ریاست کا چوتھا ستون۔۔ اظہر سید

ہم بدترین میڈیا کے دور میں زندہ ہیں ۔ مفادات کے تحفظ میں وہ سانپ بن چکے  ہیں جو اپنی ہی نسل کو کھا جاتا ہے۔جھوٹ ،فراڈ ،دھوکہ اور مکاری  نئی نسل کو سکھا رہے ہیں اس پر فخر بھی کرتے ہیں ۔میڈیا جب کسی معاملہ پر پوزیشن لے لے تو وہ میڈیا نہیں رہتا پارٹی بن جاتا ہے اور جب میڈیا پارٹی بن جائے تو معاشرہ سچ سے محروم ہو جاتا ہے جھوٹ اور دھوکہ دہی کا شکار ہو جاتا ہے ۔معاشرہ کو جب فراڈ اور دھوکہ سے کسی خاص سمت میں موڑ کا کوئی ہدف کوئی کامیابی حاصل کی جائے یہ کامیابی نہیں بدترین شکست  ہے ۔جب معاشرہ کو گمراہ کیا جائے اور کامیابی حاصل کی جائے تو اس کی قیمت مستقبل کی نسل کی صورت میں چکانی ہوتی ہے  جو نسل جھوٹ اور فراڈ کی دنیا میں شعور حاصل کرکے مستقبل میں معاشرہ کی باگ دوڑ سنبھالے وہ معاشرہ کو تباہ تو کر سکتی ہے مستحکم نہیں۔
سیاسی جماعتوں نے اپنے سائبر سیل بنا لئے ہیں جہاں سے دن رات جھوٹ کا سستا بازار لگایا جاتا ہے لوٹ سیل میں جھوٹ اور فراڈ فروخت ہوتا ہے ۔سائبر سیلوں میں فوٹو شاپ ہوتی ہے حقائق مسخ ہوتے ہیں جھوٹ تخلیق ہوتا ہے ۔اداروں نے بھی سائبر سیل بنا لئے ہیں اتھارٹی کو چیلنج کرنے والی سیاسی قوتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔اوسط درجہ کے منتظم فوٹو شاپ کی اجازت دیتے ہیں لوگوں کو گمراہ کرنے پر قہقہے لگاتے ہیں کامیابی پر ایک دوسرے کو ڈنر دیتے ہیں ۔غدار بنائے جاتے ہیں ہیرو پیدا کئے جاتے ہیں ۔کیا سائبر سیلوں کا کام صرف اتنا رہ گیا ہے ملک و قوم کیلئے جانیں قربان کرنے والے افسران اور جوانوں کی خون میں لت پت اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوشگوار لمحوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کی جائیں انکے خون کی قیمت پر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا جائے۔کیا سیاسی جماعتوں کے میڈیا اور سائبر سیلوں کا کام یہ ہے کہ کوئی بھارت بزنس میں جندل  کی کسی سیاسی راہنما کے ساتھ  تصاویر جاری کرے فوٹو شاپ کرے ایک طرف کسی شہید جوان رعنا کی تصویر لگائے اور کیپشن میں سیاسی راہنما کو غدار قرار دے ۔
کیا میڈیا اور سائبر سیلوں کا کام یہ ہے بھارتی بزنس مین انیل مسرت کی دوسری جماعت کے لیڈر کے ساتھ تصویر جاری کرے اور قوم کو بتائے اصل غدار پہلے والا نہیں دوسرے والا ہے ۔
25 سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا اس دشت کی سیاحی کرتے ہوئے جتنا بدترین میڈیائی دور اس وقت ہے کبھی نہیں دیکھا۔سب پاوں جوڑ کر جھوٹ بول رہے ہیں سب کا ہدف نوجوان نسل ہے جس نے مستقبل میں اس ملک کو چلانا ہے ۔چیف جسٹس کہتا ہے بھاشا ڈیم کیلئے بیرون ملک پاکستانیوں سے فنڈ ریزنگ کیلئے عالمی دورے کروں گا کونسا آئین اور کونسا قانون اس کی اجازت دیتا ہے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر  عمران خان کی کامیابی پر ٹویٹ کرتا ہے ۔عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور آرمی چیف کہتے ہیں ووٹ کی طاقت سے دشمن قوتوں کو شکست دی جائے گی ۔ہم نے یہ ملک کسطرح چلانا ہے کس طرح اس کو مہذب جمہوری ریاست بنانا ہے کسی کو فکر نہیں نصف قومی زندگی فوجی حکمرانوں کی ان کہہ مکرنیوں میں گزر گئی ملک کو کرپشن اور بدعنوانی سے پاک کرنا ہے اور نصف قومی زندگی سیاستدانوں کی اس جدوجہد میں گزر گئی عوام کے منتخب نمائندوں کے طور پر خارجہ اور داخلہ پالیسوں کی ملکیت حاصل کریں ۔اس جدوجہد میں کوئی پھانسی کے پھندے پر لٹک گیا کسی کو انتہا پسند طالبان نے خود کش حملے میں راہ سے ہٹا دیا کسی نے پرویز رشید جاوید ہاشمی فیصل صالح حیات جہانگیر بدر اور بے شمار دوسرے سیاستدانوں کی طرح جیلوں اور قید خانوں میں بدترین تشدد کا سامنا کیا کوئی وزارت عظمی سے رسوا کر کے نکالا گیا اور اس سارے سلسلے میں میڈیا نے ہمیشہ دست و بازو کا کردار ادا کیا۔
اب تو انتہا ہو چکی ہے پہلے صرف پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا بات صرف غداری اور کرپشن تک محدود رہتی تھی ضرورت پڑھنے پر غلام اسحاق مسٹر 10 پرسنٹ سے وفاقی وزیر سرمایہ کاری کا حلف بھی لے لیتے تھے ۔اب تو یہ عالم  ہے جھوٹ تخلیق باضابطہ تخلیق ہو رہا ہے ۔ایک تصویر جاری ہوتی ہے لیڈر سگریٹ میں چرس بھر رہا ہے جوابی حملہ میں اڈیالہ جیل کے ملاقاتی کے بریف کیس سے شراب کی بوتلیں برآمد ہو جاتی ہیں اور ہدف دوسرا لیڈر ہوتا ہے ۔
ایک گھی ملز کے مالک کواپنی گنہگار آنکھوں سے 15 سال قبل  ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس کے کمرہ کے باہر گھنٹوں انتظار کرتے دیکھتے تھے میڈیا ہاوس کا مالک بن کر بہت زیادہ طاقتور لوگوں کو انتظار کراتا ہے ۔جس نے 22 سال پہلے اس دوکان سے موٹر سائیکل قسطوں پر لی تھی جہاں سے ہم نے بھی لی تھی بہت زیادہ بڑا اینکر بن کر جہاز کا مالک بن چکا ہے۔ایک اینکر مرتے ہوئے باپ سے پراپرٹی دستاویزات پر دستخط کراتے ہوئے ایک خلیجی ریاست میں گرفتار ہوا تھا قوم کو کرپشن کے نقصانات سے آگاہ کرتا ہے۔ایک بہت بڑا صحافی اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں ایک ڈنر کے دوران اپنی آنکھوں سے سنہرے چمچ اور کانٹے اپنی جیب میں چھپاتے دیکھا ۔کامران لاشاری سے راول ڈیم میں پلے ایریا کا ٹھیکہ لینے اور ماہانہ منافع پر آگے فروخت کرنے والا روز رات کو ٹی وی پر بیٹھ کر بدعنوانی کے نقصانات بتاتا ہے۔جس نوجوان کو نکمے پن کی وجہ سے مذہبی بیٹ ملتی تھی وہ ایک چینل پر سٹار بن چکا ہے ۔ایک چینل کے ڈائریکٹر نیوز سے حالیہ دنوں میں  پوچھا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاو جو کچھ کر رہے ہو صحیح ہے عجیب و غریب جواز دینے لگا ۔اس ملک پر رحم کریں آئیں اور قانون کے دائرہ کار میں رہیں ۔پرویز الہی کو سپیکر پنجاب اسمبلی نہیں بنانا چاہے تھا اگر بنا دیا ہے نیب کو پانچ سال کیلئے روک دیں جمہوریت کا تماشا نہ لگائیں ۔عمران خان کو وزیراعظم نہ بنواتے اگر بنا دیا ہے تو انہیں عدالتوں اور اداروں میں رسوا نہ کریں یا پھر جمہوریت ختم کر دیں اور پارلیمنٹ میں مجلس شوری قائم کر دیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ریاست کا چوتھا ستون۔۔ اظہر سید

  1. ان صحافیوں کا کڑا احتساب ہونا چاہیے صرف گن کر تین نام ہیں اس وقت صحافت کہ جو اس وقت کسی کہ بھی درباری نہیں ہیں ہارون الرشید، سہیل ورائچ، وسیم بادامی، باقی کسی کا بھی نام لیں اسکی وفاء داری کسی ایک جماعت سے منسوب ہوگی

Leave a Reply to numan Cancel reply