داستاں ہے طویل تر، وقت مگر قلیل تر ۔۔(حصہ اول)

یہ ایک آوارہ گرد سیاسی ورکر کی داستان ہے۔جس نے خواب دیکھے مگر حقیقتیں منکشف ہونے پر خود اپنے سائے سے ڈر گیا۔چیف جسٹس صاحب  کا قافلہ رواں دواں تھا ,جی ٹی روڈ پر سفر کرتے کرتے بہتّر گھنٹے گذر چکے تھے مگر قافلہ ہنوز اسلام آباد سے  راوی پل تک نہ پہنچ سکا تھا۔جہلم کے قریب ایک اسّی سالہ بابا جی بڑا طویل سفر کرکے آئے تھے ہ،اتھ میں ایک پھولوں کی مالا پکڑے نجانے کب سے منتظر تھے۔میں قریب گیا پوچھا بابا جی کون سی امید آپ کو یہاں کھینچ لائی ۔۔؟
ہاتھوں کا چھجا بنا کر دور تلک دیکھا پھر کہنے لگے ۔پُتر اُس،، حسینی ،، کے انتظار میں ہوں جو انکار کا استعارہ بنا۔بس یہ مالا اُس کو پہنانی ہے اور لوٹ جانا ہے۔جذبہ بڑا دیدنی  اور عزم وہمت تو کمال کا تھا۔
میں بھی بڑا طویل سفر کرکے اُس قافلے تک پہنچا تھا۔نجانے کتنے خواب تھے جو پلکوں سے امڈنے کو بے تاب تھے لیکن دور کہیں اندر سے آواز آتی نہیں ابھی نہیں۔مجھے آمریت سے شدید چڑ تھی اور ہے ۔آمریت کو للکارنے والی ہر پکار میرے جسم وجاں میں تازگی کا سبب بن جاتی ہے ۔میں ہمیشہ سے اس ایک پکار کا متمنی ہوں جس پہ پوری قوم لبیک کہہ دے۔میں بڑا خوش تھا کہ ہمیں ایک متفقہ لیڈر مل گیا ہے جس پہ ہم سب بیک زبان ہیں ۔پورے اکیس بار سپریم کورٹ کے نمبر پر فون کیا۔اب تو آپریٹر میرے نمبر سے شناسا ہوگیا تھا ،جیسے ہی رسیو کرتا فٹ سے کہتا جی عمر عافی صاحب آپ عافیت سے ہیں ۔
میں ہلکی سی ہی ہی ہی کرکے جواب دیتا جی سر۔بس میری بات کروا دیں میرے مرشد سے تو وہ مجھے ،صاحب تو بہت مصروف ہیں کہہ کر ٹال دیتا۔اکیسویں بار اُس نے مجھے صوتی پیغام ریکارڈ کرانے کا کہا اور اگلے دن مجھے اسی نمبر سے کال آئی۔میرا دل چھلک کر حلق تک جا پہنچا جب میں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کی ریکارڈنگ سنی ،جس میں وہ مجھے میرا نام لے کر مخاطب کررہے تھے اور  میرے بار بار کال کرنے کا شکریہ ادا کررہے تھے۔
افسوس کہ وہ ایک کال تھی اور وہ بھی لینڈ لائن نمبر پر جسے میں محفوظ نہیں رکھ سکا ۔ورنہ محبوبہ کے خط کی طرح ریشمی غلاف میں سجا کر رکھتا۔ایک دن بغیر کسی پیشگی طے شدہ ملاقات کے دیوانوں کی طرح اسلام آباد جا پہنچا اور سپریم کورٹ کے سامنے جا بیٹھا۔لیکن یہاں منظر بڑا تکلیف دہ تھا۔ایک ایمبولینس سے اسٹریچر پر نیم مردہ شخص لایا گیا۔بتانے والےنے بتایا کہ یہ شخص تم سے زیادہ صحت مند تھا لیکن اب اس کا وزن محض سترہ کلو ہے۔عبدالباسط نام ہے، فیصل آباد کا رہائشی ہے اور لاپتہ افراد کے کیس میں اسے سپریم کورٹ میں پیش کیا جارہا ہے ۔آمریت کی سفاکیت کی منہ بولتی تصویر میرے سامنے تھی۔
پھر ایک دن آمنہ مسعود جنجوعہ صاحبہ کے احتجاجی کیمپ میں بھی جا پہنچا۔وہاں بھی آہیں تھیں نالے تھے۔جس شخص(عبدالباسط) کو سپریم کورٹ میں  پیش کیا گیا تھا محض چند دن کے بعد اللہ کو پیارا ہوگیا۔تب مجھے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی۔میں سارے راستے روتا رہا ۔ایک بوڑھی اماں نے پوچھا۔پتر کی ہویا ای کیوں پیا روندا ایں۔کیا کہتا بس خالی نظروں سے تکتا رہا اور واپس گھر آگیا۔آہستہ آہستہ در وا ہوتے گئے دیوانگی کا دور ختم ہوتا گیا اور یہ منکشف ہوگیا کہ عدلیہ کی آزادی محض فریب تھا۔
اور اب تو نیرنگئی زمانہ دیکھئے کہ افتخار چوہدری مشرف کی پشت پہ  کھڑے ہیں۔میرے سپنوں کی پوٹلی ختم ہوچکی تھی۔اب میری امیدوں کا مرکز عمران خان تھا جن کو میں ڈوبتی ہوئی ناؤ کا ناخدا سمجھ بیٹھا تھا۔یہ شخص لاپتہ افراد کی بات کرتا تھا۔سسٹم کو کے خلاف تھا۔ یہ درد مندوں کی آس تھا۔میں سپنوں کی پوٹلی لے کر پھر چل پڑا میرے قریبی دوست جانتے ہیں کہ ایک دن 2008 میں، میں نے ہی یہ پیش گوئی کی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کی اگلی پسند عمران خان ہوگا لیکن یاد رکھنا خان اصولوں پر سمجھوتا کبھی نہیں کرے گا۔یہ سوفیصد میرا ذاتی خیال تھا جو کہ قدرت نے سچ کردکھایا۔
لیکن آدھا۔۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی پسند تو بنے مگر اصولوں کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
ہمارے حلقہ سے ایم این اے کی نشست کے ناکام امیدوار جن کا ماشااللہ کافی بڑا حلقہ احباب ہے اور کافی وسیع کاروبار بھی۔مجھ ناچیز سے تھوڑی بہت شناسائی ہے ۔بھلے دنوں کبھی کبھی یاد فرما لیتے تھے اور گپ شپ بھی لگا لیتے تھے۔ایک بار اُن کے درِ دولت پر اسلام آباد میں اُس وقت کے پی پی پی کے وزیر قانون صاحب سے ملاقات ہوگئی۔چائے پیتے ہوئے اچانک وزیر صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔عام آدمی کی کیا رائے ہے عمران خان کے بارے میں؟۔میں نے عرض کی جناب یہ سونامی آپ کو لے ڈوبے گا۔اُنہوں نے خالص سندھی انداز میں مونچھوں کو بل دیا ، ایک ضرب المثل سے خان صاحب کونوازا  اور قہقہہ لگا کر کہنے لگے ۔۔
بابا یہ سووونامی تو دریائے جہلم میں ہی ڈوب جائے گا۔مجھے بڑا غصہ آیا لیکن میرِ محفل کے ادب کی وجہ سے خاموش رہا۔پھر آگے وہی ہوا کہ سونامی سوکھے ہوئے ٹیلوں سے سر پٹخ پٹخ کر دم توڑ گیا ۔لیکن سونامی زدہ چہرے ہنوز ان ٹیلوں کو دور دور سے دیکھ کر پانی کی لہروں سے تشبیہ دے رہے ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہےکہ خان صاحب سے کوئی ذاتی عداوت ہرگز نہیں بلکہ ایک طویل تلخ تجربے کی وجہ سے خان صاحب سے دل کھٹا ہوا ہے۔یہ کوئی جذباتی بات ہرگز نہیں اور نہ ہی مخالفت برائے مخالفت کا نتیجہ کہ خان صاحب کو دیکھ کر دل سے ہوک اٹھتی ہے۔
ہائے ظالم تو نے میرے جیسے لاکھوں لوگوں کے ارمانوں کا خون کیا ہے۔
یاد رہے کہ اس طرح کی جذباتی وابستگی اس تجربے کے بعد کسی اور لیڈر کیلئے دل میں آج تک نہ آسکی۔
مولانا فضل الرحمان صاحب سے میری جذباتی نہیں نظریاتی وابستگی ہے جو کہ محض چند دن کیلئے نہیں ہے
(جاری ہے)

Facebook Comments

محمد عمر عافی
آپ کے محروم قبیلے کا آپ جیسا فرد جو لفظوں کی جھیل کا ہلکا سا شناور ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply