• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پٹواری اور یوتھیے سے پاکستانی بن جانے کا سفر۔۔۔۔۔سید عامر رضا

پٹواری اور یوتھیے سے پاکستانی بن جانے کا سفر۔۔۔۔۔سید عامر رضا

مجھے عمران خان پسند نہیں ہیں۔ اسکی وجوحات خالصتاً ذاتی ہیں جو پھر کبھی عرض کروں گا۔ مجھے میاں صاحب اور زرداری دونوں سے کوئی  لگاؤ نہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں نہ “یوتھیا” ہوں نہ “پٹواری” اور نہ “پیپلیا”- لیکن میں  نے ان تینوں پارٹیوں کو کم از کم ایک ایک بار ووٹ دیا ہے. جس بھی پارٹی کو میں نے ووٹ دیا وہ اس الیکشن میں ہار گئی۔ لیکن ہر بار میں نے ووٹ اس امید پر  دیا کہ جمہوریت کا بول بالا ہو اور میرا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ ملک سے دہشتگرد ی ، کرپشن، بےایمانی کا خاتمہ ہو اور ہم دنیا میں سربلند ہوں ۔ میرا یہ یقین ہے کہ ایسا تب ممکن ہے جب ملک میں جمہوریت ایک تسلسل سے قائم ہو جائے۔ لہذا میں نے جمہوریت کے لیئے ووٹ کیا۔

جب پیپلز پارٹی کی حکومت کو ڈی ریل کرنے کی تحاریک چلائی جا رہی تھیں تو مجھے بہت بر ا لگا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ  ایسے ہم مارشل لاء کے لیے جواز فراہم کر رہے ہیں۔ جب نواز شریف کے خلاف دھرنے دیے جا رہے تھے تو بھی اسی خطرے کے پیش نظر میرا دل ڈوبتا تھا۔ اب عمران خان کی جیت سے جتنا پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہوئی، میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں حالانکہ میں نے خان کو ووٹ نہیں دیا۔ پچھلی دونوں حکومتوں نے کچھ قابلِ ستائش کام یقیناً سرانجام دیئے تھے لیکن وہ مکمل طور پہ deliver کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ ملک میں انتہا پسند سوچ اور دہشت گردی جس نہج پہ جا پہنچی ہے وہ دردِ دل رکھنے والے پاکستانی کیلئے باعثِ تشویش ہے۔ کرپشن اور اکنامک پرابلمز اس کے علاوہ ہیں۔ میں نے خان کو ووٹ نہیں دیا کیونکہ میری “ذاتی رائے” میں وہ یہ حالات ٹھیک نہیں کر پائیں گے۔ لیکن میں ان حالات کو ٹھیک کرنے میں خان کا ساتھ ضرور دونگا۔

میں سمجھتا ہوں کہ میری سوچ اور میرے عمل میں یہ تضاد میرا حق ہے۔میرا جمہوری حق ہے کہ میں اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ ڈالوں۔ اس بات پہ مجھے “یوتھیا” ، “پٹواری” اور “پیپلیا” بنا دینا غلط۔ میں پاکستانی ہوں، کم از کم الیکشن کے بعد تو بس پکا پاکستانی ہوں اور بس۔ اسی لیے مجھے عمران خان کی پہلی تقریر سے حوصلہ ملا اور خوشی ہوئی ہے کیونکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ “میرا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ ملک سے دھشتگرد ی ، کرپشن، بےایمانی کا خاتمہ ہو اور ہم دنیا میں سربلند ہوں”. اگر یہ سب خان کے ہاتھوں ہو تو بھی میں خوش ہوں، اگر میرے ملک میں تھانہ کچہری کلچر، صحت اور تعلیم کا نظام، دہشتگرد ی اور انتہا پسندی کا خاتمہ اسی حکومت کے ہاتھوں ہو تو کیا برا ہے۔ میں سمجھتا ہوں میری اس سوچ کی سپورٹ ہر پاکستانی کر سکتا ہے کیونکہ آ خر ہم سب یہی تو چاہتے ہیں۔ میری یہ دعا ہے کہ خان کے بارے میں میری “ذاتی رائے” غلط ثابت ہو اور یہ حکومت وہ سب کر کے دکھائے جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لہذا میں سب پاکستانیوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں مکمل “یوتھیا” ، “پٹواری” اور “پیپلیا” بننے کی ضرورت نہیں   لیکن پاکستان کے مفاد کیلئے ہمیں گورنمنٹ کے مثبت اقدامات کی سپورٹ کرتے رہنا چاہے۔ جب بھی بات ملک اور قوم کے مفاد کے خلاف  ہو اور یہ حکومت بھی وہ deliver نہ کر سکے جس کا وعدہ کیا گیا ہے تو ہمیں پٹواری بن کر تنقید کرنی چاہیے اور ایسی تنقید پہ کسی بھی یوتھیے کو جوش میں  نہیں  چاہیے۔ ہم سب پہلے پاکستانی ہیں چنانچہ ہمارے لیے انتہا پسندی اور شدت ہر صورت اور ہر لحاظ سے قابلِ مذمت ہونی چاہیے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply