محاذ سبنھالا اور قلم کے ساتھ علم بغاوت بلند کیا۔ یہ علم اکیلے عام بلوچ کا نہیں تھا، یہ علم عام سندھی کا بھی تھا خواہ وہ اردو بولتا ہے یا سندھی، یہ علم پختون اور عام سرائیکی کا بھی تھا۔ یہ علم محکومین اور استحصال زدگان کا تھا۔
میں نہیں جانتا کہ میں نے غیب کے قلم کی تعریف میں جو چند بے ربط جملے لکھے ہیں، کیا انھوں نے واقعی غیب کے قلم کی تعریف و توصیف اور مزاحمت کا حق ادا کیا ہے یا نہیں۔ لیکن ایک بات میں جانتا ہوں کہ شیردل نے اپنا حق ادا کردیا۔ اس نے مظلوموں اور محکوموں کا ضمیر ہونے کا حق ادا کردیا۔۔۔۔۔ اس نے خالی ہاتھ ہونے کے باوجود سب کچھ لٹا دیا۔
شیردل غیب صاحب کی چوتھی کتاب ” 43 ” حاضر خدمت ہے۔ اسے پڑھیے، الفاظ نہیں الم و دکھ پڑھیے۔ مزاحمت پڑھیے، ثقافت پڑھیے۔ سب سے بڑھ کر بلوچ کو پڑھیے۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply