مقدمہ شیخ و شاعری

لڑکپن کے دوست عزیزی ظہیر اسلم مدظلہ نےسالِ گذشتہ میری شاعری پر ایک خوبصورت فکاہیہ تحریر لکھی تھی جو قریبی دوستوں کے حلقہ میں شیئر کی گئی .جناب ظہیر اسلم کی محبتوں کا مقروض ہوں عدم الفرصت ہونے کے باوجود وقت نکال کر لکھا اور خوب لکھا .اللّه کرے زور قلم اور زیادہ . لیجئے آپ بھی حظ اٹھائیے .(احمد رضوان)
""
ایم اے اردو لٹریچر پنجاب یونیورسٹی کے شاعری کے پرچے میں ایک سوال اور اس کا جواب پیش خدمت ہے
س:مندرجہ ذیل غزل کا مفہوم آسان ترین الفاظ میں اس طرح پیش کریں کہ شاعر کا مطمع نظر بھی واضح ہو جائے اور ہمارے ملک کے موجودہ معاشرتی اور سیاسی حالات پر بھی منطبق ہو. اس کے علاوہ شاعر کا تعارف اور ان کے اردو ادب میں کام کا بھی مختصر جائزہ پیش ہو.
جواب:
سب سے پہلے ہم شاعر کا تعارف اور ان کی اردو ادب میں خدمات کو پیش کریں گے تاکہ ان کی اس نابغہ روزگار غزل کا مفہوم سمجھنے میں آسانی ہو
شاعر اس غزل کے ہیں جناب احمد رضوان صاحب
پیدائش پاکستان کے مشہور شہر فیصل آباد کی جبکہ غمِ روزگار کے سلسلہ میں آج کل کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں مقیم ہیں. انہوں نے شاعری بقول ان کے خود چھٹپنے میں ہی شروع کر دی تھی. ثبوت اس کا صوفی تبسم کے نام سے شائع ہونے والی بچوں کی نظموں کی کتاب جھولنے کی صورت میں پیش کرتے ہیں. جب ان سے نقادوں نے کہا کہ آپ ڈھکے چھپے الفاظ میں صوفی تبسم پر سرقے کا الزام لگا رہے ہیں تو فرمایا کہ آپ جھولنے کے پہلے ایڈیشن کا سال اشاعت نکال کر دیکھیں تو وہی میرا سال پیدائش بھی ہے اور یہ نظمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ یہ کسی پالنے میں کھیلنے والے بچے کا کلام لگتی ہیں جبکہ اس زمانے میں صوفی صاحب قریب المرگ تھے.
ان کی شاعری کو دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے.
ایک وہ دور جب یہ فیصل آباد میں پلے بڑھے تعلیم حاصل کی اور غم روزگار کے سلسلہ میں دھکے کھاتے رہے.
اس دور کو بھی دو حصوں میں منقسم کیا جائے اور ان کی شاعری کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات فوراً محسوس ہوتی ہے کہ جو شاعری انہوں نے دوران تعلیم کی اس میں ابتدا میں طنز و مزاح اور بعدازاں زندگی سے پیار کے رنگ چھلکتے ہیں. وجہ اس کی سمجھ میں یہ آتی ہے کہ طنز و مزاح تو فیصل آباد کے لوگوں کا خاصہ ہے جبکہ زندگی سے پیار اس لئے تھا کہ غمِ روزگار کا شائبہ تک نہ تھا کیونکہ تعلیم کا خرچ اور ان کا اپنا جیب خرچ ان کو ان والد صاحب سے برابر ملتا تھا.
دوسری وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ جس ادارے سے انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی وہاں اگر ایک پرائمری پاس بچے کو بھی داخلہ مل جائے تو وہ بھی شرطیہ فارغ التحصیل ہو کر نکلتا ہے.
فیصل آباد میں رہتے ہوئے ان کی شاعری کا دوسرا دور البتہ تلخی اور کڑواہٹ لئے ہوئے ہے.
شنید ہےکہ ان کی زندگی سے وابستہ امیدیں اس دور میں دم توڑ گئی ہوں گی اور گھر والوں کی طرف سے اور ان کے مبینہ محبوب جن کا اکثر وہ اپنی شاعری میں کرتے تھے کی طرف سے کچھ تلخ باتیں سننے کو ملیں ہوں گی.
ایک اور وجہ ان کی رزمیہ نما شاعری کی یہ سمجھ میں آئی کہ اپنا پیٹ پالنے کے سلسلے میں روزگار کی تلاش بھی ان کے تعلیمی کیرئیر کی وجہ سے کار بےکار ثابت ہوئی ہوں ہو گی
ان کی شاعری کا دوسرا دور تب کا ہے جب وہ کینیڈا میں رہائش پذیر ہوئے. اس کو بھی دو حصوں میں بانٹ لیں تو پہلے دور میں جبکہ وہ پردیس میں اپنے پاؤں جمانے کی کوشش میں مصروف تھے ان کا لب و لہجہ تھوڑی مایوسی لئے ہوئے ہے جبکہ دوسرے دور میں جبکہ وہ ایک خوشحال زندگی کی طرف گامزن تھے پھر وہی چلبلاہٹ اور کلبلاہٹ بلکہ غراہٹ ان کی شاعری میں دکھتی ہے جو ان کی شاعری کا خاصہ ہے. مندرجہ بالا غزل بھی ان کے اسی دور کی ہے.
ایک انٹرویو میں جو پاکستان سے گئے ہوئے ایک ادیبوں کے پینل جس میں جناب احمد ندیم قاسمی مرحوم جنابہ پروین شاکر مرحومہ اور جناب ظفر اقبال صاحب پر مشتمل تھا کو ایک نجی زندگی کے بارے میں پوچھے گئے سوال میں جناب نے سرگوشی میں بتایا کہ وہ اپنی پرانی محبوبہ کی یاد تک کو دل سے نکال چکے ہیں اور اب خوشحال ازدواجی زندگی بسر کر رہے ہیں.
ان کے دو پیارے اور گول مٹول سے بیٹے اور ایک پھول سی بیٹی ہے. اپنی زوجہ محترمہ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر صرف اتنا ہی کہا کہ شادی اپنی برادری میں مگر رشتہ داروں سے باہر کی کیونکہ ایک شاعر کے سوشل سٹیٹس کے متعلق ان کے قرابت داروں کی رائے کچھ اچھی نہ تھی. اپنے سسرال اور بیوی کو اپنے شاعر ہونے کے بارے میں بھی بعد از نکاح ہی بتایا. وہ یوں کہ نکاح کے فوری بعد اپنی شادی کا سہرا فی البدیہہ کہا اور اپنے ہی ہاتھوں سے لکھا تاکہ کسی کو کچھ سمجھ نہ آ سکے.
اب ان کی منتخب نظموں اور غزلوں سے چند منتخب اشعار پیش کئے جا رہے ہیں. اور ان کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ان کا ہر شعر پکار پکار کر خود بتائے گا کہ وہ کس دور میں اور کس موڈ میں لکھا گیا.
ایک اور بات چند نقادوں کا یہ ماننا ہے کہ ان کی شاعری میں بلبلاہٹ کا عنصر غالب آتا جا رہا ہے وجہ اس کی ایک مشہور نقاد جناب بشر بیلٹوی نے یہ بتائی کہ بیرون ممالک مقیم اکثر پاکستانی شاعروں کی شاعری اور نثر نگاروں کے مضامین میں یہ عنصر خود بخود جگہ بنا رہا ہے
اب میں مزید جناب احمد رضوان صاحب کے کمال فن اور شائقین شاعری کے درمیان رکاوٹ نہیں بنوں گا. ان کی شاعری کا لطف اٹھائیے
چیونٹی کا سر پھوڑ دو
چلائے تو چھوڑدو
ایک دو ایک دو
صبح لیتا ہوں شام لیتا ہوں
یارو شک نہیں خدا کا نام لیتا ہوں
سانپوں کو بند کر دیا سپیرے نے یہ کہہ کر
انسان کافی ہے انسان کو ڈسنے کے لیے
میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے
مجھے غم دینے والے تو خوشی کو ترسے
رہا گردشوں میں ہر دم میرے عشق کا ستارہ
کبھی ڈگمگائی کشتی کبھی کهو گیا کنارہ
کوئی پیار ہمیں بھی کرتا ہے
ہم پر بھی کوئی مرتا ہے
ہمیں تم کیا سمجھتے ہو؟
محبت کے خدا ہم ہیں ہم ہیں
سہانا سفر اور یہ موسم حسیں
ہمیں ڈر ہے ہم کهو نہ جائیں کہیں
کوئی دل کے کھیل دیکھے کہ محبتوں کی بازی
وہ قدم قدم پہ جیتے میں قدم قدم پہ ہارا
یہ ہماری بدنصیبی جو نہیں تو اور کیا ہے؟
کہ اسی کے ہو گئے ہم جو نہ ہو سکا ہمارا
پڑے جب غموں سے پالے رہے مٹ کے مٹنے والے
جسے موت نے نہ پوچھا اسے زندگی نے مارا
آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے
درد میں ڈوبے گیت نہ دے غم کا سسکتا ساز نہ دے
اور بھی بے شمار اشعار ہیں. ماشاءاللہ ستائیس دیوان ان کے اپنے خرچے پر چھپ چکے ہیں اور مزید پر کام جاری ہے. ادب کا سر بھاری ہے ڈر ہے کہیں پاؤں بھی بھاری نہ کردیں۔ کوئی تو روک لے۔
والسلام۔شیخ ظہیر اسلم عفی عنہہ

Facebook Comments

شیخ ظہیر اسلم
تعلیم انجینئرنگ مگر پیشہ آباء سے منسلک یعنی پڑھ لکھ کربھی لوگوں کے تن ڈھانپنے کا کام۔مزاح سے خصوصی شغف۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”مقدمہ شیخ و شاعری

Leave a Reply to عمران Cancel reply