سراب

سراب
نعیم الدین جمالی سیاست شطرنج کی طرح ہے، اس کا کچھ پتا نہیں چلتا، کب کس وقت پانسہ پلٹ جائے اور کھیل کیا سے کیا ہوجائے ـ اس وقت الیکشن کے دن قریب آرہے ہیں، سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے،وفاداریاں بے وفائیوں میں تبدیل ہورہی ہیں، وفادار لوگ سیاسی اور ذاتی مفاد کی خاطر ایک دوسرے کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک پارٹی دوسری پارٹی کے بندوں کو سونے کے بھاؤ میں خرید رہی ہے، آپس میں نت نئے معاہدے اور نئے عہد وپیمان ہورہے ہیں، سیاسی مفاد کی خاطر عوام کو پہلے سے زیادہ سبز باغ دکھائے جارہے ہیں، جو باغ پہلے تو کبھی وجود میں ہی نہیں آتے اگر آ بھی جائیں تو وہ خشک اور بے فائدہ ہوتے ہیں ـہر روز نیوز چینل میں یہ خبریں نشر ہوتی ہیں کہ فلاں شخص فلاں پارٹی میں چلا گیا، ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کی حمایت کردی، عوام کو یہ بھیانک کھیل اب تک سمجھ نہیں آسکا ـ
پہلے یہ ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کی مخالفت اور ووٹ کی لالچ میں عوام کے لیے کچھ ترقیاتی اور فلاحی کام ہوجاتے تھے، کچھ سفارش اور رشوت دے کر کسی غریب کو نوکری مل جاتی تھی، جس پر بچوں کا پیٹ پالا جا سکتا تھا ـ بڑے عہدے روایت قدیم کی طرح وی آئی پیز کو ہی ملا کرتے تھے ـ لیکن اب تو کھیل ہی بدل چکا ہے، لٹیرے لٹیروں کے دوست بن چکے ہیں، سب یہ خیالی پلاؤ پکا رہے ہیں کس طرح زیادہ سے زیادہ عوام کو لوٹ کر ان کا بھرکس نکالا جا سکے؟کس طرح سے ان کو بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر اپنا محتاج کیا جاسکے ، پھول نما نوجوان نسل کو تعلیم جیسے زیور سے محروم کرکے جہالت کی بھینٹ چڑھایا جا سکے ؟
کس طرح غریب عوام کے حقوق کو پامال کیا جاسکے؟؟نیز سیاست اب عوام کی نگرانی اور نگہداشت کرنے کے بجائے لوٹ کھسوٹ کی ایک عمدہ مارکیٹ کا روپ دھار چکی ہے ، اس میں کرتا دھرتا کردار تو سیاست دان ہی ہیں لیکن ان سے کچھ کم ہم بھی نہیں!!معلوم بھی ہے کہ فلاں پارٹی کی رکن نے ہم سے ووٹ لیے تھے اور پھر علاقے سے ایسے غائب ہوئے جس طرح مثل مشہور میں ایک جانور کے سر سے سینگ غائب ہوئےتھے ، لیکن جب اگلے الیکشن میں وہ گائوں کے چند وڈیروں کو لیکر دوبارہ ووٹ لینے اور سال بھر کی تعزیتیں کرنے آتے ہیں تو ہمارا ووٹ پھر انہی وڈیروں کو جاتا ہے ـ
اس میں ہم بھی برابر کےقصور وار ہیں، ہماراضمیر کیوں نہیں جاگتا ؟ ہمیں اپنے مقاصد کیوں نظر نہیں آتے ـبات واضح ہے جب تک ہم خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے، اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے جتن نہیں کریں گے تو یہ سیاست یہ پارٹیاں یہ ووٹ اور الیکشن ہمارے لیے” سراب “ہی ہیں ـسراب اس عکس کو کہا جاتا ہے جو صحراء میں دور سے پانی دِکھتا ہے لیکن قریب جاکر معلوم ہوتا ہے کہ وہ ریت ہے ـ

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply