بہار میں ہندوستانی سیاست کا دنگل/صفدر امام قادری

ہندوستانی سیاست میں کئی نئے سوالات سر اٹھا رہے ہیں ۔ کیا نتیش کمار پہلے کی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کا حصہ بن جائیں گے ؟کیا لالو یادو پر سی بی آئی اور مرکزی حکومت کی جتنی بھی مہم کام کررہی ہے، اس میں نتیش کمار کی رضامندی شامل ہے؟ کیا نتیش کمار ہندستان میں سیکولر سیاست کے محاذ کو چھوڑ کر فرقہ پرست طاقتوں کا دامن تھام کر اپنے آگے کے سیاسی مفاد کے حصول میں مصروف ہوجائیں گے؟ کیا نتیش کمار جن سوالوں پر عظیم محاذ کے نام سے بہار میں لالو یادو کے ساتھ مل کر سرکار تک پہنچے، عوامی دباو کو پسِ پشت ڈال کر ووٹ دہندگان کے ساتھ دھوکے کا برتاوکریں گے؟

ایسے سوالوں پر پورا ملک کچھ نہ کچھ بول رہا ہے ۔ نتیش کمار ایسے موضوعات پر ہمیشہ خاموشی کو اولیت دیتے ہیں ۔ بیچ میں وہ بیمار ہوگئے اور سیاسی ہلچل کے بیچ صحت یاب ہونے کے لیے راجگیر میں آرام فرمانے کے لیے چلے گئے۔ اس دوران سی بی آئی نے لالو پرساد کے بیٹے بیٹی کو نوٹس کیا پھر اُن کے گھر پر چھاپا ماری ہوئی اور سی بی آئی کے اعلان کے مطابق بہت ساری بے نامی جائیداد کے کاغذات برآمد ہوئے ۔ اسی دن سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ لیڈروں نے یہ مانگ رکھی کہ وزیراعلی تیجسوی یادو کو نائب وزیر اعلی کے عہدے سے برطرف کریں ۔ بہار کے سابق نائب وزیر اعلی سشیل کمار مودی اورمرکزی حکومت میں وزیر راج ناتھ سنگھ نے طرح طرح سے یہ سوال پیش کیا ۔ یہاں تک کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی دفتر دہلی میں سوشیل کمار مودی کی طرف سے پریس کانفرنس ہوئی اور وہاں سے بھی یہی اعلان ہوا۔

نتیش کمار دنیا جہان کے مسئلوں پر مضبوطی کے ساتھ اپنی باتیں پیش کرنے کے لیے پہچانے جاتے ہیں مگر آج کی تاریخ تک بہار کی سیاست اور اس میں مرکزی حکومت کے اس کھیل تماشے پر وہ صاف صاف کبھی بولتے نظر نہیں آتے۔ عالمی سیاست میں وہ کہاوت خوب مشہور ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بنسی بجا رہا تھا۔ سیاست میں جولوگ مرکزی کردار ادا کرتے ہیں ، ان کی خاموشی ان کی گفتگو سے کبھی کبھی زیادہ خطرناک اور مجرمانہ ہوجاتی ہے۔ اٹل بہاری باج پائی کی تیرہ دنوں کی حکومت کو یاد کیجیے کہ دوپہر میں نرسمہا راؤ کو کس طرح نیند آگئی اور سیکولر حکومت سازی کے لیے کانگریس کو صدرِ جمہوریہ کو جو خط سونپنا تھا ، اس میں دیری ہوئی۔ نتیجے کے طور پر صدر نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو حکومت سازی کی دعوت دے دی، جو حکومت پارلیمنٹ کا سامنا ہی نہیں کرسکی۔ یہ بھی خوب رہی کہ واج پائی کو مبارک باد دینے والے پہلے افراد میں نرسمہا راؤ ہی تھے۔

اس بات سے ہندستان کا کوئی سیاسی مشاہد اختلاف نہیں کرے گا کہ سیاسی زندگی میں نتیش کمار غیر فرقہ پرست انداز میں جینے کے عادی نہیں رہے ہیں ۔ مقامی سیاست سے لے کر کُرمی ریلی تک جہاں سے اُن کی سیاست میں قومی پہچان قائم ہوئی ؛ ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ سیاسی نقصان اٹھا کر بھی وہ سیکولر طاقتوں کے ساتھ رہے ہوں یا فرقہ پرست سیاست کی مخالفت میں کھڑے رہے۔ لوک دل اور جنتا دل کی جب تک سیاست چل رہی تھی ، اس کا پھل وہ پاتے رہے ۔ جیسے ہی انھیں محسوس ہوا کہ اب سیاست کا رُخ بدلنے والا ہے ، وہ دوسری طرف مُڑ گئے اور جارج فرنینڈیز کے ساتھ مل کر بھارتیہ جنتا پارٹی کو قومی سیاست میں اچھوت کی حیثیت سے نکال کر اقتدار کے قریب پہنچانے کے لیے آلۂ کار بننے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ بہار سے الگ وہ قومی سطح پر کابینہ وزیر بنے اور اپنا راج پاٹ چلانے میں کامیاب ہوئے۔

اسی طرح لالو کی سیاسی طاقت کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے مل کر کمزور کرنے اور پھر ایک بار ایک ہفتے کی سرکار اور پھر نَو برس کی حکومت سازی میں انھیں فرقہ پرستی سے کوئی بیر نہیں رہا۔ یہاں فرقہ پرست طاقتوں کے ساتھ ہوکر سیاسی مفاد حاصل ہوسکتے تھے، انہوں نے یہی کیا۔ اس دوران بھارتیہ جنتا پارٹی سے جو اختلافات ہوئے، ان میں اصول اور عمل کا معاملہ کم اور مستقبل کی بدلتی سیاست پر نگا ہ زیادہ تھی۔ انھیں اندازہ تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جب مرکز میں حکومت بنائے گی تو ان کی حیثیت بدل سکتی ہے۔ پہلا امتحان لوک سبھا کا الیکشن تھا جس میں صاحبِ اقتدار پارٹی ہوتے ہوئے انھیں صرف دو سیٹ حاصل ہوئی اور یہ بات نظر آنے لگی کہ آنے والے وقت میں ان کی حکومت کو بھارتیہ جنتا پارٹی اکھاڑ پھینکے گی۔ الیکشن کے دوران نریندر مودی اور امت شاہ سے عوامی طور پر لالو پرساد یادو نے مقابلہ کیا تھا اور نتیش کمار کے مقابلے ان کی پارٹی کو ڈھائی گنی نشستیں ملی تھیں ۔ یہ الگ بات کہ ان کی بیوی اور بیٹی سب چناؤ ہار گئے تھے۔

پارلیمنٹ کے انتخاب کے ڈیڑھ برسوں کے اندر بہار کا صوبائی انتخاب تھا اور نتیش کمار کو یہ معلوم تھا کہ سیاسی بساط پلٹ چکی ہے۔ انہوں نے اپنی ناکامی قبول کرتے ہوئے جیتن رام مانجھی کو وزیر اعلا کا کمان سونپتے ہوئے سب سے بڑا سیاسی کھیل یہ کیا کہ پارلیمنٹ میں شکست کے جتنے سیاسی تیر انھیں لگنے تھے ، اس سے ان کی جاں بخشی ہوئی۔ فرار پسند سیاست داں اسی انداز سے حکومت چلاتے ہیں ۔ جب جیت ہو تو خود سہرا لیں گے اور جب ہاریں گے تو شہادت کا درجہ پانے کے لیے کسی دوسرے کو بلی کا بکرا بنانے سے گریز نہیں کریں گے۔ لالو اور نتیش مل کر نیا انتخاب لڑیں ، اس میں دونوں کے مفاد شامل تھے۔ گذشتہ تین دہائی کی سیاست میں لالو یادو کی فرقہ پرست طاقتوں سے مورچہ بندی کے ثبوت بار بار ملے ہیں مگر نتیش کمار نے سیکولر جماعت کے ساتھ مل کر جو حکومت سازی کی ، اس میں حصولِ اقتدار کے علاوہ کوئی اور دوسرا اصول شاید ہی ہو۔

لالو یادو کا دوسرا مفاد واضح تھا کہ انھیں اپنے خاندان کی اگلی سیاست کے اطوار واضح کرنے تھے اور اس کھیل تماشے میں وہ بھی پورے طور پر کامیاب رہے۔ بہار کی حکومت سازی میں نتیش کمار کو کم سیٹوں کے باوجود وزارتِ اعلا کی کرسی ملی۔ اس میں انھیں فائدہ تھا اس لیے وہ بہ خوشی تیار رہے۔ مگر لالو پرساد یادو کی مقبولیت اور سیاسی گرفت سے نتیش کمار کو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف چھوٹے موٹے سوالات پر بیان دے کر ایک دوسرے کو احساس کراتے رہتے ہیں کہ یہ ساتھ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ لالو یادو کے لیے یہ مسئلہ ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے پچیس برس سے زیادہ دنوں سے دور ہیں ۔ کانگریس مخالف سیاسی منچ میں لالو یادو کی حیثیت 1990 ء سے ہی مرکزی طور پر تسلیم شدہ ہے۔ اس لیے ان کے اِدھر اُدھر ہونے کا سوال کم ہے۔
شاید اسی لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کی ساری جانچ ایجنسیاں اور بہار کے بھاجپا لیڈران بھی نتیش کمار کے بجائے لالو اور ان کے بیٹوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ نتیش کمار کے پاس ہمیشہ یہ راستہ ہے کہ وہ لالو کا ساتھ چھوڑ کر بھارتیہ جنتا پارٹی سے مل کر یا باہر سے مدد لے کر سرکار بنالیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بھاجپا کا مفاد یہ ہے کہ بہار کی سرکار ٹوٹے گی تو لالو کمزور ہوں گے اور ملک گیر سطح پر 2019ء کے انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف مہم چلا پانے میں وہ ناکام ہو جائیں گے۔ سیاسی مشاہدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھاجپا لالو کے پورے خاندان کو جیل تک پہنچائے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گی۔ لالو کو سیاست اور قانون کی یہ لڑائی بہرطور لڑنی ہے مگر الجھاؤ بڑھنے پر ان کی سیاسی سرگرمیوں پر قدغن لگے گی جس کا سیدھا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملنا ہے۔ نتیش کمار صدر کے انتخاب میں بھاجپا کے طرفدار ہوگئے۔ آج تک انہوں نے اس سلسلے میں کوئی بنیادی دلیل پیش نہیں کی جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ حزبِ اختلاف کی سیاست سے آخر وہ کیوں کر الگ ہوئے۔ اسی طرح مرکزی حکومت کے اشارے پر جانچ ایجنسیاں لالو یادو کے پورے خاندان پر پنجہ گاڑے ہوئے ہیں ؛ اس پر بھی نتیش کمار کھلے لفظوں میں اپنی رائے نہیں رکھتے۔ آنے والے وقت میں سیاست جس کروٹ بھی بیٹھے ، نتیش کمار کو یہ توقع ہے کہ وہ اس کے ساتھ ہوکر بہر طور فائدے میں رہیں گے۔ مگر یہ سورج کی روشنی میں ستارے دیکھنے کی مہم ہے۔ سیاست میں مفاد اور ہر قیمت پر کچھ نہ کچھ پالینے کی ہوڑ مچی رہتی ہے مگر آئین اور انسانیت کی بنیادی قدروں پہ سمجھوتا کے بجاے صاف صاف نقطۂ نظر ہونا چاہیے۔وقت کے مورخ کو بہرطور سب کا حساب دینا ہی پڑے گا۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply