سعید ابراہیم کے نام ۔۔۔ مبشر زیدی

ہمارے دوست، مہربان بلکہ استاد سعید ابراہیم صاحب نے کل اور آج کئی اہم اور دلچسپ سوال کیے ہیں۔ میں نے وہاں جواب دینے کے بجائے سوچا کہ سوالات جمع کرکے ایک ساتھ ان کا جواب دیا جائے۔ ممکن ہے کہ اس بارے میں سوچنے سے ہم اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کا بہتر خیال رکھ سکیں۔
سوال: دوران تعلیم کون سا سبجیکٹ آپ کا فیورٹ تھا؟
جواب: اردو میرا پسندیدہ سبجیکٹ تھا لیکن یہ بات مجھے روایتی تعلیم مکمل ہونے کے بعد سمجھ آئی۔ خانیوال میں پہلی سے پانچویں جماعت تک مجھے ہر سال چھ کتابیں پڑھنا پڑیں یعنی انگریزی، اردو، حساب، معاشرتی علوم، دینیات اور سائنس۔ مجھے کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا اور میں نے اسکول میں داخل ہونے سے پہلے تیسری جماعت تک کی اردو کتابیں پڑھ لی تھی۔ پہلی میں تھا تو چوتھی جماعت کی اردو پڑھ چکا تھا۔ اردو سے دلچسپی کی وجہ سے کم از کم تین دوسرے مضامین معاشرتی علوم، دینیات اور سائنس پڑھنا اور سمجھنا آسان ہوگیا تھا۔
ہم انگریزی پڑھنے کا مطلب سمجھتے ہیں انگریزی زبان۔ اردو پڑھنے کا مطلب سمجھتے ہیں اردو زبان۔ یہ درست نہیں۔ ایم اے اردو کا مطلب ہوتا ہے اردو ادب۔ جب کوئی دوسرا ایم اے کرنا چاہتا ہے تو پھر ایم اے اردو لسانیات کرسکتا ہے۔
چھٹی جماعت گورنمنٹ ہائی اسکول میں پڑھی۔ وہاں کئی مضامین کا اضافہ ہوا جن میں ڈرائنگ اور عربی شامل تھے۔ حساب ریاضی میں اور دینیات اسلامیات میں بدل گئی۔
ساتویں کراچی میں آکر پڑھی اور یہاں تمام مضامین انگریزی میں تھے۔ سوشل اسٹڈیز، اسلامک اسٹڈیز اور جنرل سائنس۔
میٹرک میں دوسروں کی دیکھا دیکھی سائنس گروپ لے لیا حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ چنانچہ نویں میں انگریزی، سندھی اور مطالعہ پاکستان کے ساتھ کیمسٹری بایولوجی پڑھی اور دسویں میں انگریزی، اردو اور اسلامیات کے ساتھ فزکس اور میتھ۔
انٹر کامرس سے کیا جس میں چار مضامین لازمی تھے یعنی انگریزی، اردو، مطالعہ پاکستان اور اسلامیات۔ باقی مضامین کے نام ملاحظہ کریں۔ اکاؤنٹنگ، معاشیات، بینکاری، اصول تجارت، تجارتی جغرافیہ، کاروباری حساب، شماریات۔ مجھے کسی مضمون سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
بی کام کے بعد تسلی نہیں ہوئی تو بی اے کیا لیکن اس دوران احساس ہوچکا تھا کہ میں اردو لکھنے پڑھنے کے لیے پیدا ہوا ہوں۔ بی اے میں اردو کے علاوہ تاریخ اور سیاسیات کے مضامین لیے۔ پھر ایم اے اردو ادب کیا۔ پھر ایم فل میں داخلہ لیا۔ تعلیم نامکمل ہے۔
میرا تعلیمی کریئر اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے بچے درست مشوروں سے محروم ہیں۔ میٹرک سائنس، انٹر کامرس، بی اے ایم اے اردو۔
میں جانتا ہوں کہ آج پانچویں جماعت کا کوئی بچہ اردو کو اپنا پسندیدہ مضمون قرار دے گا تو سب کہیں گے کہ یہ زندگی میں کچھ نہیں کرنے والا۔ یہ نالائق اور سہل پسند ہے۔ کوئی بھی نہیں مانے گا کہ اردو پڑھنے والا پرائمری ٹیچر کے سوا کچھ اور بن سکتا ہے۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ ایک نالائق آدمی ہوں اور مجھے اردو جیسے آسان سبجیکٹ سے دلچسپی رہی اگرچہ مہارت اس میں بھی نہیں ہے۔ لیکن اس زبان اور مضمون سے محبت نے مجھے روزگار بھی دیا، شہرت بھی اور بے شمار دوست بھی۔
۔
دوسرا سوال: آپ کو کس کلاس میں یہ محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھایا جارہا ہے وہ آپ کو سمجھ بھی آنے لگا ہے؟
جواب: نویں کو چھوڑ کر، جب سال کے بیچ میرا اسکول تبدیل ہوگیا، بارہویں تک میں ہمیشہ پوزیشن لیتا رہا۔ بلکہ کبھی تیسری پوزیشن بھی نہیں آئی۔ ہمیشہ فرسٹ آیا یا سیکنڈ۔ سب لوگ مجھے ذہین کہتے تھے لیکن سچ یہ ہے کہ میری کامیابیاں صرف حافظے کا کمال تھیں۔ میری یادداشت غضب کی تھی۔ اسکول کالج کے زمانے میں یہ حال تھا کہ جو کاغذ میرے سامنے سے گزر گیا، وہ گویا دماغ میں اسکین ہوگیا۔ لیکن یہ ایسی ہی بات ہے کہ ہم آیات اور سورتیں یاد کرلیتے ہیں لیکن ان کا مطلب نہیں جانتے۔
آپ آج مجھ سے اسکول کے زمانے میں پڑھی ہوئی باتیں پوچھیں گے تو کچھ یاد نہیں۔ جو یاد ہے، وہ اپنی مرضی اور خواہش سے پڑھا ہوا ہے۔ اب میں اپنے بچوں کو دیکھتا ہوں کہ ان کے اسکولوں میں رٹا نہیں لگوایا جاتا، کونسیپٹ کلیئر کیے جاتے ہیں۔ کونسیپٹ سمجھ میں آجائے تو ساری زندگی یاد رہتا ہے۔ اس کے لیے ذہین ہونا شرط نہیں۔ تعلیم کا مقصد فرسٹ سیکنڈ آنا نہیں، زندگی بہتر گزارنے کے قابل بنانا ہے۔ ہمارا نصاب، طریقہ تعلیم اور اساتذہ یہ بات نہیں جانتے۔
۔
سوال: کیا آپ کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں کوئی ایسا ٹیچر ملا جو واقعی استاد کہلانے کا مستحق ہو؟
جواب: مجھے اسکول، کالج، یونیورسٹی میں بہت سے اچھے لوگ ملے ہیں لیکن بے حد معذرت اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اچھے استاد نہیں۔ مجھے اپنے استادوں اور استانیوں سے محبت ہے لیکن وہ سب خود بے استادے تھے۔ گریجویشن یا ماسٹرز کرکے پڑھانے سے پڑھانا نہیں آتا۔ بی ایڈ ایم ایڈ کرنے سے بھی نہیں آتا۔ میرے اسکول میں ایک ٹیچر بی ایڈ تھیں جو خود بھی رٹا لگاکر پاس ہوئی تھیں اور ہم سے بھی رٹے لگواتی تھیں۔ ہمارے زمانے میں ٹیچرز ٹریننگ کورسز نہیں ہوتے تھے۔
ملک میں ایسے اداروں کی ضرورت ہے جہاں استاد کو تعلیم دینے کا طریقہ سکھایا جائے۔ میں نے پڑھا ہے کہ ان لوگوں کو پائلٹ کا لائسنس نہیں دیا جاتا جو جلدی غصے میں آجاتے ہیں۔ استاد بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اسے اپنے مضمون پر عبور ہونا چاہیے لیکن بچوں کی نفسیات کا علم بھی ضروری ہے۔ اس میں قائدانہ صلاحیت ہونی چاہیے جو بیشتر اساتذہ میں نہیں ہوتی۔ اسے جدید رجحانات کا علم ہونا چاہیے کیونکہ صرف وہ نئی نسل کا امتحان نہیں لیتا، نئی نسل بھی اسے پرکھتی ہے۔ استاد کو روشن خیال ہونا چاہیے کیونکہ ایک نسل دوسری نسل کو معاشرے کے لیے تیار کررہی ہوتی ہے۔ اگر استاد تنگ ذہن کا مالک ہوگا تو خدشہ ہے کہ وہ اگلی نسل کو بھی تنگ ذہن بنادے گا۔
۔
سوال: کیا آپ کے زمانے میں سکول میں بزم ادب کی روایت تھی؟
جواب: جی ہاں، یہ روایت میں نے چھٹی جماعت تک دیکھی۔ اس زمانے میں جمعرات کو آدھی چھٹی اور جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی۔ جمعرات کو آخری پیریڈ بزم ادب کا ہوتا تھا۔ اس میں خوش گلو بچے نعتیں پڑھتے تھے۔ کوئی بچہ تقریر کرتا اور کوئی کہانی سناتا تھا۔ میں نے اپریل 1984 سے مارچ 1985 تک گورنمنٹ ہائی اسکول خانیوال میں چھٹی جماعت پڑھی تھی۔ ہمارے کلاس ٹیچر عبدالشکور تھے۔ ایک لڑکے کی آواز بہت اچھی تھی۔ مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ وہ نعتیں پڑھتا تھا۔ اس کے دوسری جماعتوں سے بھی بلاوے آتے تھے۔ یہ بات ماسٹر عبدالشکور کو پسند نہیں آتی تھی۔
ہر جماعت کی اپنی بزم ادب ہوتی تھی۔ ایک بار طے ہوا کہ پورے اسکول کی ایک ساتھ بزم ادب ہوگی۔ ماسٹر عبدالشکور نے مجھے حکم دیا کہ شاہ ولی اللہ پر تقریر کرنی ہے۔ میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ میں نے زندگی میں کبھی تقریر نہیں کی تھی۔ ماسٹر صاحب کو سوچنا چاہیے تھا کہ جس بچے نے کلاس میں تقریر نہیں کی، وہ پورے اسکول کے سامنے کیسے کرے گا۔
خیر جناب، میں نے شاہ ولی اللہ پر تقریر لکھ کر ماسٹر صاحب کو دکھائی۔ انھوں نے منظور کرلی۔ جمعرات کو پورا اسکول ہاکی گراؤنڈ میں جمع ہوا۔ ہیڈماسٹر کلاچی صاحب بھی آکر اسٹیج پر بیٹھے۔ قرات اور نعت کے بعد میرا نام پکارا گیا۔
میں مرے مرے قدموں سے اسٹیج پر پہنچا۔ تقریر والا کاغذ خدا جانے کہاں اڑ گیا۔ زندگی میں پہلی بار حافظے نے ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ بس اتنا یاد آیا کہ تقریر کرنے والے کبھی ایک ہاتھ بلند کرتے ہیں، کبھی دوسرا ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ میں نے کبھی ایک بازو ہلایا، کبھی دوسرے کو حرکت دی۔ منہ سے آواز نکلی تو الفاظ اپنی سمجھ میں بھی نہ آئے۔ میں نے کوشش کرکے شاہ ولی اللہ کو پیدا تو کروایا لیکن اس کے بعد ٹیپ کے ہیڈ میں کچرا آگیا۔ کچھ گھررر گھرر ہوئی، کچھ غاؤں غاؤں۔ میرے ممدوح نے اسلام پر بے شمار احسانات کیے تھے لیکن اس وقت ایک بھی یاد نہ آیا۔ اسٹیج پر بیٹھے ماسٹر صاحب نے ایک گھرکی دی تو میں نے گھبرا کر شیخ سعدی کی ایک حکایت، قائداعظم کا ایک فرمان اور علامہ اقبال کا ایک شعر شاہ ولی اللہ کے نام سے سنا ڈالا۔ حاضرین نے تالیاں بجائیں تو میں پاک سرزمین شاد باد کہہ کر اسٹیج سے اتر آیا۔
اب تقریب رونمائیوں، اردو کانفرنسوں اور لٹریچر فیسٹولوں کے مقررین کے پرمغز خطاب دیکھتا ہوں تو شاہ ولی اللہ یاد آجاتے ہیں۔

Facebook Comments

مبشر علی زیدی
سنجیدہ چہرے اور شرارتی آنکھوں والے مبشر زیدی سو لفظوں میں کتاب کا علم سمو دینے کا ہنر جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سعید ابراہیم کے نام ۔۔۔ مبشر زیدی

  1. واہ۔ یہی کچھ حال اپنا بھی ہے مگر۔
    اب میں راشن کی قطاروں میں نظر آتا ہوں
    اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں

Leave a Reply to محمد عادل Cancel reply